قرآن مجید کی وہ اصل آیت، جو اسلام کے قانون تعددِ ازواج کی بنیاد ہے، سورۂ نساء کے آغاز میں ہم کو حسب ذیل الفاظ میں ملتی ہے:
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ج فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِ لُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ط ذٰلِکَ اَدْنٰی اَلاَّ تَعُوْلُوْا۔
’’اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو عورتوں میں سے جو تم کو پسند آئیں ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین، چار چار۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو، یا ان عورتوں کو زوجیت میں لائو جو تمہارے قبضے میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے۔‘‘
اس آیت کے تین مفہوم اہل تفسیر نے بیان کیے ہیں:
(۱) حضرت عائشہؓ اس کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں جو یتیم بچیاں لوگوں کی سرپرستی میں ہوتی تھیں، ان کے مال اور ان کے حسن و جمال کی وجہ سے، یا اس خیال سے کہ ان کا کوئی سردھرا تو ہے نہیں، جس طرح ہم چاہیں گے دبا کر رکھیں گے، وہ ان کے ساتھ خود نکاح کرلیتے تھے اور پھر ان پر ظلم کیا کرتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے تو دوسری عورتیں دنیا میں موجود ہیں، ان میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان کے ساتھ نکاح کرلو۔ (اسی سورت میں انیسویں رکوع کی پہلی آیت اس تفسیر کی تائید کرتی ہے)۔
(۲) ابن عباسؓ اور ان کے شاگرد عِکْرِمہ اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ جاہلیت میں نکاح کی کوئی حد نہ تھی۔ ایک ایک شخص دس دس بیویاں کرلیتا تھا اور جب اس کثرت ازواج سے مصارف بڑھ جاتے تھے تو مجبور ہو کر اپنے یتیم بھتیجوں، بھانجوں اور دوسرے بے بس عزیزوں کے حقوق پر دست درازی کرتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چار کی حد مقرر کر دی اور فرمایا کہ ظلم اور بے انصافی سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ ایک سے لے کر چار تک اتنی بیویاں کرو جن کے ساتھ تم عدل پر قائم رہ سکو۔
(۳)سعید بن جُبیر اور قتادہؒ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ جہاں تک یتیموں کا معاملہ ہے، اہل جاہلیت بھی ان کے ساتھ بے انصافی کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ لیکن عورتوں کے معاملے میں ان کے ذہن عدل و انصاف کے تصور سے خالی تھے۔ جتنی چاہتے تھے شادیاں کرلیتے تھے اور پھر ان کے ساتھ ظلم و جور سے پیش آتے تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بے انصافی کرنے سے ڈرو۔ اوّل تو چار سے زیادہ نکاح ہی نہ کرو، اور اس چار کی حد میں بھی بس اتنی بیویاں رکھو جن کے ساتھ انصاف کرسکو۔
آیت کے الفاظ ان تینوں تفسیروں کے محتمل ہیں۔ اور عجب نہیں کہ تینوں مفہوم مراد ہوں۔ نیز اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کرسکتے تو اُن عورتوں سے نکاح کرلو جن کے ساتھ یتیم بچے ہیں، تاکہ وہ یتیم تمہارے اپنے بچوں کی طرح ہو جائیں اور تم ان کے مفاد کا لحاظ کرنے لگو۔
اس بات پر تمام فقہائے امت کا اجماع ہے کہ یہ آیت ایک مسلمان مرد کو یہ اختیار دیتی ہے کہ چار کی حد تک وہ جتنی بیویاں چاہے کرلے، اور یہ فیصلہ اس کی اپنی ہی صواب دید پر چھوڑتی ہے کہ وہ ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے یا ایک سے زیادہ کو اپنی زوجیت میں لائے۔
اس بات پر بھی فقہائے امت کا قریب قریب اجماع ہے کہ اس آیت کی رُو سے تعددِ ازواج کو محدود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غیلان جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اسی طرح ایک دوسرے شخص نوفل بن معاویہ کی پانچ بیویاں تھیں۔ آپؐ نے حکم دیا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے۔
نیزیہ آیت تعدُّد ازواج کو عدل کے ساتھ مشروط کرتی ہے۔ جو شخص ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کے بعد عدل کی شرط پوری نہیں کرتا، وہ درحقیقت شریعت کی دی ہوئی اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ اسلامی حکومت کی عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ جس بیوی یا جن بیویوں کے ساتھ وہ انصاف نہ کر رہا ہو ان کی داد رسی کرے۔