پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اسلام تمام عالم انسانی کے لیے بنیادی اصلاح کا ایک پیغام اور عملی اصلاح کا ایک انقلابی پروگرام لے کر آیا ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے‘ کہ تمام انسان اﷲ وحدہٗ لاشریک کی حاکمیت تسلیم کریں‘حتیٰ کہ اس کے حکم کے سوا ہر دوسرا حکم باطل ہوجائے‘ اور اس کا پروگرام یہ ہے‘ کہ انسانوں میں سے جو لوگ اس دعوت کو قبول کریں‘ وہ ایک جتھا بنا کر اپنا پورا زور اس بنیادی اصلاح کو عملاً نافذ کرنے میں صرف کر دیں‘ یہاں تک کہ اشخاص کی‘ خاندانوں اور طبقوں کی‘ قوموں اور نسلوں کی فرماں روائی اور جمہور کی حکومت خود اختیاری بالکلیہ مٹ جائے‘ اور خدا کی سلطنت میں اس کی رعیت پر صرف اسی کا قانون عملاً جاری ہو۔ یہی پیغام اور یہی پروگرام انبیاء علیہم السّلام ابتدا سے لے کر آتے رہے ہیں۔ اسی ایک مقصد پر انہوں نے اپنی تمام سعی وجہد کو مرکوز کیا ہے۔ اور مسلمان‘ جو انبیاء کے وارث اور ان کے پیرو ہیں‘ ان کے لیے بھی اس کے سوا نہ کوئی دوسرا مقصد ہے‘ اور نہ کوئی دوسری راہِ عمل۔ مسلمانوں کی مختلف سیاسی جماعتوں پر مجھے جو کچھ اعتراض ہے وہ یہی ہے‘ کہ اپنے آپ کو مسلم (یعنی متبعین انبیا) کہنے کے باوجود انہوں نے اس نصب العین اور اس راہِ عمل کو چھوڑ کر ایسے مقاصد اور طریقے اختیار کر لیے ہیں‘ جن کو اسلام سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔
ان لوگوں کو چھوڑ کر جو اسلام کے علم سے بالکل ہی بے بہرہ ہیں‘ آج تک مجھے کوئی مسلمان‘ خواہ وہ کسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو‘ ایسا نہیں ملا جس نے اس اعتراض کو سن کر اصولی حیثیت سے تسلیم نہ کیا ہو۔ سب مانتے ہیں‘ کہ بلا شبہ مسلمان کا اصلی کام یہی ہے‘ اور اسی منزل کی طرف انبیاء علیہم السّلام نے ہماری رہنمائی کی ہے‘ لیکن جواب میں دو مختلف سمتوں سے دو مختلف آوازیں آتی ہیں۔
’’آزادی پسند‘‘ علماء اور ان کے ہم خیال مسلمان اس راستہ پر آنے کی مشکلات یوں بیان فرماتے ہیں‘ کہ ہندوستان میں اگر صرف مسلمان آباد ہوتے‘ یا مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہوتی‘ جیسی مصر‘ ایران‘ عراق وغیرہ ممالک میں ہے۔تب تو ہمارے لیے آسان تھا‘ کہ حکومت ِالٰہیہ کے لیے جدوجہد کرتے اور اس صورت میں اس کے قائم ہونے کا امکان بھی تھا مگر مشکل یہ ہے‘ کہ یہاں ہم قلیل التعداد ہیں‘ اکثریت غیر مسلم ہے‘ حکومتِ الٰہیہ کے نام سے کانوں پر ہاتھ رکھتی ہے‘ اور صرف مشترک وطنی حکومت ہی کے نصب العین تک اس کی نظر جا سکتی ہے۔ اوپر انگریزی حکومت بیٹھی ہے‘ جو ہمیں اور غیر مسلم ہمسایوں کو ایک ساتھ دبائے ہوئے ہے۔ خود مسلمانوں کی آبادی کا کثیر حصّہ بھی اخلاقی واعتقادی حیثیت سے انتہائی تنزل کی حالت میں ہے۔ لہٰذا اس وقت جو کچھ ہوسکتا ہے وہ یہی ہے‘ کہ مشترک حکومت کے نصب العین کو قبول کر کے غیر مسلموں کے ساتھ مل کر‘ انگریزی اقتدار سے نجات حاصل کر لی جائے۔ یہ مرحلہ طے ہونے کے بعد آزاد ہندستان میں ہم اپنی قوّتوں کو پھر مجتمع کریں گے‘ اور اپنے نصب العین کے لیے جدوجہد شروع کر دیں گے۔ اس کے سوا اور کوئی راستہ اس وقت قابلِ عمل نہیں ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ اور اس کے ہم خیال لوگ اپنی مشکلات کو ایک دوسرے رنگ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں‘ کہ ہم یہاں اوّل تو قلیل التعداد ہیں‘ پھر تعلیمی اور معاشی حیثیت سے ہماری قوّت بہت کم ہے‘ اور مزید برآں ایک ایسی تنگ نظر اکثریت نے سیاسی اور معاشی قوّتوں کے منابع پر تسلّط حاصل کر لیا ہے‘ جو عملاً تو ہم کو ایک الگ قوم سمجھ کر تعلیم حاصل کرنے اور پیٹ بھرنے کے ہر دروازے سے دور ہٹاتی ہے۔ مگر سیاسی اغراض کے لیے‘ اصولاً ہمارے مستقل قومی وجود سے انکار کر دیتی ہے‘ اور چاہتی ہے‘ کہ ہم ’’ہندستانی قوم‘‘ میں شامل ہوکر یہاں ایک ایسی جمہوری حکومت قائم ہوجانے دیں جس میں سیاسی طاقت کے حصول کا ذریعہ محض ووٹوں کی کثرت ہو۔ اس مقصد میں اس کے کامیاب ہوجانے کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم اپنی قومی شخصیت ہی کو سرے سے کھو دیں۔ پھر بھلا حکومتِ الٰہیہ کا خواب کہاں دیکھا جا سکے گا؟ لہٰذا سرِدست اس کے سوا کوئی قابلِ عمل صورت نہیں ہے‘ کہ جس طرح دنیا کی اور سب قومیں اپنی تنظیم کیا کرتی ہیں اسی طرح ہم بھی اپنی تنظیم کریں‘ اور دنیا میں جس طرح سیاسی لڑائی لڑی جاتی ہے اسی طرح ہم بھی لڑکر سب سے پہلے ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے‘ اسی جمہوری دستور کے مطابق جو انگریزی تصوّرِ جمہوریت کے تحت بنتا ہے‘ اپنی حکومت قائم کر لیں۔ بعد میں جب اختیارات ہمارے ہاتھ میں آجائیں گے‘ تو ہم مسلمانوں کی تعلیم اور ان کی اخلاقی وتمدّنی حالت کو درست کر کے‘ رفتہ رفتہ حکومت جمہوریہ کو حکومتِ الٰہیہ میں تبدیل کر لیں گے‘ اور اﷲ نے چاہا تو پھر باقی ہندوستان کی بازیافت کے لیے بھی جدوجہد کرتے رہیں گے۔
بظاہر دونوں فریقوں کے خیالات میں بڑا وزن محسوس ہوتا ہے‘ اور یہی وجہ ہے‘ کہ ہندوستان کے مسلمان زیادہ تر انہی دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے‘ کہ جن مشکلات کا یہ لوگ ذکر کرتے ہیں ان میں قطعاً کوئی وزن نہیں ہے‘ بلکہ خود یہی بات کہ حکومتِ الٰہیہ کے راستے میں انہیں اس نوعیت کی مشکلات نظر آتی ہیں‘ اس امر کا صریح ثبوت ہے‘ کہ انہوں نے اسلامی تحریک کے مزاج اور اس کے طریق کار (technique)کو سرے سے سمجھا ہی نہیں۔ زیادہ گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں‘ اگر اس تحریک کی تاریخ ہمارے سامنے ہو‘ تو بادی النظر ہی میں ان عذرات کی غلطی نمایاں ہوجاتی ہے۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی رسول آیا ہے اکیلا ہی آیا ہے۔ اقلیت اور اکثریت کا کیا سوال‘ وہاں سرے سے کوئی ’’مسلمان قوم‘‘ موجود ہی نہ تھی۔ ایک فی قوم‘ بلکہ ایک فی دنیا کی حیرت انگیز اقلیت کے ساتھ رسول یہ دعویٰ لے کر اُٹھتا ہے‘ کہ میں زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنے آیا ہوں۔ چند گِنے چُنے آدمی اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں‘ اور یہ آٹے میں نمک سے بھی کم اقلیت‘ حکومتِ الٰہیہ کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ اکثریت کا سمندر اس کے ساتھ جو کچھ سلوک کرتا ہے‘ اس کے مقابلہ میں ہندستان کی غیر مسلم اکثریت کے اس قہر وتسلط کی سرے سے کوئی حیثیت ہی نہیں ہے‘ جس کا نوحہ کرتے کرتے ہمارے ’’مسلم قوم پرست‘‘ بھائیوں کے آنسو خشک ہوئے جا رہے ہیں۔ دفتروں کی ملازمت‘ منڈیوں کے کاروبار‘ اور ڈسٹرکٹ بوڑدوں کے معاملات کا کیا ذکر‘ وہاں سانس لینے کا حق بھی اس اقلیت کو نہیں دیا جاتا تھا۔ پھر حکومت‘ خواہ وہ ملکی ہویا غیر ملکی‘ جس پنجۂ ظلم وشکنجۂ قہر میں ان کو کستی تھی اس کو کسی معنی میں بھی ہندستان کے ان انگریز فرماںروائوں کے برتائو سے تمثیل نہیں دی جا سکتی‘ جن کے ظلم وجور کارونا ہمارے’’آزادی پسند‘‘ بھائی رات دن رویا کرتے ہیں‘ پھر یہ بھی کچھ ضروری نہ تھا‘ کہ بہرحال رسول اور اصحابِ رسول حکومتِ الٰہیہ قائم کرنے میں کامیاب ہوہی گئے ہوں۔ بار ہا وہ اس مقصد میں ناکام ہوئے ہیں۔ان کو اور ان کے ساتھیوں کو قتل کر دیا گیا ہے‘ اور خدائی کے جھوٹے مدعیوں نے اپنی دانست میں اس تحریک کا قلمع قمع کر کے چھوڑا ہے۔ مگر اس کے باوجود جو لوگ اﷲ پر ایمان لائے تھے‘ اور جن کے نزدیک کرنے کا کام بس یہی تھا‘ انہوں نے آخری سانس تک اسی مقصد کے لیے کام کیا‘ اور کسی ایک نے بھی اکثریت کا یا حکومت کا رنگ دیکھ کر‘ یا وقتی ومقامی مشکلات کا خیال کر کے دوسرے راستوں کی طرف ادنیٰ التفات تک نہ کیا۔
پس یہ کہنا بالکل غلط ہے‘ کہ اس تحریک کو اُٹھانے اور چلانے کے لیے خارج میں کسی سامان اور ماحول میں کسی ساز گاری کی ضرورت ہے۔ جس سامان اور جس ساز گار ماحول کو یہ لوگ ڈھونڈتے ہیں‘ وہ نہ کبھی فراہم ہوا ہے‘ نہ فراہم ہوگا۔ دراصل خارج میں نہیں‘ بلکہ مسلمان کے اپنے باطن میں ایمان کی ضرورت ہے۔ اس قلبی شہادت کی ضرورت ہے‘ کہ یہی مقصد حق ہے‘ اور اس عزم کی ضرورت ہے‘ کہ میرا جینا اور مرنا اسی مقصد کے لیے ہے۔ یہ ایمان‘ یہ شہادت‘ یہ عزم موجود ہو‘ تو دنیا بھر میں ایک اکیلا انسان یہ اعلان کرنے کے لیے کافی ہے‘ کہ میں زمین پر خدا کی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہوں۔ اس کی پُشت پر کسی منظم اقلیت یا کسی حکومتِ خود اختیاری رکھنے والی اکثریت کی قطعاً کوئی حاجت نہیں۔ نہ اس امر ہی کی کوئی حاجت ہے‘ کہ اس کا ملک پہلے بیرونی قوم کے تسلّط سے آزاد ہوجائے۔ بیرونی قوم کیا‘ اور گھر کی قوم کیا‘ اﷲ کے سوا دو سروں کی حاکمیت تسلیم کرنے والے سب انسان اس کے لیے یکساں ہیں۔ سب کی اس سے اور اس کی سب سے یکساں لڑائی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السّلام سے رومیوں نے جو کچھ برتائو کیا‘ اس سے زیادہ ہولناک برتائو وہ تھا‘ جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے ان کی اپنی قوم نے کیا۔
یہ تو وہ بات ہے‘ جو بادی النظر میں ہر وہ شخص محسوس کر سکتا ہے‘ جس نے قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہے۔ لیکن ذرا زیادہ گہری نظر سے دیکھا جائے‘ تو معلوم ہوتا ہے‘ کہ جس نوعیت کی مشکلات کو یہ لوگ اپنی راہ میں حائل پار ہے ہیں‘ وہ دراصل ایک قوم کی مشکلات ہیں نہ کہ ایک تحریک کی۔جہاں ایک قوم اپنی زندگی اور اپنی قومی اغراض کے لیے جدوجہد کر رہی ہووہاں تو بلا شبہ اسی قسم کے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اس کے لیے ان سوالات میں بڑی اہمیت ہوتی ہے‘ کہ جس ملک میں وہ آباد ہے وہاں اس کی تعداد کتنی ہے؟ اس میں تنظیم ہے‘ یا نہیں؟اس کی تعلیمی حالت کیسی ہے؟اس کی معاشی حالت کیسی ہے؟اس کے اوپر ایک پتھر کا بوجھ ہے‘ یا دو پتھروں کا؟انہی سوالات کے جوابات پر اس کا مستقبل منحصر ہوتا ہے‘ اور انہی سوالات کے لحاظ سے اس کو اپنی پالیسی متعین کرنی پڑتی ہے۔ مگر ایک اصولی تحریک‘ جو کسی خاص قوم کی اغراض سے وابستہ نہ ہو‘بلکہ انسانی زندگی کی صلاح وفلاح کے لیے وہ ایک دعوت لے کر اُٹھے‘ اس کے سامنے ان سوالات میں سے کوئی سوال بھی نہیں ہوتا۔ اس کے مسائل کی نوعیت بالکل دوسری ہوتی ہے۔ اس کی کامیابی ونا کامی کا انحصار اس پر ہوتا ہے‘ کہ اس کے اصول بجائے خود معقول ہیں‘ یا نہیں؟ وہ انسانی زندگی کے مسائل کو کہاں تک حل کرتے ہیں؟ وہ بالعموم فطرتِ انسانی کو کس حد تک اپیل کرتے ہیں؟ اور اس کی طرف دعوت دینے والے خود اس کی پیروی میں کتنے مخلص اور کتنے صادق العزم ہیں؟
مسلمانوں کو جو کچھ بھی پریشانی پیش آرہی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے‘ کہ ان کے سوچنے والے دماغوں نے اپنی حیثیت کو ان دو مختلف حیثیتوں کے درمیان خلط ملط کر دیا ہے۔ کبھی تو یہ ان عزائم اور مقاصد کا اظہار کرتے ہیں‘ جن کا تعلق اسلامی تحریک سے ہے‘ اور ان کی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے‘ کہ دراصل یہ ایک اصولی تحریک کے پیرو اور داعی ہیں۔ اور کبھی یہ محض ایک قوم بن کر رہ جاتے ہیں‘ اس طرح سوچنے لگتے ہیں‘ جس طرح قومیں سوچا کرتی ہیں‘ ایسے مسائل میں اُلجھ جاتے ہیں‘ جو صرف قوموں ہی کو پیش آتے ہیں‘ اور اپنے اس طرز فکر کی وجہ سے ان مشکلات کو سدِّ راہ پاتے ہیں‘ جو محض قومی مقاصد ہی کے لیے سدِّراہ ہوا کرتی ہیں۔ ان لوگوں نے آج تک ان دونوں حیثیتوں کے فرق کو نہیں سمجھا‘ نہ واضح طور پر فیصلہ کیا کہ دراصل یہ ہیں کیا۔ اسی لیے یہ کوئی ایسی پالیسی ابھی تک اپنے لیے متعین نہ کر سکے‘ جو تناقض سے خالی اور اُلجھائو سے پاک ہو۔
یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے‘ کہ قومیّت اور قومی اغراض قابلِ تبلیغ چیزیں نہیں ہیں۔ مثلاً جرمنیّت‘ اطالویّت‘ انگریزیت یا ہندویّت کے متعلق کوئی شخص بھی یہ تصوّر نہیں کر سکتاکہ ان کی طرف دوسروں کو دعوت دی جا سکتی ہے۔ یہ کوئی اصول نہیں ہیں‘ کہ ہر انسان کے سامنے انہیں پیش کیا جا سکے۔ یہ تونسل‘ تاریخ اور تمدّن کے بنے ہوئے بے لچک دائرے ہیں۔ ان داروں کے مفاد اور مقاصد سے جو کچھ بھی دل چسپی ہوسکتی ہے‘ انہی لوگوں کو ہوسکتی ہے‘ جو ان دائروں کے اندر پیدا ہوئے ہوں۔ دوسرے دائروں کے لوگوں کو ان سے دل چسپی ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ایک جرمن اپنی جرمنیت کی بنیاد پر کوئی کام کرنا چاہے تو لامحالہ وہ جرمنوں ہی سے ہمدردی واعانت کی توقع کر سکتا ہے۔ انگریز کو کیا پڑی ہے‘ کہ جرمنیت کی زندگی یا اس کی برتری کے معاملہ میں اس کا ساتھ دے۔ جرمنوں کا بول بالا کرنے کی تڑپ تو صرف جرمنوں ہی میں پیدا ہوسکتی ہے۔ اور یہ بالکل فطری بات ہے‘ کہ ان کے مقابلہ میں انگریز بھی متحد ہوکر اپنا بول بالا کرنے یا رکھنے کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ یہ ضرور ممکن ہے‘ کہ دونوں فریق ایک دوسرے کے بعض افراد کو ناجائز ذرائع سے خرید کر اپنا آلہ کار بنا لیں‘ مگر یہ ممکن نہیں ہے‘ کہ انگریز جرمنیت پر ایمان لاکر جرمنوں کا ولیِ حَمِیم بن جائے‘ یا جرمن انگریزیت اختیار کر کے انگریزوں کا حامی وناصر بن جائے۔ یہی وجہ ہے‘ کہ جہاں دو قوموں کے درمیان موافقت ہوتی ہے۔ وہاں محض خود غرضی کی موافقت ہوا کرتی ہے‘ اور صرف اس وقت تک قائم رہتی ہے‘ جب تک خود غرضی اس کی مقتضی ہو۔ اور جہاں ان کے درمیان کشمکش ومزاحمت ہوتی ہے‘ وہاں دونوں کو صرف اپنی قومی طاقت‘ اپنی تنظیم‘ اپنے معاشی وسائل‘ اپنی تعداد‘ اور اپنے آلاتِ جنگ ہی پر بھروسا کرنا پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے جو قوم کمزور ہووہ پِس جاتی ہے‘ اور جو طاقت ور ہووہ اُسے پیس ڈالتی ہے۔ جرمنی کے مقابلہ میں پولینڈ‘ ڈنمارک‘ ناروے‘ ہالینڈ‘ بلجیم اور فرانس کیوں مغلوب ہوگئے؟ فن لینڈ اور رومانیا کو روس اور جرمنی سے کیوں دبنا پڑا؟اسی لیے کہ مقابلہ ایک قوم اور دوسری قوم کا تھا۔ دونوں طرف قومیّتیں تھیں۔ لہٰذا جس کی قومیّت‘ تعداد اور آلات ووسائل اور تنظیم میں بڑھی ہوئی تھی اس نے کمزور کو دبا لیا۔ کوئی فریق بھی خالص انسانیت کی بنیاد پر ‘ایسے اصول لے کر نہ اُٹھا تھا‘ کہ مخالف فریق کے انسانوں کو اپیل کرتا‘ اور یہ ممکن ہوتاکہ خود دشمنوں میں سے اس کو دوست ملتے چلے جاتے۔
یہ ہوتی ہے ایک قوم کی حیثیت۔اب غور کیجیے کہ فی الحقیقت کیا مسلمانوں کی حیثیت اس دنیا میں یا اس ہندوستان میں یہی ہے؟کیا ہم محض نسل‘ تاریخ اور موروثی تمدّن کا بنایا ہوا‘ ایک ایسا گروہ (group)ہیں‘ جس کی قومیّت دنیا کی تمام قومیّتوں کی طرح ناقابلِ تبلیغ ہو؟کیا ہمارے مقاصد کی نوعیت بھی انہی قومی اغراض ومقاصد کی سی ہے‘ جن پر دوسری قوموں کا ایمان لانا فطرتاً غیر ممکن ہوتا ہے؟ کیا ہمارے مقاصد اسی قسم کے قومی مقاصد ہیں‘ جن کا حصول صرف ایک قوم کی تعداد‘ تنظیم اور وسائل ہی پر موقوف ہوتا ہے؟ کیا وہ اسلامی حکومت جس کا ہم نام لیا کرتے ہیں‘ محض ایک قومی ریاست (national state)ہے‘ جس کے قیام کی بنیاد ایک قوم کی کثرت تعداد ہوا کرتی ہے؟کیا قلیل التعداد ہونے کی صورت میں‘ ہماری حیثیت واقعی ایک قومی اقلیت (national minority)کی رہ جاتی ہے‘ جس کے لیے اکثریت کے ساتھ ہم آہنگ ہونے یا پھر اپنی انفرادیت کے تحفظ کی تدبیریں اختیار کرنے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں ہوتا؟کیا حقیقت میں دنیا کی دوسری قوموں کی طرح‘ ہمارے لیے بھی آزادی کا یہی مفہوم ہے‘ کہ ہمیں غیر قوم کی حکومت سے نجات حاصل ہوجائے؟ اور کیا اپنی قوم کی حکومت یا اپنے اہلِ وطن کی حکومت قائم ہوجانا ہمارے مقاصد کے لیے بھی ضروری ہے؟
اگر واقعی یہی ہماری حیثیت ہے‘ تو بلا شبہ وہ سب کچھ صحیح ہے‘ جو مسلمانوں کی مختلف جماعتیں اس وقت کر رہی ہیں۔ غیر مسلم ہمسایوں کے ساتھ مل کر آزادی کی جدوجہد بھی صحیح‘ برطانوی حکومت اور دیسی ریاستوں کا سہارا لے کر ہندو امپیریل ازم کا مقابلہ بھی صحیح فوج میں اور سرکاری ملازمتوں میں اور انتخابی مجالس میں اپنی نمائندگی کا جھگڑا بھی صحیح‘ مسلم ریاستوں کی حمایت بھی صحیح‘ تقسیمِ ملک کا مطالبہ بھی صحیح‘ خاک ساروں کی فوجی تنظیم بھی صحیح‘ اور وہ مسلم قومی پرستی بھی صحیح‘ جس کی بنا پر حق اور اصول سے قطع نظر کر کے‘ ہر اس فائدے کو دانتوں سے پکڑا جاتا ہے‘ جو مسلمان قوم یا مسلمان اشخاص کو حاصل ہوتا ہو۔ غرض یہ سب کچھ صحیح ہے‘ کیونکہ قومیّت کا آئین یہی ہے‘ قومیں یونہی کام کیا کرتی ہیں‘ اور ایک قوم جو کسی اصول کی علم بردار دار نہیں‘ بلکہ محض اپنی قومی بہتری کی خواہش مند ہو‘ ان تدابیر کے سوا آخر اور کیا تدبیریں اختیار کر سکتی ہے؟البتہ ان سب چیزوں کے ساتھ اگر کوئی بات غیر صحیح ہے‘ تو وہ ہماری یہ خوش فہمی ہے‘ کہ یہ حیثیت اختیار کرنے کے بعد بھی ہم اس زمین پر حکومتِ الٰہیہ قائم کر سکیں گے‘ حالانکہ اس حیثیت میں یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہوہی نہیں سکتا۔
دراصل ایک ملک پر نہیں‘ بلکہ ساری دنیا پر چھا جانے کی قوّت اگر ہے‘ تو وہ صرف ایک ایسی اصولی تحریک میں ہے‘ جو انسان کو بحیثیت ِانسان خطاب کرتی ہو‘ اور اس کے سامنے خود اس کی اپنی فلاح کے فطری اصول پیش کرتی ہو۔ قومیّت کے برعکس ایسی تحریک ایک تبلیغی طاقت ہوتی ہے۔ قومیّت کے حصار‘ نسلوں کے تعصّبات‘ قومی ریاستوں کے مضبوط بند‘ کوئی چیز بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔وہ ہر طرف‘ ہر جگہ نفوذ کرتی چلی جاتی ہے۔ اس کی طاقت کا انحصار اپنے پیروئوں کی تعداد یا ان کے وسائل پر نہیں ہوتا۔ ایک اکیلا آدمی اس کو اُٹھانے کے لیے کافی ہے۔ پھر وہ خود اپنے اصولوں کی طاقت سے آگے بڑھتی ہے۔ وہ اپنے دشمنوں سے دوست پیدا کرتی ہے۔ سب قوموں میں سے آدمی ٹوٹ ٹوٹ کر اس کے جھنڈے کے نیچے آنے لگتے ہیں‘ اور وسائل اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ جو فوجیں اس سے لڑنے آتی ہیں ان پر وہ صرف اپنی توپ وتفنگ سے ہی آتشباری نہیں کرتی بلکہ اپنی تعلیم اور اپنے اصولوں کے تیر بھی چلاتی ہے۔ خون کے پیاسے دشمنوں میں سے وہ اپنے سرگرم حامی ڈھونڈ نکالتی ہے۔ سپاہی‘ جنرل‘ ماہرینِ فنون‘ سرمایہ دار‘ صنّاع اور کاریگر سب انہی میں سے اس کو مل جاتے ہیں۔اور بے سرو سامانی میں سے ہر قسم کا سامان نکلتا چلا آتا ہے۔ قومیّتیں اس کے سیلاب کے مقابلہ میں کبھی نہیں ٹھہر سکتیں۔ بڑے بڑے پہاڑ اس کے سامنے آتے ہیں‘ اور نمک کی طرح پگھل پگھل کر اس آبِ رواں میں جذب ہوجاتے ہیں۔اس کے لیے اقلیت اور اکثریت کے سارے سوالات بے معنی ہیں۔ وہ اس کی ہر گز محتاج نہیں ہوتی‘ کہ کسی منظم اور باوسیلہ قوم کی طاقت اس کی پشت پر ہو۔ وہ قومی حکومت قائم کرنے نہیں اُٹھتی‘ کہ قومیں اس کی مزاحمت کر سکیں۔ اسے تو ایک ایسے اصول کی حکومت قائم کرنی ہوتی ہے‘ جو سب قوموں کے لوگوں کی فطرت کو اپیل کرتا ہے۔ جاہلی تعصّبات کچھ دیر تک اس سے لڑتے رہتے ہیں‘ مگر جب فطرت انسانی پر لگا ہوا زنگ چھوٹتا ہے‘ تو وہ کیفیت ہوتی ہے‘ کہ:
ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ برکف
بامید آنکہ روزے بہ شکار خواہی آمد
مسلمان قرآن اور سیرتِ رسولa کے آئینے میں اپنی صورت دیکھیں۔ جس چیز کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں‘ کہیں وہ اسی نوعیت کی تحریک تو نہیں ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے‘ کہ وہ قوموں کے درمیان رہتے رہتے اور انہی جیسی تعلیم وتربیت پا کر اپنی اصلی حیثیت بھول گئے ہوں ‘اور خواہ مخواہ اپنے آپ کو ’’قوم‘‘ کہتے کہتے انہوں نے وہ سب محدودیّتیں بھی اپنے خیال میں خود اپنے اوپر عائد کر لی ہوں‘ جو ایک قلیل الوسائل قوم کے لیے مخصوص ہوتی ہیں؟
اگر واقعہ یہی ہے‘ اور مسلمانوں کی اصل حیثیت ایک عالم گیر اصولی تحریک کے پیروئوں اور داعیوں کی ہے‘ تو وہ سارے مسائل یک قلم اُڑ جاتے ہیں‘ جن پر اب تک مسلمانوں کے سیاسی ومذہبی رہنما وقت ضائع کرتے رہے ہیں۔ پوری صورت حال بالکل بدل جاتی ہے۔مسلم لیگ‘احرار‘ خاک سار‘ جمعیتہ العلماء اور آزاد کانفرنس‘سب کی اس وقت تک کی تمام کارروائیاں حرف باطل کی طرح محو کر دینے کے لائق ٹھیرتی ہیں۔ نہ ہم قومی اقلیّت ہیں۔نہ آبادی کے فی صدی تناسب پر ہمارے وزن کا انحصار ہے‘ نہ ہندوئوں سے ہمارا کوئی قومی جھگڑا ہے‘ نہ انگریزوں سے وطنیت کی بنیاد پر ہماری لڑائی ہے‘ نہ ان ریاستوں سے ہمارا کوئی رشتہ ہے‘ جہاں نام نہاد مسلمان خدا بنے بیٹھے ہیں‘ نہ اقلیت کی حیثیت سے اپنے تحفظ کی ہمیں ضرورت ہے‘ نہ اکثریت کی بنیاد پر اپنی قومی حکومت ہمیں مطلوب ہے۔ ہمارے سامنے تو صرف ایک مقصد ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ اﷲ کے بندے اﷲ کے سوا کسی کے محکوم نہ ہوں‘ بندوں کی حاکمیت ختم ہوجائے‘ اور حکومت اس قانون عدل کی قائم ہو‘ جو اﷲ نے خود بھیجا ہے اس مقصد کو ہم انگریزو الیانِ ریاست‘ ہندو‘ سکھ‘ عیسا ئی‘ پارسی اور مردم شماری کے مسلمان‘ سب کے سامنے پیش کریں گے۔ جو اسے قبول کرے گا وہ ہمارا رفیق ہے‘ اور جو اس سے انکار کرے گا اس سے ہماری لڑائی ہے‘ بلا لحاظ اس کے کہ اس کی طاقت کتنی ہے‘ اور ہماری کتنی۔
یہ حیثیت اختیار کرنے اور اس تحریک کو لے کر اُٹھنے کے لیے یہ ضروری ہے‘ کہ ہم اپنے شخصی اور قومی مفاد واغراض کو بھول جائیں‘ تمام تعصّبات سے بالا تر ہوجائیں‘ اور چھوٹی چھوٹی چیزوں سے نظر ہٹا لیں‘ جن سے ہمارے حقیر دنیوی فوائد کا تعلق ہے۔ اگر ہم میں ہندستانیت کا تعصّب ہوگا‘ تو فطری بات ہے‘ کہ انگریز اور ہر غیر ہندستانی کے کان ہماری دعوت کے لیے بہرے ہوجائیں گے۔ اگر ہم نام نہاد مسلم قوم کے تعصّب میں مبتلا ہوں‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ ہندو یا سکھ یا عیسائی کے دل کا دروازہ ہماری پکار کے لیے کھل جائے۔ اگر ہم حیدر آباد‘ بھوپال‘ بہاول پور اورر ام پور جیسی ریاستوں کی حمایت محض اس لیے کریں کہ ان کے رئیس مسلمان ہیں‘ اور ان سے مسلمانوں کو کچھ معاشی سہارا مل جاتا ہے‘ تو کوئی احمق ہی ہوگا‘ جو اس کے بعد بھی یہ باور کرے لے گا کہ ہم اسلام کے نظریہ سیاسی پر ایمان رکھتے ہیں‘ اور واقعی حکومت ِاللٰہی قائم کرنا ہمارا نصب العین ہے۔ اگر ہم غیر مسلم حکومت کی ملازمت اور غیراسلامی جمہوری ادارات میں مسلمانوں کی نمائندگی پر جھگڑا کریں‘ تو ہماری اس آواز میں کوئی وزن باقی نہ رہے گا کہ ہم اصولِ اسلام کی فرما نروائی قائم کرنے اُٹھے ہیں۔ اگر ہم تناسب آبادی کے لحاظ سے تقسیم ملک کا مطالبہ کریں‘ تو غیر مسلموں کو ہم میں اور خود اپنے آپ میں سرے سے کوئی فرق ہی محسوس نہ ہوگا کہ وہ اپنا مقام چھوڑ کر ہماری دعوت پر لبیک کہنے کی کوئی ضرورت سمجھیں۔ اگر ہم غیراسلامی اصول پر مشترک وطنی حکومت قائم کرنے میں حصّہ لیں تو ہمارے اس فعل میں اور ہماری اس دعوت میں ایسا صریح تنا قض ہوگا کہ ہماری صداقت کیا معنی‘ صحت ِعقل تک مشتبہ ہوکر رہ جائے گی۔ اس راستے پر چلنے کے لیے ہمیں یہ سب کچھ چھوڑنا ہوگا۔ بلا شبہ ہمیں اس سے بہت نقصانات پہنچیں گے‘ مگر ایسے نقصانات اُٹھائے بغیراسلامی تحریک نہ کبھی چلی ہے نہ چل سکتی ہے۔ جو کچھ جاتا ہے جانے دو۔ سید نامسیح علیہ السلام کے قول کے مطابق جُبّہ جاتا ہے‘ تو کُرتا بھی چھوڑنے کے لیے تیار ہوجائو۔ تب ہی خدا کی بادشاہت زمین پر قائم ہوسکے گی۔ (ترجمان القرآن۔ جولائی ۱۹۴۰ء)
خ خ خ