ان امور کو نگاہ میں رکھ کر فردًا فردًا ان احادیث کو ملاحظہ فرمائیے جو فاضل جج نے پیش کی ہیں:
O پہلی حدیث میں حضرت عائشہؓ دراصل یہ بتانا چاہتی ہیں کہ نبی ﷺاگرچہ رہبانیت سے بالکل دور تھے، اور اپنی بیویوں سے وہی ربط وتعلق رکھتے تھے جودُنیا کے ہر شوہر کا اپنی بیوی سے ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ سے آپﷺ کا ایسا گہرا تعلق تھا کہ بستر میں بیوی کے ساتھ لیٹ جانے کے بعد بھی بسا اوقات یکایک آپ ﷺ پر عبادت کا شوق غالب آ جاتا تھا اور آپﷺ دُنیا کا لطف وعیش چھوڑ کر اس طرح اٹھ جاتے تھے کہ گویا آپﷺ کو خدا کی بندگی کے سوا کسی چیز سے دل چسپی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ نبی ﷺ کی حیات طیبہ کا یہ مخفی گوشہ آپﷺ کی اہلیہ کے سوا اور کون بتا سکتا تھا؟ اور اگر یہ روشنی میں نہ آتا تو آپﷺ کے اخلاص للہ کی صحیح کیفیت دُنیا کیسے جانتی؟ مجلسِ وعظ میں خدا کی مَحبّت اور خشیت کا مظاہرہ کون نہیں کرتا۔ سچی اور گہری مَحبّت وخشیّت کا حال تو اسی وقت کھلتا ہے جب معلوم ہو کہ گوشۂ تنہائی میں آدمی کا رنگ زندگی کیا ہوتا ہے۔
O دوسری حدیث میں دراصل بتانے کا مقصود یہ ہے کہ بوسہ بجائے خود وضو توڑنے والی چیز نہیں ہے جب تک کہ غلبۂ جذبات سے کوئی رطوبت خارج نہ ہو جائے۔ عام طور پر لوگ خود بوسے ہی کو ناقضِ وضو سمجھتے تھے اور ان کا خیال یہ تھا کہ اس سے اگر وضو ٹوٹتا نہیں ہے تو کم از کم طہارت میں فرق ضرور آ جاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ کو ان کا شک دور کرنے کے لیے یہ بتانا پڑا کہ حضورﷺ نے خود اس کے بعد وضو کیے بغیر نماز پڑھی ہے۔ یہ مسئلہ دوسرے لوگوں کے لیے چاہے کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو، مگر جنھیں نماز پڑھنی ہو ان کو تو یہ معلوم ہونے کی بہرحال ضرورت ہے کہ کس حالت میں وہ نماز پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں اور کس حالت میں نہیں ہوتے۔
O تیسری حدیث میں ایک خاتون کو اس مسئلے سے سابقہ پیش آ جاتا ہے کہ اگر ایک عورت اسی طرح کا خواب دیکھے جیسا عام طور پر بالغ مرد دیکھا کرتے ہیں تو وہ کیا کرے؟ یہ صورت چوں کہ عورتوں کو بہت کم پیش آتی ہے اس لیے عورتیں اس کے شرعی حکم سے ناواقف تھیں۔ ان خاتون نے جا کر مسئلہ پوچھ لیا اور حضورﷺ نے یہ بتا کر کہ عورت کو بھی مرد ہی کی طرح غسل کرنا چاہیے، نہ صرف ان کو بلکہ تمام عورتوں کو ایک ضروری تعلیم دے دی۔ اس پر اگر کسی کو اعتراض ہے تو گویا وہ یہ چاہتا ہے کہ عورتیں اپنی زندگی کے مسائل کسی سے نہ پوچھیں اور شرم کے مارے خود ہی جو کچھ اپنی سمجھ میں آئے کرتی رہیں۔ رہا حدیث کا دوسرا ٹکڑا تو اس میں ایک خاتون کے اظہارِ تعجب پر حضورﷺ نے یہ علمی حقیقت بیان فرمائی ہے کہ عورت سے بھی اسی طرح مادہ خارج ہوتا ہے جس طرح مرد سے ہوتا ہے۔ اولاد ان دونوں کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے اور دونوں میں سے جس کا نطفہ بھی غالب رہتا ہے بچے میں اسی کی خصوصیات زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ اس حدیث کی جو تفصیلات بخاری و مسلم کے مختلف ابواب میں آئی ہیں ان کو ملا کر دیکھیے۔ ایک روایت میں حضورﷺ کے الفاظ یہ ہیں:
وَھَلْ یَکٔوْنُ الشِّبْہُ اِلاَّ مِنْ قِبَلِ ذَالِکَ اِذَا عَلاَ مَا ئُ ھَا مَائَ الرَّجُلِ اَشْبَہَ الْوَلَدُ اَخَوَالَہ‘ وَاِذَا عَلاَ مَائُ الرَّجُلِ مَائَ ھَا اَشْبَہَ الْوَلَدُ اَعْمَامَہ۔
اور کیا اولاد کی مشابہت اس کے سوا کسی اور وجہ سے ہوتی ہے؟ جب عورت کا نطفہ مرد کے نطفے پر غالب رہتا ہے تو بچہ ننھیال پر جاتا ہے اور جب مرد کا نطفہ اس کے نطفے پر غالب رہتا ہے تو بچہ ددھیال پرجاتا ہے۔
منکرین حدیث نے جہالت یا شرارت سے ان احادیث کو یہ معنی پہنائے ہیں کہ مجامعت میں اگر مرد کا انزال عورت سے پہلے ہو تو بچہ باپ پر جاتا ہے ورنہ ماں پر۔ ہم اس ملک کی حالت پر حیران ہیں کہ یہاں جہلا اور اشرار علانیہ اس قسم کی علمی دغا بازی کر رہے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تک تحقیق کے بغیر اس سے متاثر ہو کر اس غلط فہمی میں پڑ رہے ہیں کہ احادیث ناقابل یقین باتوں سے لبریز ہیں۔
O چوتھی حدیث میں حضرت عائشہؓ نے یہ بتایا ہے کہ زوجین ایک ساتھ غسل کر سکتے ہیں اور حضورﷺ نے خود ایسا کیا ہے۔ اس مسئلے کے معلوم کرنے کی ضرورت دراصل ان لوگوں کو پیش آئی تھی جن کے ہاں بیویاں اور شوہر سب نماز کے پابند تھے۔ فجر کے وقت ان کو بارہا اس صورت حال سے سابقہ پیش آتا تھا کہ وقت کی تنگی کے باعث یکے بعد دیگرے غسل کرنے سے ایک کی جماعت چھوٹ جاتی تھی۔ایسی حالت میں ان کو یہ بتانا ضروری تھا کہ دونوں کا ایک ساتھ غسل کر لینا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ مدینے میں اس وقت بجلی کی روشنی والے غسل خانے نہیں تھے اور فجر کی نماز اس زمانے میں اول وقت ہوا کرتی تھی، اور عورتیں بھی صبح اور عشا کی نمازوں میں مسجد جایا کرتی تھیں۔ ان باتوں کو نگاہ میں رکھ کر ہمیں بتایا جائے کہ اس حدیث میں کیا چیز ماننے کے لائق نہیں ہے۔
O پانچویں حدیث میں حضرت عائشہؓ نے بتایا ہے کہ خواب سے غسل کس حالت میں واجب ہوتا ہے اور کس حالت میں واجب نہیں ہوتا۔
چھٹی حدیث میں انھوں نے یہ بتایا ہے کہ
O بیداری کی حالت میں غسل کب واجب ہوجاتا ہے۔ ان دونوں حدیثوں کو آدمی اس وقت تک پوری طرح نہیں سمجھ سکتا جب تک اُسے یہ نہ معلوم ہو کہ وجوبِ غسل کے معاملے میں اس وقت صحابہ کرام اور تابعینؒ کے درمیان ایک اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ بعض صحابہ ؓاور ان کے شاگرد اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ غسل صرف اس وقت واجب ہوتا ہے جب مادہ خارج ہو۔ اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے حضرت عائشہؓ کو یہ بتانا پڑا کہ یہ حکم صرف خواب کی حالت کے لیے ہے، بیداری میں مجرد دخول موجب غسل ہو جاتا ہے اور نبی ﷺ کا اپنا عمل اسی طریقے پر تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ نماز پڑھنے والوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتا تھا کیوں کہ جو شخص صرف خروجِ مادہ پر غسل واجب ہونے کا قائل ہوتا، وہ مباشرت بلا اخراجِ مادہ کے بعد نماز پڑھنے کی غلطی کر سکتا تھا، نبیﷺ کا اپنا عمل بتانے ہی سے اس مسئلے کا قطعی فیصلہ ہوا۔
O احادیث نمبر ۷، ۸،۹،۱۰ ،اور ۱۱ کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جنابت اور حیض کی حالت میں انسان کے ناپاک ہونے کا تصور قدیم شریعتوں میں بھی تھا اور شریعتِ محمدیہﷺ میں بھی پیش کیا گیا، لیکن قدیم شریعتوں میں یہودیوں اور عیسائی راہبوں کی مبالغہ آرائی نے اس تصور کو حدِ اعتدال سے اتنا بڑھا دیا تھا کہ وہ اس حالت میں انسان کے وجود ہی کو ناپاک سمجھنے لگے تھے، اور ان کے اثر سے حجاز کے، اور خصوصاً مدینے کے باشندوں میں بھی یہ تصور حدِ مبالغہ کو پہنچ گیا تھا۔ خصوصاً حائضہ عورت کا تو اس معاشرے میں گویا پورا مقاطعہ ہو جاتا تھا۔ چنانچہ اسی کتاب مشکوٰۃ میں، جس سے فاضل جج نے یہ حدیث نقل کی ہیں، باب الحیض کی پہلی حدیث یہ ہے کہ ’’جب عورت کو حیض آتا تھا تو یہودی اس کے ساتھ کھانا پینا اور اس کے ساتھ رہنا سہنا چھوڑ دیتے تھے۔ نبیﷺ نے لوگوں کو بتایا کہ اس حالت میں صرف فعل مباشرت ناجائز ہے، باقی ساری معاشرت اسی طرح رہنی چاہیے جیسی عام حالت میں ہوتی ہے۔‘‘ لیکن اس کے باوجود ایک مدت تک لوگوں میں قدیم تعصبات باقی رہے اور لوگ یہ سمجھتے رہے کہ جنابت اور حیض کی حالت میں انسان کا وجود کچھ نہ کچھ گندا تو رہتا ہی ہے، اور اس حالت میں اس کا ہاتھ جس چیز کو لگ جائے وہ بھی کم از کم مکروہ تو ضرور ہو جاتی ہے۔ ان تصورات کو اعتدال پر لانے کے لیے حضرت عائشہؓ کو یہ بتانا پڑا کہ حضورؐ خود اس حالت میں کوئی اجتناب نہیں فرماتے تھے۔ آپؐ کے نزدیک نہ پانی گندا ہوتا تھا، نہ بستر، نہ جا نماز۔ نیز یہ بھی انھوں نے ہی بتایا کہ حائضہ بیوی کے ساتھ اس کا شوہر صرف ایک فعل نہیں کر سکتا، باقی ہر قسم کا اختلاط جائز ہے۔ ان تعصبات کو حضورﷺ کا اپنا فعل بتا کر حضرت عائشہؓ اور دوسری ازواج مطہرات نے نہ توڑ دیا ہوتا تو آج ہمیں اپنی گھریلو معاشرت میں جن تنگیوں سے سابقہ پیش آ سکتا تھا ان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے لیکن اپنے ان محسنوں کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے ہم اب بیٹھے یہ سوچ رہے ہیں کہ بھلا نبیﷺ کی بیوی اور ایسی باتیں بیان کرے!