سوال
آیت لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ ( البقرة:۲۵۶)کی تفسیر کرتے ہوئے ایک مفسر کہتا ہے کہ’’مسلمانو ں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ جب ان کے ہاتھ میں اقتدار ہو تو انھیں اس اُصول کی پیروی کرنی چاہیے کہ دین میں جبر سے کام نہ لیا جائے۔‘‘ یہ مفسر اس آیت کے حکم کو صرف اس حالت کے لیے کیوں مخصو ص کرتا ہے جب کہ مسلمان اقتدار رکھتے ہوں ؟کیا آپ اس تأویل سے اتفاق کرتے ہیں ۔ اگر آپ کو بھی اس سے اتفاق ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اس وقت تک جبر سے کام لے سکتے ہیں جب تک انھیں اقتدار حاصل نہ ہوجائے؟
جواب
جس مفسر کے قول کا حوالہ آپ نے دیا ہے،اس کا منشا یہ نہیں معلوم ہوتا کہ جب تک مسلمان برسر اقتدار نہ ہوں ،وہ زبردستی اپنے دین میں لوگوں کو داخل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں البتہ جب وہ اقتدار حاصل کرلیں تو جبر کا استعمال چھوڑ دیں ،بلکہ اس نے آیت کی یہ تفسیر غالباً اس مفروضے پر کی ہے کہ جبر کا سوال پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب کہ کسی شخص یا گروہ کو کسی دوسرے شخص یا گروہ پر کسی نہ کسی طرح کا جابرانہ اثر واقتدار حاصل ہو،ورنہ ظاہر ہے کہ ایک غیر مقتدر آدمی سے یہ کہنا بے معنی ہے کہ تو جبر نہ کر۔ مجھے معاف کیجیے اگر میں یہ کہوں گا کہ آپ نے اس مفسر کے قول کا جو الٹا مطلب لیا ہے،وہ منطق کے لحاظ سے بھی درست نہیں ہے۔ ( ترجمان القرآن،اکتوبر ۱۹۵۵ء)