لیکن اسلام کے پورے نظام پر نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ دین مسلمانوں کے ہر اجتماعی کام میں نظم چاہتا ہے اور اس نظم کی صحیح صورت یہ تجویز کرنا ہے کہ کام، جماعت بن کر کیا جائے۔ جماعت میں سمع و طاعت ہو، اور ایک شخص اُس کا امیر ہو۔ نماز پڑھی جائے تو جماعت کے ساتھ پڑھی جائے اور ایک اس کا امام ہونا چاہیے۔ حج کیا جائے تو منظم طریق پر کیا جائے اور ایک اس کا امیر حج ہونا چاہیے۔ حتّٰی کہ تین آدمی اگر سفر کو نکلیں تب بھی، انھیں منظم طریقے سے سفر کرنا چاہیے اور اپنے ایک ساتھی کو امیر بنا لینا چاہیے۔ارشادِ نبویؐ ہے:
اِذَا خَرَجَ ثَلَاثَۃٌ فِیْ سَفَرٍ فَلْیُؤَمِّرُوْا عَلَیْھِمْ اَحَدَھُمْ۳؎ (ابودائود)
]جب تین آدمی سفر پر نکلیں تو اپنے میں سے کسی ایک کو امیر مقرر کر لیں۔[
اسلامی شریعت کی یہی وہ روح ہے جسے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے کہ جماعت کے بغیر اسلام نہیں اور امارت کے بغیر جماعت نہیں اور اطاعت کے بغیر امارت نہیں۴؎ ۔ پس ہمارا استنباط یہ ہے کہ اقامتِ دین اور شہادتِ علی الناس کی سعی کے لیے جو جماعت بنائی جائے اس کے سربراہِ کار کے لیے، امیر یا امام کے لفظ کا استعمال بالکل صحیح ہے، مگر چونکہ لفظ ’’امام‘‘ کے ساتھ بعض خاص معانی لگ گئے ہیں، اس لیے ہم نے فتنے سے بچنے کی خاطر، اس لفظ کو چھوڑ کر ’’ امیر‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔