اس کے بعد فاضل جج امام ابوحنیفہؒ کے مسلک سے استناد فرماتے ہیں ان کاارشاد ہے:
مگر ابوحنیفہؒ نے، جو ۸۰ھ میں پیدا ہوئے اور جن کا انتقال ۷۰ سال بعد ہوا، تقریباً ۱۷ یا ۱۸ حدیثیں ان مسائل کا فیصلہ کرنے میں استعمال کیں جو اُن کے سامنے پیش کیے گئے۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ رسول اللّٰہﷺ کے زمانے سے اس قدر قریب نہ تھے جس قدر پہلے چار خلفا تھے۔ انھوں نے تمام فیصلوں کی بِنا قرآن کی مکتوب ہدایات پر رکھی اور متن قرآن کے الفاظ کے پیچھے ان محرکات کو تلاش کرنے کی کوشش کی جو ان ہدایات کے موجب تھے۔ وہ استدلال واستنباط کی بڑی قوت رکھتے تھے۔ انھوں نے عملی حقائق کی روشنی میں قیاس کی بنیاد پر قانون کے اصول اور نظریات مرتب کیے۔ اگر ابوحنیفہؒ یہ حق رکھتے تھے کہ حدیث کی مدد کے بغیر قرآن کی تعبیر موجود الوقت حالات کی روشنی میں کریں، تو دوسرے مسلمانوں کو یہ حق دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
یہ ارشاد تمام تر غلط روایات اور مفروضات پر مبنی ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے متعلق ابن خلدون نے نہ معلوم کس سند پر یہ بات لکھ دی تھی کہ ’’حدیث قبول کرنے میں ابوحنیفہ اس قدر متشدد تھے کہ ان کے نزدیک ۱۷ سے زیادہ حدیثیں صحیح نہ تھیں۔‘‘ یہ بات چلتے چلتے لوگوں میں اس طرح مشہور ہوئی کہ امام ابوحنیفہؒ کو صرف ۱۷ حدیثوں کا علم تھا، یا یہ کہ انھوں نے صرف ۱۷ حدیثوں سے مسائل اخذ کیے ہیں حالانکہ یہ بالکل ایک خلاف واقعہ افسانہ ہے۔ آج امام ابوحنیفہؒ کے سب سے بڑے شاگرد امام ابویوسفؒ کی مرتب کردہ کتاب الآثار شائع شدہ موجود ہے جس میں انھوں نے اپنے استاذ کی روایت کردہ ایک ہزار احادیث جمع کی ہیں۔ اس کے علاوہ امام کے دوسرے دو نامور شاگردوں، امام محمد اور امام حسن بن زیاد اللؤلؤی نے اور امام کے صاحب زادے حماد بن ابی حنیفہ نے بھی ان کی روایت کردہ احادیث کے مجموعے مرتب کیے تھے۔ پھر مسلسل کئی صدیوں تک بکثرت علما ان کی مرویات کو ’’مسند ابی حنیفہ({ FR 7022 }) کے نام سے جمع کرتے رہے۔ ان میں سے ۱۵ مسانید کا ایک جامع نسخہ قاضی القضاۃ محمد بن محمود الخوارزمی نے جامع مسانید الامام الاعظم کے نام سے مرتب کیا جسے دائرۃ المعارف حیدر آباد نے دو جلدوں میں شائع کیا ہے۔ یہ کتابیں اس دعوے کی تردید قاطع ہیں کہ امام ابوحنیفہ صرف ۱۷ حدیثیں جانتے تھے، یا انھوں نے صرف ۱۷ حدیثوں سے استدلال کرکے فقہی مسائل نکالے ہیں۔ علم حدیث میں امام کے استادوں کی تعداد (جن سے انھوں نے روایات لی ہیں) چار ہزار تک پہنچتی ہے۔ ان کا شمار اکابر حفاظ حدیث میں کیا گیا ہے۔ ان کی مسانید جمع کرنے والوں میں دار قطنی، ابن شاہین اور ابن عُقدہ جیسے نام وَر علمائے حدیث شامل ہیں۔ کوئی شخص فقہ حنفی کی معتبر کتابوں میں سے اگر صرف امام طحاوی کی شرح معانی الآثار‘ ابوبکر جصّاص کی احکام القرآن اور امام سرخسی کی المبسوط ہی کو دیکھ لے تو اسے یہ غلط فہمی کبھی نہ لاحق ہو کہ امام ابوحنیفہؒ نے حدیث سے بے نیاز ہو کر صرف قیاس اور قرآن پر اپنی فقہ کی بنیاد رکھی تھی۔
پھر حدیث سے استناد کے معاملے میں امام ابوحنیفہؒ کا جو مسلک تھا اسے انھوں نے خود اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
مجھے جب کوئی حکم خدا کی کتاب میں مل جاتا ہے تو میں اسی کو تھام لیتا ہوں اور جب اس میں نہیں ملتا تو رسول اللّٰہﷺ کی سُنّت اور آپﷺ کے ان صحیح آثار کو لیتا ہوں جو ثقہ لوگوں کے ہاں ثقہ لوگوں کے واسطے سے معروف ہیں۔ پھر جب یہ کتاب اللّٰہ میں حکم ملتا ہے نہ سُنّت رسول اللّٰہﷺ میں تو میں اصحاب رسولﷺ کے قول (یعنی ان کے اجماع) کی پیروی کرتا ہوں، اور ان کے اختلاف کی صورت میں جس صحابی کا قول چاہتا ہوں، قبول کرتا ہوں اور جس کا چاہتا ہوں، چھوڑ دیتا ہوں۔ مگر ان سب کے اقوال سے باہر جا کر کسی کا قول نہیں لیتا۔ رہے دوسرے لوگ تو جس طرح اجتہاد کا حق انھیں ہے، مجھے بھی ہے۔({ FR 7023 })
امام ابوحنیفہؒ کے سامنے ایک مرتبہ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ قیاس کو نص پر ترجیح دیتے ہیں۔ اس پر انھوں نے فرمایا:
بخدا، اس شخص نے جھوٹ کہا اور ہم پر افترا کیا جس نے کہا کہ ہم قیاس کو نص پر ترجیح دیتے ہیں، بھلا نص کے بعد بھی قیاس کی کوئی حاجت رہتی ہے۔({ FR 7024 })
خلیفہ منصور نے ایک مرتبہ امام کو لکھا کہ میں نے سنا ہے آپ قیاس کو حدیث پر مقدم رکھتے ہیں۔ جواب میں انھوں نے لکھا:
امیر المومنین! جو بات آپ کو پہنچی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ میں سب سے پہلے کتاب اللّٰہ پر عمل کرتا ہوں، پھر رسول اللّٰہ ﷺ کی سُنّت پر، پھر ابوبکرؓ وعمرؓ اور عثمان وعلی رضی اللّٰہ عنہم کے فیصلوں پر، پھر باقی صحابہؓ کے فیصلوں پر، البتہ جب صحابہؓ میں اختلاف ہو تو قیاس کرتا ہوں۔({ FR 7025 })
علامہ ابن حزمؒ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ:
تمام اصحابِ ابی حنیفہؒ اس بات پر متفق ہیں کہ ابوحنیفہ کا مذہب یہ تھا کہ ضعیف حدیث بھی اگر مل جائے تو اس کے مقابلے میں قیاس اور رائے کو چھوڑ دیا جائے۔({ FR 7026 })