یہ ارکان، ایک شخص کو اپنا امیر منتخب کرتے ہیں، نہ اس بنا پر کہ امارت اُس کا کوئی ذاتی حق ہے، بلکہ اِس بنا پر کہ بہرحال منظم طریقے پر کام کرنے کے لیے، ایک سربراہِ کار ہونا چاہیے۔ یہ منتخب کردہ امیر معزول کیا جا سکتا ہے اور جماعت میں سے، کوئی دُوسرا شخص اس کی جگہ امارت کے لیے چنا جا سکتا ہے ۔ یہ امیر صرف اسی جماعت کا امیر ہے، نہ کہ تمام اُمّت کا۔ اس کی اطاعت، صرف انھی لوگوں پر لازم ہے جو اِس جماعت میں شامل ہوں، اور ہمارے ذہنوں میں ایسا کوئی تصور تک نہیں ہے کہ ’’جس کی گردن میں اس کی بیعت کا کلادہ نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘
اب خدا را مجھے بتائیے کہ جب ہم اس طریقے پر کام کر رہے ہیں تو آخر ہماری اِس تحریک سے، اُمّت میں ایک نیا فرقہ کیسے بن جائے گا؟ عجیب تر بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے دامن، خود اِن غلطیوں سے آلودہ ہیں، جن کی وجہ سے فرقہ بندی کا فتنہ رونما ہوتا ہے ، جن کے ہاں خوابوں اور کشفوں اور کرامتوں کے چرچے ہیں، جن کے ہاں سارا کام کسی ’’حضرت‘‘ کی شخصی عقیدت کے بل پر چل رہا ہے، جن کے ہاں کسی شخصیت کے لیے، کسی مخصوص منصب کا دعوٰی کیا جاتا ہے ، جن کے ہاں فروعی مسائل پر جھگڑے اور مناظرے ہوتے ہیں اور اجتہادی مسالک پر دھڑے بندیاں کی جاتی ہیں، وہی ہمیں الزام دینے میں پیش پیش ہیں۔ اگر کوئی برا نہ مانے تو میں صاف کہوں کہ ہمارا اصل قصور جس پر یہ حضرات بگڑے ہوئے ہیں وہ نہیں ہے، جو یہ زبانوں سے کہتے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم نے دین کے اس اصلی کام کی طرف دعوت دی، جو اُن کے نفس کو مرغوب نہیں ہے ، اور اس کام کے لیے وہ صحیح طریقہ اختیار کیا جس سے اُن کے طریقوں کی غلطیاں بے نقاب ہونے لگیں۔