(یہ وہ مقالہ ہے جو ۳ جنوری ۱۹۵۸ئ کو مصنف نے بین الاقوامی مجلس مذاکرہ کے اجلاس لاہور میں پڑھا تھا)
اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل کیا ہے اور اس میں اجتہاد کا کیا مقام ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دو باتیں واضح طور پر ہماری نگاہ میں رہیں۔
حاکمیت ِالٰہی
اوّل یہ کہ اسلام میں حاکمیت خالصتاً اللہ تعالیٰ کی تسلیم کی گئی ہے۔ قرآن عقیدۂ توحید کی جو تشریح کرتا ہے‘ اس کی رُو سے خدائے وحدہ لا شریک صرف مذہبی معنوں میں معبود ہی نہیں ہے بلکہ سیاسی اور قانونی مفہوم کے لحاظ سے حاکمِ مطاع، امرونہی کا مختار، اور واضع قانون بھی ہے۔ خدا کی اس قانونی حاکمیت (Legal Sovereignty) کو قرآن اتنی ہی وضاحت اور اتنے ہی زور سے پیش کرتا ہے جس کے ساتھ اس نے خدا کی مذہبی معبودیت کا عقیدہ پیش کیا ہے۔ اس کے نزدیک خدا کی یہ دونوں حیثیتیں اس کی الوہیت کے لازمی تقاضے ہیں جن کو ایک دوسرے سے منفک نہیں کیا جا سکتا اور ان میں سے جس کا بھی انکار کیا جائے وہ لازماً خدا کی الوہیت کا انکار ہے۔ پھر وہ اس شبہے کے لیے بھی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا کہ شاید قانون خداوندی سے مراد قانون فطرت ہو۔ اس کے برعکس وہ اپنی ساری دعوت ہی اس بنیاد پر اٹھاتا ہے کہ انسان کو اپنی اخلاقی اور اجتماعی زندگی میں خدا کے اس قانونِ شرعی کو تسلیم کرنا چاہیے جو اس نے اپنے انبیا کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ اسی قانون شرعی کو ماننے اور اس کے مقابلے میں اپنی خودمختاری سے دست بردار ہو جانے کا نام وہ ’’اسلام‘‘ (surrender) رکھتا ہے اور صاف صاف الفاظ میں انسان کے اس حق کا انکار کرتا ہے کہ جن معاملات کا فیصلہ خدا اور اس کے رسولؐ نے کر دیا ہو ان میں وہ خود اپنی رائے سے فیصلہ کرے۔
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۰ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًاo الاحزاب36:33
کسی مومن مرد یا عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر انھیں اپنے اس معاملے میں خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہ جائے اور جس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی وہ کھلّم کھلا گمراہ ہو گیا۔
نبوتِ محمدی
دوسری بات جو اسلام میں اتنی ہی بنیادی اہمیّت رکھتی ہے جتنی کہ توحید ِالٰہ‘ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ درحقیقت یہی وہ چیز ہے جس کی بدولت توحید کا عقیدہ مجرد تخیل سے ایک عملی نظام کی شکل اختیار کرتا ہے اور اسی پر اسلام کے پورے نظامِ زندگی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ اس عقیدے کی رُو سے اللہ تعالیٰ کے تمام سابق انبیا کی لائی ہوئی تعلیمات ‘بہت سے اہم اضافوں کے ساتھ، اُس تعلیم میں جمع ہو گئی ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ اس لیے خدائی ہدایت اور تشریع کا مستند ماخذاب صرف یہی ایک ہے اور آیندہ کوئی مزید ہدایت اور تشریع آنے والی نہیں ہے جس کی طرف انسان کو رجوع کرنے کی ضرورت ہو۔ یہی محمدی تعلیم وہ بالاتر قانون (Supreme Law) ہے جو حاکم اعلیٰ کی مرضی کی نمایندگی کرتا ہے۔ یہ قانون محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کو دو شکلوں میں ملا ہے۔ ایک قرآن جو لفظ بلفظ خداوند عالم کے احکام و ہدایات پر مشتمل ہے۔ دوسرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ، یا آپؐ کی سنت‘ جو قرآن کے منشا کی توصیح و تشریح کرتی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے محض نامہ بر نہیں تھے کہ اس کی کتاب پہنچا دینے کے سوا ان کا کوئی کام نہ ہوتا۔ وہ اس کے مقرر کیے ہوئے رہنما حاکم اور معلّم بھی تھے۔ آپؐ کا کام یہ تھا کہ اپنے قول اور عمل سے قانونِ الٰہی کی تشریح کریں۔ اس کا صحیح منشا سمجھائیں۔ اس کے منشا کے مطابق افراد کی تربیت کریں۔ پھر تربیت یافتہ افراد کو ایک منظم جماعت کی شکل دے کر معاشرے کی اصلاح کے لیے جدوجہد کریں، پھر اس اصلاح شدہ معاشرے کو ایک صالح و مصلح ریاست کی صورت دے کر یہ دکھا دیں کہ اسلام کے اصولوں پر ایک مکمل تہذیب کا نظام کس طرح قائم ہوتا ہے۔ آنحضرتؐ کا یہ پورا کام، جو ۲۳ سال کی پیغمبرانہ زندگی میں آپؐ نے انجام دیا، وہ سنّت ہے جو قرآن کے ساتھ مل کر حاکم اعلیٰ کے قانونِ برتر کی تشکیل و تکمیل کرتی ہے، اور اسی قانونِ برتر کا نام اسلامی اصطلاح میں ’’شریعت‘‘ ہے۔
قانون سازی کا دائرہ عمل
بادی النظر میں ایک آدمی ان بنیادی حقیقتوں کو سن کر یہ گمان کر سکتا ہے کہ اس صورت میں تو ایک اسلامی ریاست میں انسانی قانون سازی کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے، کیونکہ یہاں تو قانون ساز صرف خدا ہے اور مسلمانوں کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس پیغمبر کے دیئے ہوئے قانونِ خداوندی کی پیروی کریں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام انسانی قانون سازی کی قطعی نفی نہیں کرتا بلکہ اسے خدائی قانون کی بالاتری سے محدود کرتا ہے۔ اس بالاتر قانون کے تحت اور اس کے قائم کیے ہوئے حدود کے اندر انسانی قانون سازی کا دائرہ عمل کیا ہے۔ اس کو میں یہاں مختصر الفاظ میں بیان کروں گا۔
تعبیر احکام
انسانی زندگی کے معاملات میں سے ایک قسم کے معاملات وہ ہیں جن میں قرآن اور سنّت نے کوئی واضح اور قطعی حکم دیا ہے یا کوئی خاص قاعدہ مقرر کر دیا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں کوئی فقیہ، کوئی قاضی، کوئی قانون ساز ادارہ، شریعت کے دیئے ہوئے حکم یا اس کے مقرر کیے ہوئے قاعدے کو نہیں بدل سکتا۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان میں قانون سازی کے لیے کوئی مجالِ کار ہے ہی نہیں۔ انسانی قانون سازی کا دائرہ عمل ان معاملات میں یہ ہے کہ سب سے پہلے ٹھیک ٹھیک معلوم کیا جائے کہ حکم فی الواقع ہے کیا؟ پھر اس کا منشا اور مفہوم متعیّن کیا جائے اور یہ تحقیق کیا جائے کہ یہ حکم کن حالات اور واقعات کے لیے ہے۔ پھر عملاً پیش آنے والے مسائل پر ان کے انطباق کی صورتیں اور مجمل احکام کی جزئی تفصیلات طے کی جائیں۔ اور ان سب امور کے ساتھ یہ بھی مشخّص کیا جائے کہ استثنائی حالات و واقعات میں ان احکام و قواعد سے ہٹ کر کام کرنے کی گنجائش کہاں اور کس حد تک ہے۔
قیاس
دوسری قسم کے معاملات وہ ہیں جن کے بارے میں شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے، مگر ان سے ملتے جلتے معاملات کے متعلق وہ ایک حکم دیتی ہے۔ اس دائرے میں قانون سازی کا عمل اس طرح ہو گا کہ احکام کی علّتوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر ان تمام معاملات میں ان کو جاری کیا جائے گا جن میں وہ علّتیں فی الواقع پائی جاتی ہوں اور ان تمام معاملات کو ان سے مستثنیٰ ٹھہرایا جائے گا جن میں درحقیقت وہ علّتیں نہ پائی جاتی ہوں۔
استنباط
ایک اور قسم ان معاملات کی ہے جن میں شریعت نے متعیّن احکام نہیں بلکہ کچھ جامع اصول دیئے ہیں۔ یا شارع کا یہ منشا ظاہر کیا ہے کہ کیا چیز پسندیدہ ہے جسے فروغ دینا مطلوب ہے اور کیا چیز ناپسندیدہ ہے جسے مٹانا مطلوب ہے۔ ایسے معاملات میں قانون سازی کا کام یہ ہے کہ شریعت کے ان اصولوں کو اور شارع کے اس منشا کو سمجھا جائے اور عملی مسائل میں ایسے قوانین بنائے جائیں جو ان اصولوں پر مبنی ہوں اور شارع کے منشا کو پورا کرتے ہوں۔
آزادانہ قانون سازی کا دائرہ
ان کے علاوہ ایک بہت بڑی قسم ان معاملات کی ہے جن کے بارے میں شریعت بالکل خاموش ہے، نہ براہِ راست ان کے متعلق کوئی حکم دیتی ہے اور نہ ان سے ملتے جلتے معاملات ہی کے متعلق کوئی ہدایت اس میں ملتی ہے کہ ان کو اس پر قیاس کیا جا سکے۔ یہ خاموشی خود اس بات کی دلیل ہے کہ حاکم اعلیٰ ان میں انسان کو خود اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کا حق دے رہا ہے۔ اس لیے ان میں آزادانہ قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ قانون سازی ایسی ہونی چاہیے جو اسلام کی روح اور اس کے اصول عامہ سے مطابقت رکھتی ہو، جس کا مزاج اسلام کے مجموعی مزاج سے مختلف نہ ہو، جو اسلامی زندگی کے نظام میں ٹھیک ٹھیک نصب ہو سکتی ہو۔
اجتہاد
قانون سازی کا یہ سارا عمل جو اسلام کے قانونی نظام کو متحرک بناتا اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ اس کو نشوونما دیتا چلا جاتا ہے۔ ایک خاص علمی تحقیق اور عقلی کاوش ہی کے ذریعے سے انجام پا سکتا ہے۔ اور اسی کا نام اسلامی اصطلاح میں اجتہاد ہے۔ اس لفظ کے لغوی معنی تو ہیں ’’کسی کام کی انجام دہی میں انتہائی کوشش صرف کرنا۔‘‘ مگر اصطلاحاً اس سے مراد ہے ’’یہ معلوم کرنے کی انتہائی کوشش کہ ایک مسئلہ زیر بحث میں اسلام کا حکم یا اس کا منشا کیا ہے‘‘ بعض لوگ غلطی سے اجتہاد کو بالکل آزادانہ استعمال رائے کے معنی میں لے لیتے ہیں۔ لیکن کوئی ایسا شخص جو اسلامی قانون کی نوعیت سے واقف ہو۔ اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ اس طرح کے ایک قانونی نظام میں کسی آزاد اجتہاد کی بھی کوئی گنجائش ہو سکتی ہے۔ یہاں تو اصل قانون قرآن و سنّت ہے۔ انسان جو قانون سازی کر سکتے ہیں وہ لازماً یا تو اس اصل قانون سے ماخوذ ہونی چاہیے یا پھر ان حدود کے اندر ہونی چاہیے جن میں وہ استعمال رائے کی آزادی دیتا ہے۔ اس سے بے نیاز ہو کر جو اجتہاد کیا جائے وہ نہ اسلامی اجتہاد ہے اور نہ اسلام کے قانونی نظام میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔
اجتہاد کے لیے ضروری اوصاف
اجتہاد کا مقصد چونکہ خدائی قانون کو انسانی قانون سے بدلنا نہیں بلکہ اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور اس کی رہنمائی میں اسلام کے قانونی نظام کو زمانے کی رفتار کے ساتھ ساتھ متحرک کرنا ہے، اس لیے کوئی صحت مندانہ اجتہاد اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ہمارے قانون سازوں میں حسب ذیل اوصاف موجود ہوں۔
(۱) شریعت الٰہی پر ایمان، اس کے برحق ہونے کا یقین ، اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ، اس سے آزاد ہونے کی خواہش کا معدوم ہونا اور مقاصد، اصول اور اقدار (Values) کسی دوسرے ماخذ سے لینے کے بجائے صرف خدا کی شریعت سے لینا۔
(۲) عربی زبان اور اس کے قواعد اور ادب سے اچھی واقفیت، کیونکہ قرآن اسی زبان میں نازل ہوا ہے اور سنّت کو معلوم کرنے کے ذرائع بھی اسی زبان میں ہیں۔
(۳) قرآن اور سنّت کا علم جس سے آدمی نہ صرف جزوی احکام اور ان کے مواقع سے واقف ہو بلکہ شریعت کے کلیات اور اس کے مقاصد کو بھی اچھی طرح سمجھ لے۔ اس کو ایک طرف یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی زندگی کی اصلاح کے لیے شریعت کی مجموعی اسکیم کیا ہے اور دوسری طرف یہ جاننا چاہیے کہ اس مجموعی اسکیم میں زندگی کے ہر شعبے کا کیا مقام ہے، شریعت اس کی تشکیل کن خطوط پر کرنا چاہتی ہے اور اس تشکیل میں اس کے پیش نظر کیا مصالح ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اجتہاد کے لیے قرآن و سنّت کا وہ علم درکار ہے جو مغز شریعت تک پہنچتا ہو۔
(۴) پچھلے مجتہدین امت کے کام سے واقفیت، جس کی ضرورت صرف اجتہاد کی تربیت ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ قانونی ارتقا کے تسلسل (continuity) کے لیے بھی ہے۔ اجتہاد کا مقصد بہرحال یہ نہیں ہے اور نہیں ہونا چاہیے کہ ہر نسل پچھلی نسلوں کی چھوڑی ہوئی تعمیر کو ڈھاکر یا متروک قرار دے کر نئے سرے سے تعمیر شروع کر دے۔
(۵) عملی زندگی کے حالات و مسائل سے واقفیت کیونکہ انھی پر شریعت کے احکام اور اصول و قواعد کو منطبق کرنا مطلوب ہے۔
(۶) اسلامی معیار اخلاق کے لحاظ سے عمدہ سیرت و کردار‘ کیونکہ اس کے بغیر کسی کے اجتہاد پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہو سکتا اور نہ اس قانون کے لیے عوام میں کوئی جذبہ احترام پیدا ہو سکتا ہے جو غیر صالح لوگوں کے اجتہاد سے بنا ہو۔
ان اوصاف کے بیان سے مقصود یہ نہیں ہے کہ ہر اجتہاد کرنے والے کو پہلے یہ ثبوت پیش کرنا چاہیے کہ اس میں یہ اوصاف موجود ہیں بلکہ اس سے مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ اجتہاد کے ذریعے سے اسلامی قانون کا نشوونما اگر صحیح خطوط پر ہو سکتا ہے تو صرف اسی صورت میں جب کہ قانونی تعلیم و تربیت کا نظام ایسے اوصاف کے اہل علم تیار کرے۔ اس کے بغیر جو قانون سازی کی جائے گی وہ نہ اسلامی قانون کے نظام میں جذب ہو سکے گی اور نہ مسلم سوسائٹی اس کو ایک خوشگوار غذا کی طرح ہضم کر سکے گی۔
اجتہاد کا صحیح طریقہ
اجتہاد اور اس کی بنا پر ہونے والی قانون سازی کے مقبول ہونے کا انحصار جس طرح اس بات پر ہے کہ اجتہاد کرنے والوں میں اس کی اہلیت ہو، اسی طرح اس امر پر بھی ہے کہ یہ اجتہاد صحیح طریقے سے کیا جائے۔ مجتہد خواہ تعبیرِ احکام کر رہا ہو یا قیاس و استنباط، بہرحال اسے اپنے استدلال کی بنیاد قرآن اور سنّت ہی پر رکھنی چاہیے۔ بلکہ مباحات کے دائرے میں آزادانہ قانون سازی کرتے ہوئے بھی اسے اس بات پر دلیل لانی چاہیے کہ قرآن و سنّت نے واقعی فلاں معاملے میں کوئی حکم یا قاعدہ مقرر نہیں کیا ہے اور نہ قیاس ہی کے لیے کوئی بنیاد فراہم کی ہے۔ پھر قرآن و سنّت سے جو استدلال کیا جائے وہ لازماً ان طریقوں پر ہونا چاہیے جو اہل علم میں مسلّم ہیں۔ قرآن سے استدلال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک آیت کے وہ معنی لیے جائیں جن کے لیے عربی زبان کی لغت، قواعد اور معروف استعمالات میں گنجائش ہو‘ جو قرآن کی عبارت کے سیاق و سباق سے لگتے ہوئے ہوں، جو اسی موضوع کے متعلق قرآن کے دوسرے بیانات سے متناقض نہ ہوں، اور جن کی تائید سنّت کی قولی اور عملی تشریحات سے بھی ملتی ہو، یا کم از کم یہ کہ سنّت ان معنوں کے خلاف نہ ہو۔ سنّت سے استدلال کرنے میں زبان اور اس کے قواعد اور سیاق و سباق کی رعایت کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن روایات سے کسی مسئلے میں سند لائی جا رہی ہو وہ قواعد علم روایت کے لحاظ سے معتبر ہوں۔ اس موضوع سے متعلق دوسری معتبر روایات کو بھی نگاہ میں رکھا گیا ہو اور کسی ایک روایت سے کوئی ایسا نتیجہ نہ نکال لیا گیا ہو جو مستند ذرائع سے ثابت شدہ سنّت کے خلاف پڑتا ہو۔ ان احتیاطوں کو ملحوظ رکھے بغیر من مانی تاویلات سے جو اجتہاد کیا جائے اسے اگر سیاسی قوت کے بل پر قانون کا مرتبہ دے بھی دیا جائے تو نہ مسلمانوں کا اجتماعی ضمیر اس کو قبول کر سکتا ہے اور نہ وہ حقیقتاً اسلامی نظامِ قانون کا جزو بن سکتا ہے۔ جو سیاسی قوت اسے نافذ کرے گی اس کے ہٹتے ہی اس کا قانون بھی ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔
اجتہاد کو قانون کا مرتبہ کیسے حاصل ہوتا ہے
کسی اجتہاد کو قانون کا مرتبہ حاصل ہونے کی متعدد صورتیں اسلامی نظام قانون میں پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ تمام امت کے اہلِ علم کا اس پر اجماع ہو۔
دوسری یہ کہ کسی شخص یا گروہ کے اجتہاد کو قبولِ عام حاصل ہو جائے اور لوگ خودبخود اس کی پیروی شروع کر دیں جس طرح مثلاً فقہ حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی کو مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادیوں نے قانون کے طور پر مان لیا۔
تیسری یہ کہ کسی اجتہاد کو کوئی مسلم حکومت اپنا قانون قرار دے لے، جیسے مثلاً عثمانی سلطنت یا ہندوستان کی مغل سلطنت نے فقہ حنفی کو اپنا قانونِ ملکی قرار دیا تھا۔
چوتھی یہ کہ سیاست میں ایک ادارہ دستوری حیثیت سے قانون سازی کا مجاز ہو اور وہ اجتہاد سے کوئی قانون بنائے۔ ان صورتوں کے ماسوا جتنے اجتہادات مختلف اہلِ علم کریں ان کا مرتبہ فتوے سے زیادہ نہیں ہے۔ رہے قاضیوں کے فیصلے، تو وہ ان خاص مقدمات میں تو ضرور قانون کے طور پر نافذ ہوتے ہیں جن میں وہ کسی عدالت نے کیے ہوں اور انھیں نظائر (Precedents) کی حیثیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن صحیح معنوں میں وہ قانون نہیں ہوتے۔ حتیٰ کہ خلفائے راشدین کے بھی وہ فیصلے اسلام میں قانون نہیں قرار پائے جو انھوں نے قاضی کی حیثیت سے کیے تھے۔ اسلامی نظامِ قانون میں قضاۃ کے بنائے ہوئے قانون (Judge Made Law) کا کوئی تصوّر نہیں پایا جاتا۔
(ترجمان القرآن۔ جنوری ۱۹۵۸ء)
٭…٭…٭…٭…٭