(یہ مقالہ اکتوبر ۱۹۳۹ء میں انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈ، لاہور کے ایک جلسہ میں پڑھا گیا)
اِسلام کے متعلق یہ فقرہ آپ اکثر سنتے رہتے ہیں کہ یہ ایک ’’جمہوری نظام ہے‘‘ پچھلی صدی کے آخری دَور سے اس فقرے کا بار بار اعادہ کیا جا رہا ہے، مگر جو لوگ اسے زبان سے نکالتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ اُن میں سے ایک فی ہزار بھی ایسے نہیں ہیں جنھوں نے اس دین کا باقاعدہ مطالعہ کیا ہو اور یہ سمجھنے کی کوشش کی ہو کہ اِسلام میں جمہوریت کس حیثیت سے ہے اور کس نوعیت کی ہے۔ ان میں سے بعض لوگ تو اِسلامی نظامِ جماعت کی چند ظاہری شکلوں کو دیکھ کر اس پر جمہوریت کا نام چسپاں کر دیتے ہیں اور اکثر ایسے ہیں جن کی ذہنیت کچھ اس طور پر بنی ہے کہ دُنیا میں (اور خصوصًا ان کے حکم رانوں میں) جو چیز مقبولِ عام ہو اُسے کسی نہ کسی طرح اِسلام میں موجود و ثابت کر دینا ان کے نزدیک اس مذہب کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ شاید وُہ اِسلام کو اس یتیم بچے کی طرح سمجھتے ہیں جو ہلاکت سے بس اس طرح بچ سکتا ہے کہ کسی بااثر شخص کی سرپرستی اُسے حاصل ہو جائے۔ یا پھر غالباً ان کا خیال یہ ہے کہ ہماری عزت محض مسلمان ہونے کی حیثیت سے قائم نہیں ہو سکتی، بلکہ صرف اسی طرح قائم ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے مسلک میں دُنیا کے کسی چلتے ہوئے مسلک کے اُصولوں کی جھلک دکھا دیں۔ اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے کہ جب دُنیا میں اشتراکیت کا غلغلہ بلند ہوا تو مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے پکارنا شروع کیا کہ اشتراکیت تو محض اِسلام ہی کا ایک جدید ایڈیشن ہے، اور جب ڈکٹیٹر شپ کا آوازہ اُٹھا تو کچھ دُوسرے لوگوں نے اطاعتِ امیر، اطاعتِ امیر کی صدائیں بلند کرنا شروع کر دیں اور کہنے لگے کہ یہاں سارا نظامِ جماعت ڈکٹیٹر شپ ہی پر قائم ہے، غرض اِسلام کا نظریۂ سیاسی اس زمانہ میں ایک چیستان، ایک چُوں چُوں کا مُربّا بن کر رَہ گیا ہے، جس میں سے ہر وُہ چیز نکال کر دکھا دی جاتی ہے جس کا بازار میں چلن ہو۔ ضرورت ہے کہ باقاعدہ علمی طریقہ سے اس امر کی تحقیق کی جائے کہ فی الواقع اِسلام کا سیاسی نظریہ ہے کیا؟ اس طرح نہ صرف ان پراگندہ خیالوں کا خاتمہ ہو جائے گا جو ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں اور نہ صرف ان لوگوں کا منہ بند ہو جائے گا جنھوں نے حال میں علی الاعلان یہ لکھ کر اپنی جہالت کا ثبوت دیا تھا کہ ’’اِسلام سرے سے کوئی سیاسی و تمدنی نظام تجویز ہی نہیں کرتا۔‘‘ بلکہ درحقیقت تاریکیوں میں بھٹکنے والی دُنیا کے سامنے ایک ایسی روشنی نمودار ہو جائے گی جس کی وُہ سخت حاجت مند ہے، اگرچہ وُہ اپنی اس حاجت مندی کا شعور نہیں رکھتی۔