اسلام جس نظامِ زندگی کا نام ہے اس کا مآخذ ایک کتاب ہے‘ جس کے مختلف ایڈیشن قدیم ترین زمانے سے توراۃ‘ انجیل‘ زبور وغیرہ بہت سے ناموں کے ساتھ دنیا میں شائع ہوتے رہے‘ اور آخری ایڈیشن قرآن کے نام سے‘ انسانیت کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس کتاب کا اصل نام اسلام کی اصلاح میں ’’الکتاب‘‘(The Book)ہے‘ اور یہ دوسرے نام دراصل اس کے ایڈیشوں کے نام ہیں۔ اس کا دوسرا مآخذ وہ لوگ ہیں‘ جو مختلف زمانوں میں اس الکتاب کو لے کر آئے اور جنہوں نے اپنے قول اور عمل سے اس کے منشا کی ترجمانی کی۔ یہ لوگ اگر چہ الگ الگ اشخاص ہونے کی حیثیت سے نوح‘ ابراہیم‘ موسیٰ اور محمد (علیہم الصلوۃ والسّلام اجمعین) وغیرہ ناموں سے موسوم ہیں‘ لیکن اس بنا پر کہ یہ ایک ہی گروہ کے اشخاص ہیں‘ جو ایک ہی مشن لے کر اُٹھے تھے‘ ان سب کو ایک جامع نام ’’الرسول‘‘ سے موسوم کرنا بالکل صحیح ہے۔
اسلام کا نظریہ زندگی
اس ’’الکتاب‘‘اور ’’الرسول‘‘ نے زندگی کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے‘ کہ یہ عظیم الشان کائنات جو تمہیں صریحاً ایک زبردست نظام میں جکڑی ہوئی اور ایک مقررہ قانون پر چلتی ہوئی نظر آرہی ہے‘ دراصل ایک خدا کی حکومت ہے۔ خدا ہی اس کا خالق ہے وہی اس کا مالک ہے‘ اور وہی اس کا فرمانروا ہے۔ یہ زمین جس پر تم رہتے ہواس کی بے پایاں سلطنت کے لاتعداد صوبوں میں سے ایک چھوٹا سا صوبہ ہے‘ اور یہ صوبہ بھی مرکزی اقتدار کی اس گرفت میں پوری طرح جکڑا ہوا ہے‘ جس میں اس جہان ہست وبود کا ہر حصّہ جکڑا ہوا ہے۔ تم اس صوبے میں خدا کی پیدائشی رعیت (born subjects)ہو۔ تم اپنے خالق آپ نہیں ہو‘بلکہ اس کی مخلوق ہو۔ اپنے پروردگار آپ نہیں ہو‘بلکہ اس کے پروردہ ہو۔ اپنے بل پر آپ نہیں جی رہے ہو‘بلکہ اس کے جلائے جی رہے ہو۔ اس لیے تمہارے ذہن میں اپنی خود مختاری کا اگر کوئی زعم ہے‘ تو وہ ایک غلط فہمی اور نظر کے ایک دھوکے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اپنی زندگی کے ایک بہت بڑے حصے میں تو تم صریح طور پر رعیت ہو‘ اور اپنی محکومی کو خود جانتے ہو۔ اپنی مائوں کے پیٹوں میں استقرارِ حمل سے لے کر اپنی موت کی آخری ساعت تک تم خدا کے قانونِ طبعی (law of nature)سے اس طرح بندھے ہوئے ہو‘کہ ایک سانس تک اس کے خلاف نہیں لے سکتے‘ اور تمہارے اوپر فطرت کی قوّتیں اور قوانین اس طرح حاوی ہیں‘ کہ تم جو کچھ کر سکتے ہوان کے تحت رہ کر ہی کر سکتے ہو‘ ایک لمحہ کے لیے بھی تمہارا ان سے آزاد ہوجانا ممکن نہیں ہے۔ اب رہ گیا تمہاری زندگی کا اختیاری حصّہ‘ جس میں تم اپنے اندر ارادے کی آزادی محسوس کرتے ہو‘ اور اپنی پسند کے مطابق انفرادی واجتماعی عمل کی راہیں انتخاب کرنے کی طاقت پاتے ہو‘ تو بلا شبہ تمہیں اس حد تک آزادی حاصل ہے‘ مگر یہ آزادی تمہیں فرما نروائے کائنات کی رعیت ہونے سے خارج نہیں کر دیتی‘ بلکہ صرف یہ اختیار دیتی ہے‘ کہ چاہو تو اطاعت کا روّیہ اختیار کرو‘ جو پیدائشی رعیت ہونے کی حیثیت سے تمہیں اختیار کرنا چاہئے‘ اور چاہو تو خود مختاری وبغاوت کا روّیہ اختیار کرو‘ جو اپنی فطری حقیقت کے اعتبار سے تمہیں نہ اختیار کرنا چاہئے۔
حق کا بنیادی تصوّر
یہاں سے حق کا سوال پیدا ہوتا ہے‘ اور یہ اولین بنیادی حق کا سوال ہے‘ جو تمام چھوٹے سے چھوٹے جزوی معاملات تک حق اور باطل کے فیصلے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ زندگی کی حقیقت کا جو نظریہ’’الکتاب‘‘ اور ’’الرسول‘‘ نے پیش کیا ہے‘ اس کو بطور ایک امر واقعہ کے تسلیم کر لینے کے بعد یہ بات صریح طور پر حق قرار پا جاتی ہے‘ کہ آدمی اپنی زندگی کے اختیاری حصّہ میں بھی اسی خدا کی حاکمیت (sovereignty)تسلیم کر ے جو اس کی زندگی کے پورے غیر اختیاری حصے کا اور اس تمام کائنات کا‘ جس میں یہ زندگی بسر ہورہی ہے آپ سے آپ حاکم (sovereign) ہے۔ یہ چیز کئی وجوہ سے حق ہے۔ یہ اس لیے بھی حق ہے‘ کہ انسان جن قوّتوں اور جن جسمانی آلات سے اپنے اختیارات کو استعمال کرتا ہے وہ خدا کا عطیہ ہیں۔اس لیے بھی حق ہے‘ کہ خود یہ اختیارات انسان کے اپنے حاصل کردہ نہیں ہیں‘ بلکہ تفویض کردہ (delegated)ہیں۔ اس لیے بھی حق ہے‘ کہ جن چیزوں پر یہ اختیارات استعمال کیے جاتے ہیں وہ سب خدا کی ملک ہیں۔ اس لیے بھی حق ہے‘ کہ جس ملک میں استعمال کیے جاتے ہیں وہ خدا کا ملک ہے۔ اور اس لیے بھی حق ہے‘ کہ عالمِ کائنات اور حیات انسانی کی ہمواری وموافقت(harmony)کا تقاضا یہی ہے‘ کہ ہماری زندگی کے اختیاری اور غیر اختیاری‘ دونوں حصوں کا حاکم اور سر چشمہ احکام ایک ہی ہو۔ ان دو حصوں کے دو الگ اور ایک دوسرے سے مختلف قبیلے بن جانے سے ایسا تضاد پیدا ہوجاتا ہے‘ جوموجب فساد ہوکر رہتا ہے۔ ایک شخص کی زندگی میں تو اس چیز کا فساد محدود پیمانے پر ہی ظاہر ہوتا ہے۔ مگر بڑی بڑی قوموں کی زندگی میں اس کے برے نتائج اتنے بڑے پیمانے پر نکلتے ہیں‘ کہ خشکی اور تری اور ہوافساد سے بھر جاتی ہے۔
’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے معنی
’’الکتاب‘‘ اور ’’الرسول‘‘ انسان کے سامنے اسی حق کو پیش کرتے ہیں‘ اور اس کو دعوت دیتے ہیں‘ کہ کسی دبائو کے بغیر وہ اپنی خوشی سے اس کو قبول کر لے۔ چونکہ یہ انسانی زندگی کے اس حصے کا معاملہ ہے‘ جس میں خدا نے انسان کو خود ہی اختیار دیا ہے‘ اس لیے یہ بات کہ انسان اس حصے میںخدا کو اپنا حاکم مانے‘ کسی دبائو سے نہیں منوائی جاتی بلکہ برضا ورغبت تسلیم کرائی جاتی ہے۔ جس کا اطمینان بھی اس بیان واقعہ (statement of fact)پر ہوجائے‘ جو ’’الکتاب‘‘ اور ’’الرسول‘‘ نے کائنات کی حقیقت کے متعلق دیا ہے‘ اور جس کا ضمیر بھی اس امر کی گواہی دے کہ اس واقعی حقیقت کی موجودگی میں حق وہی ہے‘ جو منطقی نتیجہ کے طور پر اس سے نکلتا ہے‘ وہ اپنی مرضی سے اپنی آزادی وخود مختاری خدا کی حاکمیت کے آگے تسلیم(surrender)کر دے۔ اسی تسلیم کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ اور جو لوگ تسلیم کا یہ فعل کریں وہ ’’مسلم‘‘ کہلاتے ہیں یعنی ایسے لوگ جنہوں نے خدا کی حاکمیت مان لی‘ اپنی خود مختاری سے اس کے حق میں دست بردار ہوگئے‘ اور اس بات کو انہوں نے خود اپنے اوپر لازم کر لیا کہ اپنی زندگی کا نظام خدا کے احکام کے مطابق چلائیں گے۔
مسلم سوسائٹی کی حقیقت
اب ایسے تمام لوگ جنہوں نے تسلیم کا یہ فعل کیا ہو‘ایک وحدت میں منسلک کیے جاتے ہیں‘ اور ان کے اجتماع سے ’’مسلم‘‘ سوسائٹی کی تشکیل وتنظیم ہوتی ہے۔یہ سوسائٹی ان سوسائٹیوں سے بالکل مختلف ہے‘ جو اتفاقی حوادث کے نتیجہ میں بنتی ہیں۔{ FR 2570 }اس کی تشکیل ایک ارادی فعل سے ہوتی ہے‘ اور اس کی تنظیم ایک ایسے معاہدے (contract) کے ذریعہ سے عمل میں آتی ہے‘ جو خدا اور بندوں کے درمیان شعوری طور پر واقع ہوتا ہے۔ اس معاہدے میں بندے یہ تسلیم کرتے ہیں‘ کہ خدا ان کا حاکم ہے‘ اسی کی ہدایت ان کے لیے دستور زندگی ہے‘ اسی کے احکام ان کے لیے قانون ہیں وہ اسی کو خیر مانیں گے‘ جسے خدا خیر بتائے گا‘ اور اسی کو شر تسلیم کریں گے‘ جسے خدا شر کہے گا۔صحیح وغلط اور جائزو ناجائز کا معیار وہ خدا ہی سے لیں گے‘ اور اپنی آزادی کو ان حدود کے اندر محدود رکھیں گے‘ جو خدا ان کے لیے کھینچ دے گا۔ مختصر یہ کہ اس معاہدے کی بنیادپر جو سوسائٹی بنتی ہے‘ وہ واضح طور پر یہ اقرار کرتی ہے‘ کہ وہ اپنے معاملاتِ زندگی میں ’’کیا ہونا چاہئے‘‘کا جواب بطور خودتجویز نہیں کرے گی‘ بلکہ اس جواب کو قبول کرے گی‘ جو خدا کی طرف سے ملے گا۔{ FR 2571 }
اس واضح اقرار کی بنیاد پر جب ایک سوسائٹی بن جاتی ہے تو’’الکتاب‘‘ اور ’’الرسول‘‘ اُسے ایک ضابطہ زندگی دیتے ہیں‘ جو ’’شریعت‘‘ کہلاتا ہے‘ اور سوسائٹی پر خود اپنے ہی اقرار کی وجہ سے یہ لازم ہوجاتا ہے‘ کہ اپنے معاملات زندگی کو اس اسکیم کے مطابق چلائے جو اس شریعت میں تجویز کی گئی ہے۔ تاوقتیکہ کسی شخص کی عقل بالکل ہی خبط نہ ہوگئی ہو‘ وہ کسی طرح اس بات کو ممکن فرض نہیں کر سکتاکہ کوئی مسلم سوسائٹی اپنے بنیادی معاہدے کو توڑے بغیر شریعت کے سوا کوئی دوسرا ضابطۂ زندگی اختیار کر سکتی ہے۔ دوسرا ضابطہ اختیار کرنے کے ساتھ ہی معاہدہ خود بخود ٹوٹ جاتا ہے‘ اور اس کے ٹوٹتے ہی وہ سوسائٹی ’’مسلم‘‘ کے بجائے غیر مسلم بن جاتی ہے۔ اتفاقی طور پر کسی شخص کا اپنی زندگی کے کسی معاملہ میں شریعت کی خلاف ورزی کر بیٹھنا اور چیز ہے۔ اس سے معاہدہ ٹوٹتا نہیں ہے‘ بلکہ صرف ایک جرم کا ارتکاب ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک پوری سوسائٹی جان بوجھ کر یہ طے کرے کہ شریعت اب اس کا ضابطۂ حیات نہیں ہے‘ اور یہ کہ اپنا ضابطہ اب وہ خود تجویز کریگی‘ یا کسی دوسرے مآخذ سے لے گی‘ تو یقینا یہ ایک فسخِ معاہدہ کا فعل ہے‘ اور قطعاً کوئی وجہ نہیں کہ ایسی سوسائٹی پر لفظ ’’مسلم‘‘ کا اطلاق درست ہو۔
شریعت کا مقصد اور اس کے اصول
ان بنیاد ی امور کی توضیح کے بعد اب ہمیں اس اسکیم کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے‘ جو انسانی زندگی کے لیے شریعت نے تجویز کی ہے۔ اس غرض کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ ہم پہلے اس کے مقصد اور اس کے بڑے بڑے اصولوں کا جائزہ لے لیں۔
اس کا مقصد انسانی زندگی کے نظام کو معروفات پر قائم کرنا اور منکرات سے پاک کرنا ہے۔ معروفات سے مراد وہ نیکیاں‘ خوبیاں اور بھلائیاں ہیں‘ جن کو انسانی فطرت ہمیشہ سے بھلائی کی حیثیت سے جانتی ہے۔ اور منکرات سے مراد وہ برائیاں ہیں‘ جن کو ہمیشہ سے انسانیت کا ضمیر بُرا جانتا آیا ہے۔دوسرے الفاظ میں معروف فطرتِ انسانی سے مناسبت رکھنے والی چیز ہے‘ اور منکراس کے خلاف ہے۔
وہ ہمارے لیے انہی چیزوں کو بھلائی قرار دیتی ہے جوخدا کی بنائی ہوئی فطرت کے مطابق ہیں‘ اور انہی چیزوں کو بُرا اقرار دیتی ہے‘ جو اس فطرت سے موافقت نہیں رکھتیں۔ وہ ان بھلائیوں کی محض ایک فہرست ہی بنا کر ہمارے حوالہ کر دینے پر اکتفا نہیں کرتی‘ بلکہ زندگی کی پوری اسکیم ایسے نقشے پر بناتی ہے‘ کہ اس کی بنیادیں معروف بھلائیوں پر قائم ہوں‘اور معروفات اس میں پروان چڑھ سکیں‘ اور منکرات کو اس کی تعمیر میں شامل ہونے سے روکا جائے‘ اور نظامِ زندگی میں ان کے درآنے اور ان کا زہر پھیلنے کے مواقع باقی نہ رہنے دئیے جائیں۔
اس غرض کے لیے وہ معروفات کے ساتھ ان اسباب اور ذرائع کو بھی اپنی اسکیم میں شامل کرتی ہے‘ جن سے وہ قائم ہوسکتے اور پروان چڑھ سکتے ہیں‘ اور ان موانع کو ہٹانے کا انتظام بھی تجویز کرتی ہے‘ جو معروفات کے قیام اور نشوونما میں کسی طورپر سدِّراہ ہوسکتے ہیں۔اس طرح اصل معروفات کے ساتھ ان کے وسائل قیام وترقی بھی معروف شمار ہوتے ہیں‘ اور ان کے موانع منکرات کی فہرست میں شامل کر دئیے جاتے ہیں۔یہی معاملہ منکرات کے ساتھ بھی ہے۔ اصل منکرات کے ساتھ وہ چیزیں بھی منکر قرار پائی ہیں‘ جو کسی منکر کے وقوع‘ یاظہور‘ یا نشوونما کا ذریعہ بنیں۔ سوسائٹی کے پورے نظام کو شریعت اس طرز پر ڈھالتی ہے‘ کہ ایک ایک معروف اپنی پوری صورت میں قائم ہو‘ زندگی کے تمام متعلق شعبوں میں اس کا ظہور ہو‘ ہر طرف سے اس کو قائم ہونے اور پروان چڑھنے میں مدد ملے اور ہر وہ رکاوٹ دور کی جائے‘ جو کسی طرح سے اس کی راہ میں حائل ہوسکتی ہو۔ اسی طرح ایک ایک منکر کوچن چن کر زندگی سے نکالا جائے‘ اس کی پیدائش اور نشوونما کے اسباب روکے جائیں‘ جدہر جدہر سے وہ زندگی میں گھس سکتا ہے اس کا راستہ بند کیا جائے‘ اور اگر وہ سر اُٹھا ہی لے تو پھر سختی کے ساتھ اسے دبا دیا جائے۔
معروفات کو شریعت تین قسموں پر تقسیم کرتی ہے۔ ایک واجب یا فرض‘ دوسرے مندوب یعنی مطلوب‘ تیسرے مباح یعنی جائز۔
(۱) فرض و واجبات وہ مصردفات ہیں جو مسلم سوسائٹی پر لازم کیے گئے ہیں۔ ان کےمتعلق شریعت صاف صاف اور قطعی احکام دیتی ہے۔
(۲) مطلوب وہ معروفات ہیں‘ جن کو شریعت چاہتی ہے‘ یا پسند کرتی ہے‘ کہ وہ سوسائٹی میں قائم اور جاری ہوں۔ ان میں سے بعض کو صاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے‘ اور بعض کا اشارہ شارع کے ارشادات سے نکلتا ہے۔ بعض کے قیام ونشوونما کا بندوبست کیا گیا ہے‘ اور بعض کی صرف سفارش کی گئی ہے‘ تاکہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی یا اس کے صالح لوگ ان کی طرف خود توجہ کریں۔
(۳) رہے مباح معروفات‘ تو شریعت کی زبان میں ہر وہ چیز اور فعل مباح ہے‘ جس کی ممانعت نہ کی گئی ہو۔ اس تعریف کی بنا پر مباحات صرف وہی نہیں ہیں‘ جن کی اجازت کی تصریح ہو‘ یا جن کے معاملہ میں ہمیں صاف طور پر اختیار دیا گیا ہو‘ بلکہ ان کا دائرہ بہت وسیع ہوجاتا ہے‘ حتیٰ کہ چند بیان کردہ ممنوعات کو چھوڑ کر دنیا میں سب کچھ مباح ٹھیرتا ہے۔ یہی مباحات کا دائرہ وہ دائرہ ہے جس میں شریعت نے ہم کو آزادی عمل دی ہے‘ اور اسی دائرہ میں ہم کو اپنی ضرورتوں کے مطابق قوانین وضوابط اور طریق کار خود تجویز کر لینے کے اختیارات حاصل ہیں۔
منگرات کو شریعت میں دو قسموں پر تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک حرام یعنی قطعی ممنوع‘ دوسرے مکروہ یعنی ناپسندیدہ۔
حرام وہ ہے‘ جس سے باز رہنا اور اپنی انفرادی واجتماعی زندگی کو اس سے پاک رکھنا مسلمانوں پر لازم کر دیا گیا ہے‘ اورشریعت میں اس کے متعلق صاف صاف احکام دے دئیے گئے ہیں۔
رہا مکروہ‘ تو اس کے متعلق شارع کسی نہ کسی طور پر صراحتہً یا کنا یتہً ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے‘ جس سے بآسانی معلوم ہوجاتا ہے‘ کہ وہ کس درجہ میں ناپسندیدہ ہے۔ بعض مکر وہات حرام کے قریب ہیں‘ اور بعض مباح کی سرحد سے ملے ہوئے ہیں‘ اور بہت سے ان کے درمیانی مراتب پر ہیں۔ بعض کو روکنے اور بند کرنے کا شریعت کے نظام میں بندوبست کیا گیا ہے‘ اور بعض کو ناپسندیدہ بتا کر چھوڑ دیا گیا ہے‘ تاکہ سوسائٹی خود یا اس کے صالح عناصر ان کا سدباب کریں۔
شریعت کی ہمہ گیری
معروف اور منکر کے متعلق یہ احکام ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام گوشوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مذہبی عبادات‘ شخصی کردار‘ اخلاق اور عادات‘ کھانا پینا‘ پہننا اوڑھنا‘ نشست وبرخاست‘ بات چیت‘ خاندانی زندگی‘ معاشرتی تعلقات‘ معاشی معاملات‘ ملکی انتظام شہریت کے حقوق وواجبات‘ قیامِ عدل کا نظام‘ حکومت کے طریقے‘ صلح وجنگ اور دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات‘ غرض زندگی کا کوئی شعبہ اورپہلو ایسا نہیں رہ گیاہے‘ جس کے متعلق شریعت نے ہم پر نیکی اور بدی کے طریقے‘ بھلائی اور برائی کے راستے اور پاک وناپاک کے امتیازات واضح نہ کر دئیے ہوں۔ وہ ہمیں ایک صالح نظامِ زندگی کا پورا نقشہ دیتی ہے‘ جس میں صاف صاف بتا دیا گیا ہے‘ کہ کیا بھلائیاں ہیں‘ جنہیں ہم کو قائم کرنا‘ بڑھانا اور نشوونما دینا ہے کیا برائیاں ہیں‘ جن کو دبانا اور مٹانا ہے کن حدود کے اندر ہماری آزادی عمل کو محدود رہنا چاہئے‘ اور عملاً ہمیں کون سے طریقے اختیار کرنے چاہئیں‘ جن سے ہماری زندگی میں مطلوبہ بھلائیاں پروان چڑھیں اور برائیوں کا استیصال ہو۔
نظامِ شریعت کا ناقابلِ تقسیم ہونا
یہ پورا نقشۂ زندگی ایک ہی نقشۂ زندگی ہے‘ اور اس کا ایک مجموعی مزاج ہے‘ جو تقسیم ہوکر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کی وحدت کچھ اِسی طرح کی ہے جیسی خود انسان کے وجود کی وحدت ہے آپ جس چیز کو انسان کہتے ہیں وہ آدمی کا سالم وجود ہے نہ کہ انسانی جسم کے الگ الگ کیے ہوئے ٹکڑوں کا مجموعہ‘ ایک کٹی ہوئی ٹانگ کو آپ ۸/۱انسان یا ۶/۱انسان نہیں کہہ سکتے۔ نہ یہ کٹی ہوئی ٹانگ ان خدمات میں سے کوئی خدمت انجام دے سکتی ہے‘ جو زندہ اور سالم جسم کا ایک عضو ہونے کی صورت میں وہ انجام دیا کرتی ہے۔ نہ اس ٹانگ کو کسی اور جانورکے جسم میں لگا کر آپ یہ توقع کر سکتے ہیں‘ کہ اس جانور میں ایک ٹانگ کے بقدر انسانیت پیدا ہوجائے گی۔ اسی طرح انسانی جسم کے ہاتھ‘ پائوں‘ آنکھ‘ ناک وغیرہ اعضاء کو الگ الگ لے کر آپ ان کے حسن یا ان کے فائدے کے متعلق بھی کوئی رائے قائم نہیں کر سکتے‘ جب تک کہ پورے زندہ جسم میں ان کے تناسب اور ان کے عمل کو نہ دیکھیں۔ ٹھیک ٹھیک یہی حال شریعت کے نقشۂ زندگی کا ہے۔ اسلام اس پورے نقشے کا نام ہے نہ کہ اس کے جدا جدا ٹکڑوں کا۔ اس کے اجزا کو پارہ پارہ کر کے نہ تو ان کے بارے میں جدا گانہ رائے زنی کرنا درست ہوسکتا ہے‘ نہ مجموعہ سے الگ ہوکر اس کا کوئی جُزو وہ کام کر سکتا ہے‘ جو وہ صرف اپنے مجموعہ ہی میں رہ کر کیا کرتا ہے نہ اس کے بعض اجزاء کو قائم کر کے آپ یہ کہہ سکتے ہیں‘ کہ ہم نے آدھا یا چوتھائی اسلام قائم کر دیا ہے‘ اور نہ کسی دوسرے نظامِ زندگی میں اس کے کسی جزویا اجزا کو پیوست کر کے کوئی مفید نتیجہ ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ شارع نے یہ نقشہ اس لیے بنایا ہے‘ کہ یہ پورے کا پورا ایک ساتھ قائم ہو‘ نہ اس لیے کہ آپ حسب منشاء اس کے کسی جُزو کو جب چاہیں لے کر قائم کردیں بغیر اس کے کہ دوسرے اجزاء اس کے ساتھ ہوں۔ اس کا ہرجزو دوسرے اجزاء کے ساتھ اس طرح جڑا ہوا ہے‘ کہ ان کے ساتھ مل کر ہی کام کر سکتا اور آپ اس کی خوبی کے متعلق صحیح رائے صرف اسی وقت قائم کر سکتے ہیں‘ جب کہ پورے نظامِ اسلامی کے تناسب اور عمل میں اس کو قائم کرتے ہوئے دیکھیں۔
آج شریعت کے بعض احکام کے متعلق جو غلط فہمیاں لوگوں میں پائی جاتی ہیں‘ ان میں سے اکثر کی وجہ یہی ہے‘ کہ پورے اسلام پر مجموعی نگاہ ڈالے بغیر‘ اس کے کسی ایک جُزو کو نکال لیا جاتا ہے‘ اور پھر یا تو اسے موجودہ غیراسلامی نظامِ زندگی کے اندر رکھ کر رائے قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ یا پھر بجائے خود اسی جُزو کو ایک مستقل چیز سمجھ کر اس کے حسن وقج کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اسلامی قانون فوج داری کی بعض دفعات پر آج کے لوگ بہت ناک بھوں چڑھاتے ہیں‘ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہے‘ کہ جس نقشۂ زندگی میں یہ قانونی دفعات رکھی گئی ہیں‘ اس کے اندر ان کے ساتھ ایک نظام معیشت‘ ایک نظام معاشرت‘ ایک نظامِ حکومت اور ایک نظامِ تعلیم وتربیت بھی ہے‘ جو اگر ساتھ ساتھ پوری اجتماعی زندگی میں کام نہ کر رہا ہو‘ تو نری ان دفعات کو قانون کی کتاب سے نکال کر‘ عدالت کے کمرے میں جاری کر دینا خود اس نقشۂ زندگی کے بھی خلاف ہے۔
بلا شبہ اسلامی قانون چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا ہے‘ مگر یہ حکم ہر سوسائٹی میں جاری ہونے کے لیے نہیں دیا گیا ہے‘ بلکہ اسے اسلام ہی کی اس سوسائٹی میں جاری کرنا مقصود تھا‘ جس کے مالداروں سے زکوٰۃلی جا رہی ہو‘ جس کا بیت المال ہر حاجت مند کی امداد کے لیے کھلا ہو‘ جس کی ہر بستی پر مسافروں کی تین دن ضیافت لازم کی گئی ہو‘ جس کے نظامِ شریعت میں سب لوگوں کے لیے بالکل یکساں حقوق اور برابر کے مواقع ہوں‘ جس کے معاشی نظام میں طبقوں کی اجارہ داری کے لیے کوئی جگہ نہ ہو‘ اور جائز کسب معاش کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوں‘ جس کے نظامِ تعلیم وتربیت نے ملک کے عام افراد میں خدا کا خوف اور اس کی رضا کا شوق پیدا کر دیا ہو‘ جس کے اخلاقی ماحول میں فیاضی‘ مصیبت زدوں کی دست گیری‘ حاجت مندوں کی اعانت اور گرتوں کو سہارا دینے کا عام چرچا ہو‘ اور جس کے بچے بچے کو یہ سبق دیا گیا ہوکہ تو مومن نہیں ہے‘ اگر تیرا ہمسایہ بھوکا ہو‘ اور تو خود پیٹ بھر کر کھانا کھا بیٹھے۔ یہ حکم آپ کی موجودہ سوسائٹی کے لیے نہیں دیا گیا تھا‘ جس میں کوئی شخص کسی کو قرض بھی سود کے بغیر نہیں دیتا۔ جس میں بیت المال کی جگہ بنک اور انشورنس کمپنی ہے‘ جس میں حاجت مند کے لیے مدد کو بڑھنے والے ہاتھ کی جگہ دھتکار اور پھٹکار ہے‘ جس کا اخلاقی نقطۂ نظریہ ہے‘ کہ ایک شخص کی کمائی میں دوسروں کا کوئی حصّہ نہیں‘ بلکہ ہر شخص اپنی کفالت کا خود ذمّہ دارہے‘ جس کا معاشرتی نظام بعض خاص طبقوں کو مخصوص امتیازی حقوق دیتا ہے‘ جس کا معاشی نظام چند خوش نصیب اور چالاک لوگوں کو ہر طرف سے دولت سمیٹ لینے کا موقع دیتا ہے‘ اور جس کا سیاسی نظام اپنے قوانین کے ذریعہ سے ان کے مفاد کی حفاظت کرتا ہے۔ ایسی سوسائٹی میں تو چور کا ہاتھ کاٹنا کیا معنی‘ شاید اکثر حالات میں تو اس کو سرے سے کوئی سزا دینا ہی درست نہیں ہے‘ کیونکہ اس قسم کی ایک سوسائٹی میں چوری کو جرم قرار دینا دراصل یہ معنی رکھتا ہے‘ کہ خود غرض اور حرام خور لوگوں کے مال کی حفاظت قانون کے پیشِ نظر ہے۔ برعکس اس کے اسلام وہ سوسائٹی پیدا کرتا ہے‘ جس میں کسی شخص کے لیے چوری پر مجبور ہونے کا کوئی موقع نہ رہے۔ ہر ضرورت مند انسان کی جائز ضروریات پوری کرنے کے لیے لوگ خود ہی رضا کارانہ طور پر آمادہ ہوں ‘اور حکومت کی طرف سے بھی اس کی دستگیری کا پورا انتظا م ہو۔ پھر جو شخص اس کے باوجود چوری کرے اس کے لیے اسلامی قانون ہاتھ کاٹنے کی عبرتناک سزا تجویز کرتا ہے‘ کیونکہ ایسا شخص ایک شریف‘ عادل اور فیاض سوسائٹی میں رہنے کے قابل نہیں ہے۔
اسی طرح اسلامی قانونِ تعزیرات زنا پر سو کوڑے مارتا ہے‘ اور شادی شدہ زنا کار کو سنگسار کر دیتا ہے۔مگر یہ کس سوسائٹی میں؟ اس میں جس کے پورے نظامِ تمدّن کو شہوت انگیز اسباب سے خالی کیا گیا ہو‘ جس میں عورتوں اور مردوں کی مخلوط معاشرت نہ ہو‘ جس میں بنی سنوری عورتوں کا منظر عام پر آنا بند ہو‘ جس میں نکاح کو نہایت آسان کر دیا گیا ہو‘ جس میں نیکی اور تقوی اور پاکیزگی اخلاق کا عام چرچا ہو‘ اور جس کے ماحول میں خدا کی یاد ہر وقت تازہ ہوتی رہتی ہو‘یہ حکم اس گندی سوسائٹی کے لیے نہیں ہے‘ جس میں ہر طرف جنسی جذبات کو بھڑکانے کے اسباب پھیلے ہوئے ہیں‘ گلی گلی اور گھر گھر فحش گیت بج رہے ہیں‘ جگہ جگہ فلم اسٹاروں کی تصویریں لٹکی ہوئی ہیں‘ شہر شہر اور قصبے قصبے سنیما درس عشق دے رہے ہیں‘ نہایت گندہ لٹریچر آزادی کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ بنی سنوری خواتین کھلے بندوں پھر رہی ہیں‘ زندگی کے ہر شعبہ میں جنسی اختلاط کے مواقع بڑھ رہے ہیں‘ اور نظام معاشرت نے اپنے بیہودہ رواجوں سے نکاح کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ظاہر ہے‘ کہ ایسی سوسائٹی میں توزنا کرنے والے کو سزا دینے کے بجائے زنا سے پرہیز کرنے والے کو انعام یا کم از کم خان بہادری کا خطاب ملنا چاہئے۔
شریعت کا قانونی حصّہ
اس بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے‘ کہ جدید اصطلاح کے مطابق شریعت کے جس حصے کو ہم قانون کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں‘ وہ زندگی کی ایک مکمل اور جامع اسکیم کا جُزو ہے۔ یہ جُزو بجائے خود کوئی مستقل چیز نہیں ہے‘ کہ کل سے الگ کر کے اسے سمجھا جا سکے‘ یا جاری کیا جا سکے۔ اگر ایسا کیا بھی جائے‘ تو یہ اسلامی قانون کا اجراء نہ ہوگا۔ نہ اس سے وہ نتائج حاصل ہوسکیں گے‘ جو اسلام کے پیشِ نظر ہیں‘ اور نہ یہ حرکت خود شارع کے منشا کے مطابق ہوگی۔ شارع کا اصل منشا اپنی پوری اسکیم کو اجتماعی زندگی میں جاری کرنا ہے‘ اور اس اسکیم کے مجموعی عمل درآمد ہی میں اسلامی قانون کا اجراء صحیح طورپر ہوسکتا ہے۔
شریعت کی یہ اسکیم عملی لحاظ سے کئی حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بعض حصے ایسے ہیں‘ جن کو نافذ کرنا ہر مومن کا اپنا کام ہے۔ کوئی خارجی طاقت ان کو نافذ نہیں کر اسکتی۔ بعض اور حصے ایسے ہیں‘ جنہیں اسلام اپنے تزکیہ نفس اور تربیت اخلاق اور تعلیم وتدریس کے پروگرام سے نافذ کراتا ہے۔ بعض دوسرے حصوں کو جاری کرنے کے لیے وہ رائے عام کی طاقت استعمال کرتا ہے۔ بعض اور حصوں کو وہ مسلم سوسائٹی کے اصلاح یافتہ رواجوں کی شکل میں نافذ کرتا ہے۔ اور ان سب کے ساتھ ایک بہت بڑا حصّہ ایسا ہے‘ جسے نافذ کرنے کے لیے وہ تقاضا کرتا ہے‘ کہ مسلم سوسائٹی اپنے اندر سیاسی اقتدار پیدا کرے‘ کیونکہ وہ اقتدار کے بغیر نافذ نہیں ہوسکتا۔ یہ سیاسی اقتدار اس غرض کے لیے درکار ہے‘ کہ شریعت کے تجویز کردہ نظامِ زندگی کی حفاظت کرے‘ اس کو بگڑنے سے روکے‘ اس کے منشا کے مطابق بھلائیوں کے نشو ونما اور برائیوں کے استیصال کا انتظام کرے‘ اور اس کے ان احکام کو نافذ کرے‘ جن کی تنفیذ کے لیے ایک نظام عدالت کا ہونا ضروری ہے۔
یہی آخری حصّہ وہ چیز ہے‘ جسے ہم اسلامی قانون کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اگرچہ ایک لحاظ سے پوری شریعت ہی قانون ہے‘ کیونکہ وہ رعیت پر حاکم اعلیٰ کا مقرر کیا ہوا مجموعہ احکام ہے‘ لیکن چونکہ اصطلاح میں’’قانون‘‘ کا اطلاق ان احکام پر ہوتا ہے‘ جو سیاسی اقتدار کے ذریعہ سے نافذ کیے جائیں‘ اس لیے ہم شریعت کے صرف اس حصے کو ’’قانون اسلام‘‘ قرار دیتے ہیں‘ جسے نافذ کرنے کے لیے وہ خود اپنے اصول ومزاج کے مطابق ایک سیاسی اقتدار کی تشکیل چاہتی ہے۔
اسلام قانون کے اہم شعبے
(۱) اس سیاسی اقتدار کی تشکیل کے لیے سب سے پہلے ایک دستوری قانون (constitutive law)کی ضرورت ہے‘ اور شریعت نے اس کے تمام ضروری اصول مقرر کر دئیے ہیں۔ ریاست کا اساسی نظریہ کیا ہے؟اس کے قیام کا مقصد کیا ہے؟ کون لوگ اس کے شہری ہوسکتے ہیں؟ان کے حقوق اور واجبات کیا ہیں؟کس بنیاد پر کسی کو حقوق شہریت ملتے اور کس بنا پر وہ سلب ہوسکتے ہیں؟ غیر مسلم شہریوں (ذمیوں) کے حقوق وواجبات کیا ہیں؟ ریاست کے قانون اور اختیارات کا مآخذ کیا ہے؟ حکومت کا انتظام کن اصولوں پر چلا یا جائے گا؟ انتظامی اختیارات کس کے سپرد کیے جائیں گے؟اس کا تقرر کون کرے گا؟ کس کے سامنے وہ جواب دہ ہوگا ‘اور کن حدود کے اندر وہ کام کرے گا؟ قانون سازی کے اختیارات کس کو کس حد تک حاصل ہوں گے؟عدالت کے حقوق وفرائض کیا ہوں گے؟ دستوری قانون کے ان تمام بنیادی مسائل کا واضح جواب شریعت نے ہم کو دے دیا ہے۔ پھر ان اصولوں کو صاف صاف متعین کرنے کے بعد وہ ہمیں آزاد چھوڑ دیتی ہے‘ کہ دستور کی تفصیلی شکل وصورت ہم خود اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق بنا لیں۔ ہم اس امر کے پابند تو ضرور کیے گئے ہیں‘ کہ اپنی ریاست کے دستور میں شریعت کے مقرر کیے ہوئے‘ ان اصولوں پر قائم رہیں‘ لیکن کوئی مفصل دستورہر زمانے کے لیے ہم کو بنا کر نہیں دے دیا گیا ہے‘ جس کے اندر فروعی ردّوبدل بھی جائز نہ ہو۔
(۲) تشکیل کے بعد اسلامی ریاست کو اپنا نظام چلانے کے لیے ایک انتظامی قانون (administrative law)کی ضرورت ہے۔ سو اس کے بھی تمام بنیادی اصول شریعت نے واضح کر دئیے ہیں‘ اور مزید برآں اس معاملہ میں ہماری رہنمائی کے لیے محمدa اور خلفائے راشدین کی مثالی حکومت کے نظائر بھی موجود ہیں۔ ایک اسلامی ریاست اپنی آمدنی کے لیے کس قسم کے ذرائع اختیار کر سکتی ہے‘ اور کس قسم کے ذرائع اختیار نہیں کر سکتی؟حکومت کے حاصلات میں کس قسم کے تصرّفات درست ہیں‘ اور کس قسم کے نادرست؟فوج‘ پولیس‘ عدالت اور نظم ونسق کے مختلف شعبوں میں حکومت کا روّیہ کیا ہونا چاہئے؟ باشندوں کی اخلاقی اور مادی فلاح کے لیے حکومت پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں؟کون سی بھلائیاں ہیں‘ جنہیں قائم کرنے اور فروغ دینے کے لیے اسے کوشش کرنی چاہئے‘ اور کون سی برائیاں ہیں‘ جنہیں روکنا اور دبانا اس کے فرائض میں سے ہے؟ باشندگانِ ملک کے معاملات زندگی میں حکومت کس حد تک دخل انداز ہونے کی مجاز ہے؟ ان امور میں شریعت ہم کو محض اصولی ہدایات ہی نہیں دیتی‘ بلکہ خاص مسائل کے متعلق قطعی اورصریح احکام بھی دیتی ہے۔ لیکن پورے نظم ونسق کے متعلق اس نے کوئی تفصیلی ضابطہ بنا کر ہمیں نہیں دے دیا ہے‘ جسے ایک ہی شکل وصورت پر ہمیشہ اور ہر زمانے میں قائم رکھنے پر ہم مامور ہوں ‘اور جس میں کسی قسم کا تغیّر وتبدل کرنے کی ہمیں اجازت نہ ہو۔دستوری قانون کی طرح انتظامی قانون میں بھی تفصیلی ضوابط بنانے کی پوری آزادی ہمیں حاصل ہے۔ البتہ اس آزادی کو ہم ان اصول اور حدود کے اندر ہی استعمال کر سکتے ہیں‘ جو شریعت نے مقرر کر دئیے ہیں۔
(۳) اس کے بعد ملکی قانون(public law)اور شخصی قانون(personal law)کے وہ ابواب آتے ہیں‘ جو معاشرے میں امن اور انصاف قائم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان ابواب میں شریعت اتنے وسیع پیمانے پر ہمیں تفصیلی احکام اور اصولی ہدایات دیتی ہے‘ کہ کسی دور میں اور معاملاتِ زندگی کے کسی گوشے میں بھی ہم کو اپنی قانونی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے شرعی حدود سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آسکتی۔ جو تفصیلی احکام اس نے دئیے ہیں‘ وہ اب تک ہر ملک اور ہر دور کی سوسائٹی میں یکساں صحت کے ساتھ جاری ہوسکتے ہیں‘ (بشرطیکہ زندگی کا وہ مجموعی نظام بھی جس میں آپ ان احکام کو جاری کریں اسلام کی ہدایت پر چل رہا ہو)اور جو اصولی ہدایات اس نے دی ہیں‘ وہ اس قدر جامع ہیں‘ کہ قریب قریب اکثر معاملاتِ زندگی میں تمام ضرور ی قوانین ان کی روشنی میں بنائے جا سکتے ہیں۔ پھر جن معاملات میں شریعت کسی قسم کے احکام اور ہدایات نہیں دیتی ان میں خود شریعت ہی کی رُو سے اسلامی ریاست کے اہل الرائے اور اصحاب حل وعقد باہمی مشورے سے قوانین بنانے کے مجاز ہیں۔ اور اس طرح جو قوانین بناے جائیں گے‘ وہ قانون اسلام ہی کا ایک جُزو شمار ہوں گے‘ کیوں کہ وہ شریعت کی دی ہوئی اجازت کے تحت بنائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے‘ کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ہمارے فقہا نے استحسان اور مصالح مرسلہ وغیرہ عنوانات کے تحت جو احکام مدون کیے تھے وہ قانونِ اسلام ہی کے اجزاء سمجھے گئے۔
(۴) سب سے آخر میں قانون کا ایک شعبہ وہ بھی ہے‘ جس کی ایک ریاست کو اپنے بین الاقوامی تعلقات کے لیے ضرورت پیش آتی ہے۔ اس باب میں شریعت نے جنگ اور صلح اور غیر جانبداری کی مختلف حالتوں کے متعلق اسلامی ریاست کا برتائو متعین کرنے کے لیے بہت تفصیلی ہدایات دی ہیں‘ اور جہاں تفصیلات نہیں دیں وہاں ایسے اصول دے دئیے ہیں‘ جن کی روشنی میں تفصیلات مرتّب کی جا سکتی ہیں۔
اسلامی قانون کا استقلال اور اس کی ترقی پذیری
اس مختصر تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے‘ کہ علمِ قانون کے جتنے شعبوں پر انسانی تصوّر آج تک پھیل سکا ہے ان میں سے کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں ہے‘ جس میں شریعت نے ہماری رہنمائی نہ کی ہو۔ یہ رہنمائی کس کس شکل میں کی گئی ہے اس کا اگر تفصیلی جائزہ لے کر دیکھا جائے‘ تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے‘ کہ اسلامی قانون میں کیا چیز قطعی اور مستقل ہے‘ اور اس کے ایسا ہونے کا فائدہ کیا ہے‘ اور کون سی چیز ابد تک ترقی پذیر ہے‘ اور وہ کس طریقہ سے ہر دور میں ہماری بڑھتی ہوئی تمدّنی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے۔
اس قانون میں جو چیز اٹل ہے وہ تین اجزاء پر مشتمل ہے:
۱- قطعی اورصریح احکام جو قرآن یا ثابت شدہ احادیث میں دئیے گئے ہیں‘ مثلاً شراب اور سود اور قمار کی حرمت‘ چوری اور زنا اور قَذْف کی سزائیں اور میت کے ترکہ میں وارثوں کے حصے۔
۲- اصولی احکام جو قرآن یا ثابت شدہ احادیث میں بیان ہوئے ہیں‘ مثلاً یہ کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے‘ یا یہ کہ لین دین کے جن طریقوں میں منافع کا تبادلہ آپس کی رضامندی سے نہ ہووہ باطل ہیں‘ یا یہ کہ مرد عورتوں پر قوام ہیں۔
۳- حدود جو قرآن وسنّت میں اس غرض کے لیے مقرر کی گئی ہیں‘ کہ ہم اپنی آزادی عمل کو ان کے اندر محدود رکھیں‘ اور کسی حال میں ان سے تجاوز نہ کریں مثلاً تعدد ازواج کے لیے بیک وقت چار عورتوں کی حد‘ یا طلاق کے لیے تین کی حد‘ یا وصیت کے لیے ایک تہائی مال کی حد‘ اسلامی قانون کا یہ اٹل اور قطعی واجب الاطاعت حصّہ ہی دراصل وہ چیز ہے‘ جو اسلامی تہذیب وتمدّن کے حدود اربعہ اور اس کی مخصوص امتیازی شکل وصورت معین کرتا ہے۔ آپ کسی ایسی تہذیب کی نشان دہی نہیں کر سکتے جو اپنے اندر ایک ناقابلِ تغیّر وتبدل عنصر رکھے بغیر اپنی ہستی اور اپنی انفرادیت کو بر قرار رکھ سکے۔ اگر کسی تہذیب میں ایسا کوئی عنصر بھی نہ ہو‘ اور سبھی کچھ قابلِ ترمیم وتنسیخ ہو‘ تو فی الحقیقت وہ سرے سے کوئی مستقل تہذیب ہی نہیں ہے۔ وہ تو ایک پگھلا ہوا مادّہ ہے‘ جو ہر سانچے میں ڈھل سکتا ہے‘ اور ہر وقت اپنی شکل بدل سکتا ہے۔
علاوہ بریں ان احکام اوراصول اور حدود کا تفصیلی مطالعہ کرنے سے ہر معقول آدمی اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ شریعت نے حکم جہاں بھی دیا ہے‘ ایسے موقع پر دیا ہے ‘جہاں انسانی قوّتِ فیصلہ غلطی کر کے ’’معروف‘‘سے ہٹ سکتی ہے‘ ایسے تمام مواقع پر شریعت صاف حکم دے کر یا صریحاً منع کر کے یا اصول بتا کر‘ یا حد لگا کر گویا نشانات(sign posts)کھڑے کر دیتی ہے‘ تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ صحیح راستہ کس طرف ہے۔ یہ نشانات ہماری رفتار ترقی کو روکنے والے نہیں ہیں‘ بلکہ ہمیں سیدھی راہ پر لگانے اور ہمارے سفرِ زندگی کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے ہیں۔ ان مستقل قوانین کا ایک معتد بہ حصّہ ایسا ہے‘ جن پر کل تک دنیا اعتراض کر رہی تھی‘ مگر ہمارے دیکھتے دیکھتے تجربات اور تلخ تجربات نے‘ کل کے معترضین کو آج معترف بنا دیا ہے‘ اور انہی قوانین کی خوشہ چینی پر وہ مجبور ہورہے ہیں۔ مثال کے طور پر میں صرف اسلام کے قانونِ ازدواج اور قانونِ میراث کی طرف اشارہ کافی سمجھتا ہوں۔
اس پائدار اور اٹل عنصر کے ساتھ ایک دوسرا عنصر ایسا ہے‘ جو اسلامی قانون میں بے اندازہ وسعت پیدا کرتا ہے‘ اور اسے زمانہ کے تمام بدلتے ہوئے حالات میں ترقی پذیر بناتا ہے۔ یہ عنصر کئی اقسام پر مشتمل ہے۔
۱- تعبیر یا تاویلِ احکام یعنی کوئی حکم جن الفاظ میں دیا گیا ہو‘ان کا مفہوم سمجھنے اور ان کا منشا متعین کرنے کی کوشش کرنا۔ یہ فقہ اسلامی کا ایک بہت ہی وسیع باب ہے۔ قانونی دماغ اور نکتہ رس نگاہیں رکھنے والے لوگ جب کتاب وسنّت میں غور وخوض کرتے ہیں‘ تو وہ شریعت کے صریح احکام میں بھی مختلف تعبیرات کی گنجائش پاتے ہیں‘ اور ان میں سے ہر ایک اپنے فہم وبصیرت کے مطابق کسی ایک تعبیر کو بدلائل دوسری تعبیروں پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ اختلافِ تعبیر پہلے بھی اُمت کے اہلِ علم میں رہا ہے آج بھی ہوسکتا ہے‘ اور آئندہ بھی یہ دروازہ کھلا رہے گا۔
۲- قیاس یعنی جس معاملہ میں کوئی صاف حکم نہ ملتا ہو‘اس پر کسی ایسے حکم کو جاری کرنا جو اس سے ملتے جلتے کسی معاملہ میں دیا گیا ہو۔
۳- اجتہاد‘ یعنی شریعت کے اصولی احکام اور جامع ہدایات کو سمجھ کر ایسے معاملات پر ان کو منطبق کرنا جن میں نظائر بھی نہ ملتے ہوں۔
۴- استحسان یعنی مباحات کے غیر محدود دائرے میں حسب ِضرورت ایسے قوانین اور ضوابط وضع کرنا جو اسلام کے مجموعی نظام کی روح سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھتے ہوں۔
یہ چاروں چیزیں ایسی ہیں‘ جن کے امکانات پر اگر کوئی شخص غور کرے‘ تو وہ کبھی اس شبہ میں نہیں پڑ سکتا‘کہ اسلامی قانون کا دامن کسی وقت بھی انسانی تمدّن کی روز افزوں ضروریات اور متغیّر حالات کے لیے تنگ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھئے کہ اجتہاد واستحسان ہویا تعبیر وقیاس‘ بہرحال اس کا مجاز ہر کس وناکس نہیں ہوسکتا۔ آپ ہر راہ روکا یہ حق تسلیم نہیں کر سکتے‘ کہ وہ موجودہ ملکی قانون کے کسی مسئلہ پر فیصلہ صادر کر دے۔ اس کے لیے قانونی تعلیم اور ذہنی تربیت کا ایک خاص معیار آپ کے نزدیک بھی ناگزیر ہے‘ جس پر پورا اترے بغیر کوئی شخص ماہرانہ رائے زنی کا اہل نہیں مانا جا سکتا۔ اسی طرح اسلامی قانون کے مسائل پر بھی رائے زنی کا حق صرف ان ہی لوگوں کو دیا جا سکتا ہے‘ جنہوں نے اس کی ضروری اہلیت بہم پہنچائی ہوتعبیر احکام کے لیے ضروری ہے‘ کہ آدمی اس زبان کی نزاکتوں سے واقف ہو‘ جس میں احکام دئیے گئے ہیں ان حالات سے واقف ہوجن میں ابتدائً یہ احکام دئیے گئے تھے۔ قرآن کے انداز بیان کو اچھی طرح سمجھتا ہواور حدیث کے ذخیرہ پر وسیع نگاہ رکھتا ہو۔ قیاس کے لیے ضروری ہے‘ کہ آدمی اتنی لطیف قانونی حس رکھتا ہوکہ ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کرتے ہوئے ان کی باہمی مماثلت کے پہلووئوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھ سکے‘ ورنہ ایک کا حکم دوسرے پر منطبق کرنے میں وہ غلطی سے نہیں بچ سکتا۔ اجتہاد کے لیے شریعت کے احکام میں گہری بصیرت اور معاملات زندگی کا عمدہ فہم محض عام فہم ہی نہیں‘ بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے فہم درکار ہے۔استحسان کے لیے بھی ناگزیر ہے‘ کہ آدمی اسلام کے مزاج اور اس کے نظامِ زندگی کو اچھی طرح سمجھتا ہو‘ تاکہ مباحات کے دائرے میں جو قوانین اور ضوابط وہ تجویز کرے‘ وہ اس نظامِ زندگی کے مجموعہ میں صحیح طور پر جذب ہوسکیں۔ ان علمی اور ذہنی صلاحیتوں سے بڑھ کر ایک اور چیز بھی درکار ہے‘ جس کے بغیراسلامی قانون کا ارتقاء کبھی صحیح خطوط پر نہیں ہوسکتا اور وہ یہ ہے‘ کہ جو لوگ اس کام کو انجام دیں ان کے اندر اسلام کی پیروی کا ارادہ اور خدا کے سامنے اپنی جوابدہی کا احساس موجود ہو۔ یقینا یہ کام ان لوگوں کے کرنے کا نہیں ہے‘ جو خدا اور آخرت سے بے پروا ہوکر محض دنیوی مصلحتوں پر نگاہ جما چکے ہوں ‘اور اسلامی قدروں کو چھوڑ کر کسی دوسری تہذیب کی قدریں پسند کر چکے ہوں۔ ایسے لوگوں کے ہاتھوں اسلامی قانون کا ارتقا نہیں ہوسکتا صرف اس میں تحریف ہی سکتی ہے۔
اعتراضات اور جوابات
اب میں مختصر طور پران اعتراضات سے بحث کروں گا‘ جو پاکستان میں اسلامی قانون کے اجراء کا مطالبہ سن کر بالعموم کیے جاتے ہیں۔ یہ اعتراضات بظاہرتو بہت سے ہیں اس لیے کہ ان کے بیان کرنے میں الفاظ کی فضول خرچی ذرا دل کھول کر کی جاتی ہے‘ لیکن سب کاتجزّیہ کرنے سے اصل اعتراض صرف چار نکلتے ہیں۔
۱- تہمت ِبوسیدگی
پہلا اعتراض یہ ہے‘ کہ صدیوں کا پرانا قانون جدید زمانے کی ایک سوسائٹی اور سٹیٹ کی ضروریات کے لیے کس طرح کافی ہوسکتا ہے؟
جن حضرات کی طرف سے یہ اعتراض پیش کیا جاتا ہے مجھے شبہ ہے‘ کہ وہ اسلامی قانون کے متعلق ابتدائی اور سرسری واقفیت بھی رکھتے ہیں‘ یا نہیں۔ غالباً انہوں نے کہیں سے بس یہ اڑتی اڑتی خبر سن لی ہے‘ کہ اس قانون کے بنیادی احکام اور اصول ساڑھے تیرہ سو برس پہلے بیان ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ بات انہوں نے بطور خود فرض کر لی کہ اس وقت سے یہ قانون جوں کا توں اسی حالت میں رکھا ہوا ہے۔ اسی بنا پر انہیں یہ اندیشہ لاحق ہوگیا‘ کہ اگر آج ایک جدید ریاست اسے اپنا ملکی قانون بنا لے تو وہ اس کی وسیع ضروریات کے لیے کیسے کافی ہوسکے گا۔ ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے‘ کہ جو بنیادی احکام واصول ساڑھے تیرہ سو برس پہلے دئیے گئے تھے ان پر اسی وقت ایک ریاست قائم ہوگئی تھی‘ اور روز مرہ پیش آنے والے معاملات میں تعبیرو وقیاس اور اجتہادو استحسان کے ذریعہ سے اس قانون کاارتقاء اوّل روز ہی سے شروع ہوگیا تھا۔ پھر اسلامی اقتدار وسیع ہوکر بحرالکاہل سے بحراوقیانوس تک‘ آدھی سے زیادہ مہذب دنیا میں پھیل گیااور جتنی ریاستیں بھی بعد کے بارہ سو سال میں مسلمانوں نے قائم کیں‘ ان سب کا پورا نظم ونسق اسی قانون پر چلتا رہا۔ ہر دور اور ہر ملک کے حالات وضروریات کے مطابق اس قانون میں مسلسل توسیع ہوتی رہی ہے۔ انیسویں صدی کی ابتدا تک اس ارتقاء کا سلسلہ ایک دن کے لیے بھی نہیں رکا ہے۔ خود آپ کے اس ملک میں بھی انیسویں صدی کے اوائل تک اسلام ہی کا دیوانی اور فوج داری قانون جاری رہا ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ صرف سو سال کا وقفہ ایسا رہ جاتا ہے‘ جس کے متعلق آپ کہہ سکتے ہیں‘ کہ اس زمانہ میں اسلامی قانون پر عمل درآمد بند رہا اور اس کا ارتقاء رکا رہا۔ لیکن اوّل تو یہ وقفہ کچھ اتنا زیادہ بڑا نہیں ہے‘ کہ ہم تھوڑی سی محنت وکاوش سے اس کے نقصان کی تلافی نہ کر سکیں۔ دوسرے ہمارے پاس ہر صدی کی فقہی ترقیات کا پورا ریکارڈ موجود ہے‘ جسے دیکھ کر ہم معلوم کر سکتے ہیں‘ کہ ہمارے اسلاف پہلے کتنا کام کر چکے ہیں‘ اور آگے ہمیں کیا کام کرنا ہے۔ پھر جن بنیادوں پر اسلامی قانون کا ارتقا ہوتا ہے انہیں دیکھتے ہوئے کوئی صاحب علم آدمی اس امر میں شک نہیں کر سکتا جس طرح پچھلی بارہ صدیوں میں یہ قانون ہر دور اور ہر ملک کی ضروریات کے مطابق وسیع ہوتا رہا ہے اسی طرح موجودہ صدی میں بھی ہوسکتا ہے‘ اور آئندہ صدیوں میں بھی ہوتا رہے گا۔ ناواقف لوگ اس کو جانے بغیر ہزار قسم کے وسوسوں میں پڑ سکتے ہیں۔ مگر جو لوگ اس کو جانتے ہیں اس کے امکانات سے واقف ہیں‘ اور اس کی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں انہیں ایک لمحہ کے لیے بھی اس پر تنگ دامنی کا شبہ نہیں ہوسکتا۔
۲-الزام وحشت
دوسرا اعتراض جو پبلک میں تو دبی زبان سے مگر نجی صحبتوں میں بڑی کا فرانہ جسارتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے یہ ہے‘ کہ اسلامی قانون میں بہت سی چیزیں قرونِ وسطیٰ کی تاریک خیالی کے باقیات میں سے ہیں‘ جنہیں اس مہذب دور کے ترقی یافتہ اخلاقی تصوّرات کسی طرح برداشت نہیں کر سکتے۔ مثلاً ہاتھ کاٹنے اور دُرّے مارنے اور سنگ سار کرنے کی وحشیانہ سزائیں۔
یہ اعتراض سن کر بے اختیار ان حضرات سے یہ کہنے کو جی چاہتا ہے‘ کہ
اِتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
جس دور میں ایٹم بم استعمال کیا گیا ہے‘ اس کے اخلاقی تصوّرات کو ترقی یافتہ کہتے وقت آدمی کو کچھ تو شرم محسوس ہونی چاہئے۔ آج کا نام نہاد مہذب انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ جو سلوک کر رہا ہے اس کی مثال تو قدیم تاریخ کے کسی تاریک دور میں بھی نہیں ملتی۔ وہ سنگ سار نہیں بم بار کرتا ہے۔ محض ہاتھ ہی نہیں کاٹتا‘ جسم کے پر خچے اڑا دیتا ہے۔ درے برسانے سے اس کا دل نہیں بھرتا‘ زندہ آگ میں جلاتا ہے اور مردہ لاشوں کی چربی نکال کر ان کے صابن بناتا ہے۔ جنگ کے ہنگامہ غیظ وغضب ہی میں نہیں امن کے ٹھنڈے ماحول میں بھی جن کو سیاسی مجرم یا جاسوس‘ یا خفیہ سازش کا مرتکب‘ یاقومی مفاد کا دشمن‘ یامعاشی اغراض کا حریف سمجھتا ہے‘ ان کو درد ناک عذاب دینے میں وہ آخر کون سی کسر اُٹھا رکھتا ہے۔ ثبوت جرم سے پہلے محض شبہ ہی شبہ میں تفتیش کے جو طریقے اور اقبالِ جرم کرانے کے جو ہتھکنڈے آج کی مہذب حکومتوں میں اختیار کیے جا رہے ہیں وہ کس سے چھپے ہوئے ہیں۔ ان ساری باتوں کی موجودگی میںیہ دعویٰ تو کسی طرح صحیح نہیں ہے‘ کہ آج کے نام نہاد ترقی یافتہ تصوّرات انسان کو انسان کے ہاتھوں عذاب پاتے ہوئے دیکھنا سرے سے گواراہی نہیں کرتے۔ گوارا تو وہ کر رہے ہیں‘ اور پہلے سے زیادہ سخت عذابوں کو گوارا کر رہے ہیں۔ البتہ فرق جو کچھ واقع ہوا ہے وہ دراصل اخلاقی قدروں میں ہوا ہے۔ ان کے نزدیک جو جرائم واقعی سخت ہیں‘ ان پر تو وہ خوب عذاب دیتے ہیں‘ اور دل کھول کر دیتے ہیں مثلاً ان کے سیاسی اقتدار کو چیلنج کرنا‘ یا ان کے معاشی مفاد میں مزاحم ہونا۔ لیکن جن افعال کو وہ سرے سے جرم ہی نہیں سمجھتے‘ مثلاً شراب سے ایک گو نہ بے خود ہی حاصل کر لینا‘ یا تفریحاً زنا کر لینا‘ ان پر عذاب تو درکنار‘ سرزنش اور ملامت بھی انہیں ناگوار ہوتی ہے‘ اور جرم نہ سمجھنے کی صورت میں لامحالہ وہ ناگوار خاطر ہونی ہی چاہئے۔
اب میں ان معترضین سے پوچھتا ہوں کہ آپ کن اخلاقی قدروں کے قائل ہیں؟
اسلام کی اخلاقی قدریں؟ موجودہ تہذیب کی؟اگر آپ کی قدریں بدل چکی ہیں‘ اگر حلال وحرام اور خطاو صواب اور نیکی وبدی کے وہ معیار آپ چھوڑ چکے ہیں‘ جو اسلام نے مقرر کیے تھے‘ اور دوسرے معیار آپ نے دل سے قبول کرلیے ہیں‘ تو پھر اسلام کے دائرے میں آپ کی جگہ ہے‘ کہاں کہ آپ اس کے قوانین میں ترمیم کی گفتگو چھیڑیں۔ آپ کا مقام اندر نہیں باہر ہے۔ اپنی ملّت الگ بنائیے‘ کوئی اور نام اپنے لیے تجویز کیجیے اور صاف صاف کہیے کہ ہم اسلام کو بحیثیت دین کے ردّ کرتے ہیں۔ جس خدا کی مقرر کی ہوئی سزائوں کو آپ وحشیانہ سمجھتے ہیں‘ اس پر ایمان لانے کا آخر کس احمق نے آپ کو مشورہ دیا ہے‘ اور کون احمق یہ باور کر سکتا ہے‘ کہ اس کی بات کو وحشیانہ کہنے کے بعد بھی آپ اس کے مومن ہیں۔
۳- فقہی اختلافات کا بہانہ
تیسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے‘ کہ اسلام میں بہت سے فرقے ہیں‘ اور ہر فرقے کی فقہ جداہے اب اگر یہاں اسلامی قانون جاری کرنے کا فیصلہ کیا جائے‘ تو آخر وہ کس فرقے کی فقہ کے مطابق ہوگا۔
یہ وہ اعتراض ہے‘ جس پر اسلامی قانون کے مخالفین بڑی اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ توقع رکھتے ہیں‘ کہ آخر کار اس سوال پر مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر دہ اسلام کے ’’خطرے‘‘ کو ٹال سکیں گے خود مسلمانوں میں وہ لوگ جو حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں اس سوال پر اکثر پریشان ہوجاتے ہیں‘ کہ اس پیچیدگی کو آخر کیسے حل کیا جائے گا۔ حالانکہ درحقیقت یہ سرے سے کوئی پیچیدگی ہے ہی نہیں اور پچھلی بارہ صدیوں میں اس مسئلے نے کبھی اور کہیں اسلامی قانون کے نفاذ کو نہیں روکا ہے۔
سب سے پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ اسلامی قانون کا بنیادی ڈھانچہ جو خدا اور رسولa کے مقرر کیے ہوئے قطعی احکام اور اصول اور حدود پر مشتمل ہے مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں ابتداء سے آج تک یکساں مسلم رہا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہ پہلے تھا‘ نہ اب پایا جاتا ہے فقہی اختلافات جتنے بھی ہوئے ہیں‘ تعبیرات میں‘ قیاسی واجتہادی مسائل میں اور دائرہ اباحت کے قوانین وضوابط میں ہوئے ہیں۔
پھر ان اختلافات کی حقیقت بھی یہ ہے‘ کہ کسی حکم کی کوئی تعبیر جو کسی عالم نے کی ہو‘ یا کوئی مسئلہ جو قیاس واجتہاد سے کسی امام نے نکالا ہو‘ یا کوئی فتویٰ جو استحسان کی بنا پر کسی مجتھد نے دیا ہو‘ بجائے خود قانون نہیں بن جاتا۔ دراصل اس کی حیثیت محض ایک تجویز کی ہوتی ہے قانون وہ صرف اسی وقت بنتا ہے‘ جب کہ اس پر اجماع (اتفاق رائے) ہوجائے‘ یا جمہور (اکثریت) اس کو تسلیم کر لیں‘ اور فتویٰ اسی پر جاری ہوجائے۔ ہمارے فقہا جب اپنی کتابوں میں کسی مسئلے کو بیان کرنے کے بعد لکھا کرتے ہیں‘ کہ علیہ الاجماع یا علیہ الجمھور اور علیہ الفتویٰ‘ تو اس سے ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس مسئلے کے متعلق یہ رائے اب محض رائے‘ یا تجویز نہیں رہی ہے‘ بلکہ اتفاق رائے‘ یا جمہوری فیصلے کی بنا پر اب قانون بن چکی ہے۔
یہ اجتماعی اور جمہوری فیصلے بھی دو قسم کے ہیں۔ایک وہ جن پر تمام اُمت کا ہمیشہ اجماع رہا ہے‘ یا دنیائے اسلام کی اکثریت نے جن کو قبول کر لیا ہے۔ دوسرے وہ جن پر کسی وقت کسی ملک کے مسلمانوں کا اجماع ہوجائے‘ یا ان کی اکثریت انہیں قبول کر لے۔
پہلی قسم کے فیصلے اگر اجماعی ہوں‘ تو وہ نظرثانی کے قابل نہیں ہیں۔ انہیں تمام مسلمانوں کو بحیثیت ایک قانون کے قبول کرنا ہوگا ‘اور اگر وہ جمہوری فیصلے ہوں‘ تو ان کے متعلق یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم جس ملک میں اسلامی قانون جاری کر رہے ہیں اس کی اکثریت بھی انہیں تسلیم کرتی ہے‘ یا نہیں؟اگر اکثریت انہیں تسلیم کرتی ہو‘ تو وہ ملک کا قانون قرار پائیں گے۔
یہ حیثیت تو پچھلے فقہی احکام کی ہے۔ رہا آئندہ کا معاملہ تو آگے آنے والے معاملات میں حکمِ خدا اور رسول a کی جس تعبیر‘ یا جس قیاس واجتہاد اور جس استحسان پر ہمارے ملک کے اصحاب حل وعقد کا اجماع ہوجائے گا‘ یا ان کی اکثریت اس کو اختیار کرے گی‘ وہ ہمارے ملک کے لیے قانون ہوگا‘ پہلے بھی ہر مسلمان ملک کا قانون ایسے ہی فتاویٰ پر مشتمل ہوتا تھا‘ جو ملک کی تمام یا اکثر آبادی کے نزدیک مُسلَّم ہوتے تھے۔ اور آج بھی صرف یہی ایک صورت قابلِ عمل ہے‘ میں نہیں سمجھتاکہ جمہوریت کے اصول پر اس کے سوا اور کون سی صورت تجویز کی جا سکتی ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ مسلمانوں کے جو گروہ اکثریت کے ساتھ متفق نہ ہوں گے‘ ان کی پوزیشن کیا ہوگی؟ تو اس کا جواب یہ ہے‘ کہ ایسے قلیل التعداد گروہ پر سنل لاکی حد تک اپنی فقہ کو اپنے معاملات میں جاری کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں‘ اور یہ حق ان کو ضرور ملنا چاہئے۔ لیکن قانون ملکی (law of the land) بہرحال وہی ہوگا‘ اور وہی ہوسکتا ہے‘ جو اکثریت کے مسلک پر مبنی ہو۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ آج مسلمانوں کا کوئی فرقہ بھی یہ غیر معقول بات کہنے کے لیے تیار نہ ہوگا‘ کہ چونکہ اسلامی قانون میں ہم متفق نہیں ہیں اس لیے یہاں کفر کا قانون جاری ہونا چاہئے ‘اسلام میں اختلاف کر کے سب مسلمانوں کا کفر پر متفق ہوجانا ایک ایسی بیہودہ بات ہے‘ جو چند کفر پسند افراد کو چاہے کتنی ہی پسند ہوبہرحال کسی فرقے کا مسلمان بھی اسے اپنے دل میں جگہ دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتا۔
۴- غیر مسلم اقلیتوں کا مسئلہ
آخری اعتراض یہ کیا جاتا ہے‘ کہ اس ملک میں صرف مسلمان ہی نہیں رہتے‘ غیر مسلم بھی آباد ہیں‘ وہ کس طرح یہ گوارا کر لیں گے کہ مسلمانوں کا مذہبی قانون ان پر مسلّط ہوجائے؟
یہ اعتراض جو لوگ پیش کرتے ہیں وہ دراصل اس مسئلہ پر ایک سطحی نگاہ ڈالتے ہیں۔ انہوں نے پوری طرح سے اس کا تجزّیہ نہیں کیا ہے‘ اسی لیے ان کو اس میں بڑی پیچیدگی نظر آتی ہے۔ حالانکہ تھوڑی سی تحلیل کرنے کے بعد اِس کی ساری اُلجھنیں خود ہی سلجھتی چلی جاتی ہیں۔
ظاہر بات ہے‘ کہ ہم جس قانون پر بحث کر رہے ہیں وہ قانون ملکی ہے نہ کہ قانون شخصی‘ جہاں تک شخصی معاملات کا تعلق ہے ان کے بارے میں تو یہ مسلّم ہے‘ کہ ہر گروہ پر اس کا اپنا قانون ہی جاری ہوگا۔ یہ حق دنیا میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فیاضی کے ساتھ اسلام نے اہل الذمّہ کو دیا تھا‘ بلکہ درحقیقت وہ اسلام ہی ہے‘ جس سے موجودہ دور کے اہلِ قانون نے ملکی قانون اور شخصی قانون کا فرق سیکھا ہے‘ اور یہ اصول معلوم کیا ہے‘ کہ جس ریاست کی آبادی مختلف المذہب لوگوں پر مشتمل ہواس میں سب گروہوں کے شخصی معاملات ان کے شخصی قوانین ہی کے تحت ہونے چاہئیں۔ لہٰذا کسی غیر مسلم اقلیت کو ہم سے یہ اندیشہ تو ہونا ہی نہ چاہئے کہ ہم ان کے شخصی معاملات پر اپنے مذہبی قوانین کو مسلّط کر کے اس قاعدے کی خلاف ورزی کریں گے‘ جو دراصل ہمارا اپنا ہی قائم کیا ہوا قاعدہ ہے‘ اور جس کے متعلق اسلام نے ہم کو قطعی واضح احکام دے رکھے ہیں۔
اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے‘ کہ اس ملک میں قانون ملکی کون سا ہو؟ انصاف کی رُو سے اس سوال کا جواب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے‘ کہ قانون ملکی وہی ہونا چاہئے‘ جو اکثریت کے نزدیک صحیح ہو۔ اقلیت ہم سے اپنا جائز حق ضرور مانگ سکتی ہے‘ اور وہ ہم اس کے مانگنے سے پہلے ہی تسلیم کر رہے ہیں۔ لیکن وہ ہم سے یہ مطالبہ کس طرح کر سکتی ہے‘ کہ اس کو راضی کرنے کے لیے ہم خود اپنے عقیدے کی نفی کریں‘ اور کسی ایسے قانون کو اپنے ہاتھوں جاری کرنے لگیں جس کو ہم حق نہیں سمجھتے؟ جب تک ہم اپنے ملک میں خود مختار نہ تھے ہمیں مجبوراً ایک باطل قانون کو گوارا کرنا پڑا۔ اس کی ذمّہ داری سے ہم بری ہوسکتے ہیں‘ لیکن اب جب کہ اختیارات ہمارے اپنے ہاتھ میں ہیں‘ اگر ہم جان بوجھ کر اسلامی قانون کی جگہ کوئی دوسرا قانون جاری کریں‘ تو اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ ہم قومی حیثیت سے بالا رادہ مرتد ہورہے ہیں۔ کیافی الواقع کسی اقلیت کا ہم پر یہ حق ہے‘ کہ اس کی خاطر ہم اپنا دین بدلنا گوارا کر لیں؟کیاکوئی اقلیت کسی بااختیار اکثریت سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے‘ کہ وہ اپنی رائے میں جس چیز کو صحیح سمجھتی ہواسے چھوڑ دے اور وہ چیز کرے جسے اقلیت صحیح سمجھتی ہو؟ یا پھر کیا یہ کوئی معقول اصول ہے‘ کہ جس ملک میں مختلف المذہب لوگ آباد ہوں‘ اس میں سب کو لامذہب ہی ہوکر رہنا چاہئے؟ اگر اِن سوالات کا جواب اثبات میں نہیں ہے‘ تو میں نہیں سمجھتاکہ آخر ایک مسلمان اکثریت کے ملک میں اسلامی قانون کیوں ملکی قانون قرار نہ پائے۔ (ترجمان القرآن۔ جولائی ۴۸ء)
خ خ خ