اس طرح امام نے شیعہ وخوارج اور معتزلہ ومرجیہ کی انتہائی آراء کے درمیان ایک ایسا متوازن عقیدہ پیش کیا جو مسلم معاشرے کو انتشار اورباہمی تصادم ومنافرت سے بھی بچاتا ہے اور اس کے افراد کو اخلاقی بے قیدی او رگناہوں پر جسارت سے بھی روکتا ہے ۔ جس فتنے کے زمانے میں امام نے عقیدہ اہل سنت کی یہ وضاحت پیش کی تھی ، اس کی تاریخ کا نگاہ میں رکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ان کا بڑا کارنامہ تھا جس سے انھوں نے امت کو راہ ِ اعتدال پر قائم رکھنے کی سعی بلیغ فرمائی تھی ۔ اس عقیدے کے معنیٰ یہ تھے کہ امت اس ابتدائی اسلامی معاشرے پر پورا اعتماد رکھتی ہے جو نبی ﷺ نے قائم کیا تھا ۔ اس معاشرے کے لوگوں نے جو فیصلے بالاتفاق یا اکثریت کے ساتھ کیے تھے ، امت ان کو تسلیم کرتی ہے ۔ جب اصحاب کو انھوں نے یکے بعد دیگرے خلیفہ منتخب کیاتھا ، ان کی خلافت کو بھی اور ان کے زمانے کے فیصلوں کو بھی وہ آئینی حیثیت سے درست مانتی تھی ۔ اور شریعت کے اس پورے علم کوبھی وہ قبول کرتی ہےجو اس معاشرے کے افراد ( یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ) کے ذریعے سے بعد کے نسلوں کو ملا ہے ۔ یہ عقیدہ اگرچہ امام ابوحنیفہ ؒ کا اپنا ایجاد کردہ نہ تھا بلکہ امت کا سوادِ اعظم اس وقت یہی عقیدہ رکھتا تھا ، مگر امام نے اسے تحریری شکل میں مرتب کرکے ایک بڑی خدمت انجام دی کیونکہ اس سے عام مسلمانوں کو یہ معلوم ہوگیا کہ متفرق گروہوں کے مقابلے میں ان کا امتیازی مسلک کیا ہے ۔