ہم سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تم نے اپنی جماعت کے لیڈر کے لیے ’’امیر‘‘ کا لفظ کیوں اختیار کیا ؟ امیر یا امام تو صرف با اختیار اور صاحبِ سیف ہی ہو سکتا ہے ۔ اس کی تائید میں کچھ حدیثیں بھی پیش کی جاتی ہیں، جن سے استدلال کیا جاتا ہے کہ امامت یا تو امامتِ علم ہے ، یا امامتِ نماز ، یا امامتِ قتال و جہاد۔ اس کے سوا کوئی تیسری قسم امامت کی نہیں ہے۔
یہ اعتراض جو حضرات کرتے ہیں وہ صرف اُس وقت کی فقہ اور اُس وقت کی احادیث سے واقف ہیں جب اسلامی نظام، سیاسی اقتدار کی منزل پر پہنچ چکا تھا اور صاحبِ سیف امامت قائم ہو گئی تھی، مگر اِنھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ جب سیف چھن جائے، مسلمانوں کی جماعت اختیار و اقتدار سے محروم ہو جائے اور اسلامی نظامِ جماعت بھی درہم برہم ہو جائے، تو اس وقت کے لیے کیا احکام ہیں۔ میں اِن سے پوچھتا ہوں کہ ایسی حالت میں کیا مسلمانوں کو یہی کرنا چاہیے کہ فرد فرد الگ ہو جائے اور بیٹھ کر بس دعا کرتا رہے کہ خدایا! کوئی صاحبِ سیف امام بھیج دے ، یا ایسی امامت قائم کرنے کے لیے کوئی اجتماعی سعی بھی ہونی چاہیے، تو براہِ کرم! وہ ہمیںبتائیں کہ جماعت بنائے بغیربھی کوئی اجتماعی سعی کی جا سکتی ہے ؟
اگر وہ مانتے ہیں کہ جماعت بنائے بغیر چارہ نہیں ہے تو کیا کوئی جماعت کسی راہ نما، کسی سربراہ ، کسی صاحبِ امر کے بغیر بھی چل سکتی ہے ؟ اگر وہ اس کی ضرورت بھی تسلیم کرتے ہیں تو وہ خود ہی ہمیں بتائیں کہ اس اسلامی مقصد کے لیے جو اسلامی جماعت بنائی جائے، اس کے سربراہِ کار کے لیے اسلام میں کیا اصطلاح مقرر ہے؟ جو اِصطلاح بھی وہ ارشاد فرمائیں گے، ہم اسی کو قبول کر لیں گے، بشرطیکہ وہ ہو اسلامی اصطلاح، یاپھر وہ صاف صاف یہی کہہ دیں کہ اسلام میں سیف حاصل ہونے کے بعد کے لیے تو ہدایات موجود ہیں لیکن ’’بے سیفی‘‘ کی حالت میں سیف کس طرح حاصل کی جائے۔ اس باب میں اس نے کوئی ہدایت نہیں دی ہے، اور یہ کام جسے کرنا ہو، اُسے غیر اسلامی طریقوں پر، غیر اسلامی اصطلاحوں سے کرنا چاہیے۔ اگر ان حضرات کا یہ منشا نہیں تو ہمارے لیے یہ مُعمّا ناقابلِ حل ہے کہ صدر، لیڈر اور قائد وغیرہ اصطلاحیں استعمال کی جائیں تو وہ سب انھیں گوارا ہیں، مگر ’’ امیر‘‘ کی اسلامی اصطلاح سنتے ہی، یہ کیوں چراغ پا ہو جاتے ہیں۔
عام طور پر لوگوں کو اس مسئلے کے سمجھنے میں جو دقت پیش آتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریمؐ کے عہد میں، جب امیر یا امام کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی، اُس وقت اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی، اور جس زمانے میں اسلامی حکومت قائم نہ ہوئی تھی، اُس وقت حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم خود نبی کی حیثیت سے، اقامتِ دین کی جدوجہد کی قیادت فرما رہے تھے۔ اس لیے امارت، یا امامت کی اصطلاحیں استعمال کرنے کا کوئی موقعہ نہ تھا۔