۸۔پیراگراف نمبر۷میں جوکچھ کہاگیاہے اس سے یہ بات خودبخودواضح ہوجاتی ہے کہ اسلام جس نوعیت کی ریاست بناتاہے اس میں ایک مجلس قانون ساز (legislature) کی موجودگی ضروری ہے جومسلم عوام کے معتمدعلیہ نمائندوںپرمشتمل ہواورجن کے اجماع یا اکثریت کے فیصلے دارالاسلام میںقانون کی حیثیت سے نافذہوں۔ اس مجلس (legislature) کی ترکیب،اس کے کام کاضابطہ اوراس کے ارکان کے انتخاب کاطریقہ اسلام میںمقررنہیںکیاگیاہے،اس لیے ہرزمانے کے حالات وضروریات کے لحاظ سے اس کی الگ شکلیںاختیارکی جاسکتی ہیںمگرجوباتیںاصولاًطے کردی گئی ہیں وہ یہ ہیں: (۱)ریاست کاکام مشورے سے چلایاجائے۔(۲)فیصلے یاتواجماع (اتفاق رائے)سے ہوںیاجمہور(اکثریت)کی رائے کے مطابق۔(۳)قرآن وسنت کے خلاف کوئی فیصلہ اجماع سے نہیںکیاجاسکتا۔(۴)قرآن وسنت کے احکام کی جس تعبیرپراجماعی یاجمہوری فیصلہ ہوجائے وہ ملک کاقانون قرارپائے۔(۵)جن امور میں قرآن وسنت کاکوئی حکم موجودنہ ہوان میںمسلم عوام کے نمائندے خودقانون بناسکتے ہیںاوران کااجماعی یاجمہوری فیصلہ نافذہوگا۔(۶)اس امرکاکوئی موزوںانتظام ہونا چاہیے کہ افرادریاست کے درمیان یاحکومت کے مختلف شعبوںاوراجزا کے درمیان جونزاع بھی ہواس کافیصلہ کتاب اللہ، سنت رسول اللہﷺ کی روشنی میںکیاجاسکے۔