Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
تقریب
مسئلہ قتل مرتد شرعی حیثیت سے
حکم قتل مرتد کا ثبوت قرآن سے
حکم قتل مرتد کا ثبوت حدیث سے
خلافت راشدہ کے نظائر
مرتدوں کے خلاف خلیفۂ اوّل کا جہاد
ائمۂ مجتہدین کا اتفاق
دَارالاسلام میں تبلیغ کفر کا مسئلہ
مسئلہ کی تحقیق
اسلامی حکومت کا بنیادی مقصد
دارالاسلام میں ذمیوں اور مستامنوں کی حیثیت
دور نبوت اور خلافت راشدہ کا طرز عمل
قتل ِ مرتد پر عقلی بحث
معترضین کے دلائل
ایک بنیادی غلط فہمی
اعتراضات کا جواب
مجرد مذہب اور مذہبی ریاست کا بنیادی فرق
ریاست کا قانونی حق
انگلستان کی مثال
امریکا کی مثال
ریاست کا فطری حق
کافر اور مُرتد کے ساتھ مختلف معاملہ کیوں ہے؟
جوابی کارروائی کا خطرہ
پیدائشی مسلمانوں کا مسئلہ
تبلیغ کفر کے باب میں اسلامی رویے کی معقولیت

مرتد کی سزا

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

امریکا کی مثال

برطانیہ کے بعد اب دنیا کے دوسرے علم بردار جمہوریت ملک امریکا کو لیجیے۔ اس کے قوانین اگرچہ تفصیلات میں کسی حد تک برطانیہ سے مختلف ہیں، لیکن اصول میں وہ بھی اس کے ساتھ پوری موافقت رکھتے ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ یہاں جو مقام بادشاہ کو دیا گیا ہے وہاں وہی مقام ممالک متحدہ کی قومی حاکمیت اور وفاقی دستور کودیا گیا ہے۔ ممالک متحدہ کا پیدائشی شہری ہر وہ شخص ہے جو شہری کی اولاد سے پیدا ہوا ہو، خواہ ممالک متحدہ کے حدود میں پیدا ہوا ہو یا ان سے باہر۔ اور اختیاری شہری ہر وہ شخص ہوسکتا ہے جو چند قانونی شرائط کی تکمیل کے بعد دستورِ ممالکِ متحدہ کے اصولوں کی وفاداری کا حلف اٹھائے۔ ان دونوں قسم کے شہریوں کے ماسوا باقی سب لوگ امریکی قانون کی نگاہ میں ’’غیر‘‘ ہیں۔ شہری اور اغیار کے حقوق و واجبات کے درمیان مریکی قانون وہی فرق کرتا ہے جو برطانوی قانون ’’رعیت‘‘ اور ’’اغیار‘‘ کے حقوق و واجبات میں کرتا ہے۔ ایک غیر شخص شہریت کی قانونی شرطیں پوری کرنے کے بعد ممالک متحدہ کا شہری بن جانے میں تو آزاد ہے مگر شہری بن جانے کے بعد پھر اسے یہ آزادی حاصل نہیں رہتی کہ ممالک متحدہ کے حدود میں رہتے ہوئے وہ اس شہریت کو ترک کرکے پھر اپنی سابق قومیت کی طرف پلٹ جائے۔ اسی طرح کسی پیدائشی شہری کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ ممالک متحدہ کے حدود میں کسی دوسری قومیت کو اختیار کرے اور کسی دوسری اسٹیٹ کی وفاداری کا حلف اٹھالے۔ علیٰ ہذا القیاس شہریوں کے لیے غدر اور بغاوت قوانین ممالک متحدہ میں بھی انھی اصولوں پر مبنی ہیں جن پر برطانوی قوانین غدر و بغاوت کی اساس رکھی گئی ہے۔
اور یہ کچھ انھی دونوں سلطنتوں پر موقوف نہیں ہے بلکہ دنیا کے جس ملک کا قانون بھی آپ اٹھا کر دیکھیں گے، وہاں آپ کو یہی اصول کام کرتا نظر آئے گا کہ ایک اسٹیٹ جن عناصر کے اجتماع سے تعمیر ہوتا ہے ان کو وہ منتشر ہونے سے بزور روکتا ہے اور ہر اس چیز کو طاقت سے دباتا ہے جو اس کے نظام کو درہم برہم کرنے کا رجحان رکھتی ہو۔

شیئر کریں