Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
(قومیّت ِاسلام (قوم کا مفہوم
قومیّت کے غیرمنفک لوازم
قومیت کے عناصر ترکیبی
شر اور فساد کا سرچشمہ
عصبیّت جاہلیہ
قومیت کے عناصر پر ایک عقلی تنقید
نسلیّت
وطنیت
لسانی امتیازات
امتیازِ رنگ
معاشی قومیّت
سیاسی قومیّت
انسانیت و آفاقیت
اسلام کا وسیع نظریہ
عصبیّت اور اسلام کی دشمنی
عصبیّت کے خلاف اسلام کا جہاد
اسلامی قومیّت کی بنیاد
اسلام کا طریق جمع و تفریق
اسلامی قومیت کی تعمیر کس طرح ہوئی؟
مہاجرین کا اسوہ
انصار کا طرزِعمل
رشتہ دین پر مادی علائق کی قربانی
جامعہ اسلامیہ کی اصلی رُوح
رسولؐ اللہ کی آخری وصیت
اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ
مغرب کی اندھی تقلید
کلمۂ جامعہ
متَّحدہ قومیّت اور اسلام
غیرعلمی زاویۂ نظر
اثباتِ مُدعا کے لیے حقائق سے چشم پوشی
قومیں اوطان سے کہاں بنتی ہیں؟
لُغت اور قرآن سے غلط استدلال
ایک اور لفظی مغالطہ
بناء فاسد علی الفاسد
افسوس ناک بے خبری
وطنی قومیّت کا حقیقی مُدعا
اِشتِراکِ لفظی کا فتنہ
کیا ہندوستان کی نجات نیشنلزم میں ہے؟
نیشنلزم بربنائے مصلحت
نیشنلزم اور اسلام
یورپین نیشنلزم کی حقیقت
مغربی نیشنلزم اور خدائی تعلیم کا بنیادی اختلاف
مغربی نیشنلزم کا انجام
دنیا نیشنلزم کی لعنت میں کیوں مبتلا ہے؟
نیشنلزم ہندوستان میں
نیشنلزم کے لوازم
کیا ہندوستان کی نجات نیشنلزم میں ہے؟
ہندوستانی نیشنلزم کس طرح پیدا ہوسکتا ہے؟
کیا ہندوستان کا کوئی بہی خواہ یہاں نیشنلزم کا خواہش مند ہوسکتا ہے؟
فرنگی لباس
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک

مسئلہ قومیت

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم

زمانہ حال میں مسلمانوں کی جماعت کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ کا استعمال کثرت کے ساتھ کیا گیا ہے اور عموماً یہی اصطلاح ہماری اجتماعی حیثیت کو ظاہر کرنے کے لیے رائج ہوچکی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور بعض حلقوں کی طرف سےاس کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کے لیے لفظ ’’قوم‘‘ (یا نیشن کے معنی میں کسی دوسرے لفظ کو) اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ میں مختصر طور پر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان الفاظ میں اصلی قباحت کیا ہے جس کی وجہ سے اسلام میں ان سے پرہیز کیا گیا اور وہ دوسرے الفاظ کون سے ہیں جن کو قرآن و حدیث میں استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ محض ایک علمی بحث نہیں ہے، بلکہ اس سے ہمارے ان بہت سے تصورات کی غلطی واضح ہوجاتی ہے جن کی بدولت زندگی میں ہمارا رویہ بنیادی طور پر غلط ہوکر رہ گیا ہے۔
لفظ ’’قوم‘‘ اور اس کا ہم معنی انگریزی لفظ (Nation) یہ دونوں دراصل جاہلیت کی اصطلاحیں ہیں۔ اہلِ جاہلیت نے ’’قومیت‘‘ (Nationality) کو کبھی خالص تہذیبی بنیاد (Cultural basis) پر قائم نہیں کیا، نہ قدیم جاہلیت کے دور میں اورنہ جدید جاہلیت کے دور میں ان کے دل و دماغ کے ریشوں میں نسلی اور روایتی علائق کی محبت کچھ اس طرح پلا دی گئی ہے کہ وہ نسلی روابط اور تاریخی روایات کی وابستگی سے قومیت کے تصور کو کبھی پاک نہ کرسکے۔ جس طرح قدیم عرب میںقوم کا لفظ عموماً ایک نسل یا ایک قبیلہ کے لوگوں پر بولا جاتا تھا۔ اسی طرح آج بھی لفظ ’نیشن‘ کے مفہوم میں مشترک جنسیت (Common Deseent) کا تصور لازمی طور پر شامل ہے اور یہ چیز چونکہ بنیادی طور پر اسلامی تصورِ اجتماع کے خلاف ہے۔ اس وجہ سے قرآن میں لفظ قوم اور اس کے ہم معنی دوسرے عربی الفاظ مثلاً شعب وغیرہ کو مسلمانوں کی جماعت کے لیے اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی اصطلاح اس جماعت کے لیے کیونکر استعمال کی جاسکتی تھی جس کے اجتماع کی اساس میں خون اور خاک اور رنگ اور اس نوع کی دوسری چیزوں کا قطعًاکوئی دخل نہ تھا جس کی تالیف و ترکیب محض اصول اور مسلک کی بنیاد پر کی گئی تھی اور جس کا آغاز ہی ہجرت اور قطع نسب اور ترک علائق مادی سے ہوا تھا۔
قرآن نے جو لفظ مسلمانوں کی جماعت کے لیے استعمال کیا ہے وہ ’’حزب‘‘ ہے جس کے معنی پارٹی کے ہیں۔ قومیں نسل و نسب کی بنیاد پر اُٹھتی ہیں اور پارٹیاں اصول و مسلک کی بنیاد پر اس لحاظ سے مسلمان حقیقت میں قوم نہیں بلکہ ایک پارٹی ہیں کیونکہ ان کو تمام دُنیا سے الگ اور ایک دوسرے سے وابستہ صرف اس بنا پر کیا گیا ہے کہ یہ ایک اصول اور مسلک کے معتقد اور پیرو ہیں اور جن سے ان کا اصول و مسلک میں اِشتِراک نہیں وہ خواہ ان سے قریب ترین مادی رشتے ہی کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ ان کا کوئی میل نہیں ہے۔ قرآن روئے زمین کی اس پوری آبادی میں صرف دو ہی پارٹیاں دیکھتا ہے: ایک اللہ کی پارٹی حزب اللہ، دوسرے شیطان کی پارٹی حزب الشیطان۔ شیطان کی پارٹی میں خواہ باہم اصول و مسلک کے اعتبار سے کتنے ہی اختلاف ہوں۔ قرآن ان سب کو ایک سمجھتا ہے کیونکہ ان کا طریق فکر اور طریق عمل بہرحال اسلام نہیں ہے اور جزئی اختلاف کے باوجود بہرحال وہ سب شیطان کے اتباع پر متفق ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
اِسْتَحْوَذَ عَلَيْہِمُ الشَّيْطٰنُ فَاَنْسٰـىہُمْ ذِكْرَ اللہِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطٰنِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۱۹ (المجادلہ:۱۹)
’’شیطان ان پر غالب آگیا اور اس نے خدا سے انھیں غافل کر دیا ۔وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ اور جان رکھو کہ شیطان کی پارٹی آخرکار نا مراد ہی رہنے والی ہے‘‘۔
برعکس اس کے اللہ کی پارٹی والے خواہ نسل اور وطن اور زبان اور تاریخی روایات کے اعتبار سے باہم کتنے ہی مختلف ہوں، بلکہ چاہے ان کے آبائواجداد میں باہم خونیں عداوتیں ہی کیوں نہ رہ چکی ہوں ،جب وہ خدا کے بتائے ہوئے طریقِ فکر اور مسلک ِحیات میں متفق ہوگئے تو گویا الٰہی رشتے حبل اللہ سے باہم جڑ گئے اور اس نئی پارٹی میں داخل ہوتے ہی ان کے تمام تعلقات حزب الشیطان والوں سے کٹ گئے۔
پارٹی کا یہ اختلاف باپ اور بیٹے تک کا تعلق توڑ دیتا ہے، حتیٰ کہ بیٹا باپ کی وراثت تک نہیں پاسکتا۔ حدیث کے الفاظ ہیں: لَا یَتَوَارَثُ اَھْلُ مِلَّتَیْنِ۔ دو مختلف ملتوں کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوسکتےہیں۔
پارٹی کا یہ اختلاف بیوی کو شوہر سے جدا کر دیتا ہے، حتیٰ کہ اختلاف رُونما ہوتے ہی دونوں پر ایک دوسرے کی مواصلت حرام ہوجاتی ہے۔ محض اس لیے کہ دونوں کی زندگی کے راستے جدا ہوچکے۔ قرآن میں ہے:
لَا ہُنَّ حِلٌّ لَّہُمْ وَلَا ہُمْ يَحِلُّوْنَ لَہُنَّ (الممتحنہ:۱۰)
’’نہ وہ اِن کے لیے حلال نہ یہ اُن کے لیے حلال‘‘۔
پارٹی کا یہ اختلاف ایک برادری، ایک خاندان کے آدمیوں میں پورا معاشرتی مقاطعہ کرا دیتا ہے، حتیٰ کہ حزب اللہ والے کے لیے خود اپنی نسلی برادری کے ان لوگوں میں شادی بیاہ کرنا حرام ہوجاتا ہے جو حزب الشیطان سے تعلق رکھتے ہوں۔
قرآن کہتا ہے: ’’مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔ مومن لونڈی مشرک بیگم سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں کتنی ہی پسند ہو اور اپنی عورتوں کے نکاح بھی مشرک مردوں سے نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں۔ مومن غلام مشرک آزاد شخص سے بہتر ہے چاہے وہ تمھیں کتنا ہی پسند ہو‘‘۔
پارٹی کا یہ اختلاف نسلی و وطنی قومیت کا تعلق صرف کاٹ ہی نہیں دیتا بلکہ دونوں میں ایک مستقل نزاع قائم کردیتا ہے، جو دائماً قائم رہتی ہے تاوقتیکہ وہ اللہ کی پارٹی کے اصول تسلیم نہ کرلیں۔ قرآن کہتا ہے:
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ فِيْٓ اِبْرٰہِيْمَ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ۝۰ۚ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰۗؤُا مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۡكَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاۗءُ اَبَدًا حَتّٰى تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہٗٓ اِلَّا قَوْلَ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ (الممتحنہ:۴)
’’تمھارے لیے بہترین نمونہ ابراہیم ؑ اور اس کے ساتھیوں میں ہے۔ ان لوگوں نے اپنی نسلی قوم والوں سے صاف کَہ دیا تھا کہ ہمارا تم سے اور تمھارے ان معبودوں سے جن کی تم خدا کو چھوڑ کر بندگی کرتے ہو کوئی واسطہ نہیں۔ ہم تم سے بے تعلق ہوچکے اور ہمارے تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت پڑ گئی تاوقتیکہ تم خدائے واحد پر ایمان نہ لائو مگر تمھارے لیے ابراہیم کے اس قول میں نمونہ نہیں ہے کہ اس نے اپنے کافر باپ سے کہا کہ میں تیرے لیے بخشش کی دُعا کروں گا۔
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِيْمَ لِاَبِيْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاہُ۝۰ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ (التوبہ:۱۱۴)
’’ابراہیم ؑ کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دُعا کرنا محض اس وعدے کی بنا پر تھا جو وہ اس سے کرچکا تھا مگر جب اس پر کھل گیا کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے دستبردار ہوگیا‘‘۔
پارٹی کا یہ اختلاف ایک خاندان والوں اور قریب ترین رشتہ داروں کے درمیان بھی محبت کا تعلق حرام کردیتا ہے حتیٰ کہ اگر باپ اور بھائی اور بیٹے بھی حزب الشطیان میں شامل ہوں تو حزب اللہ والا اپنی پارٹی سے غداری کرے گا۔ اگر ان سے محبت رکھے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۝۰ۭ وَيُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا۝۰ۭ رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللہِ۝۰ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۲۲ۧ (المجادلہ: ۲۲)
’’تم ایسا ہرگز نہ پائو گے کہ کوئی جماعت اللہ اور یومِ آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور رسولؐ کے دشمنوں سے دوستی بھی رکھے خواہ وہ ان کے باپ ،بیٹے، بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں… یہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں اور جان رکھو کہ آخرکار اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔
دوسرا لفظ جو پارٹی ہی کے معنی میں قرآن نے مسلمانوں کے لیے استعمال کیا ہے وہ لفظ ’’اُمت‘‘ ہے۔ حدیث میں بھی یہ لفظ کثرت سے مستعمل ہوا ہے۔ اُمت اس جماعت کو کہتے ہیں جس کو کسی امرجامع نے مجتمع کیا ہو۔ جن افراد کے درمیان کوئی اصل مشترک ہو ان کو اسی اصل کے لحاظ سے ’’اُمت‘‘ کہا جاتا ہے، مثلاً ایک زمانے کے لوگ بھی ’’اُمت‘‘ کہے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو جس اصل مشترک کی بنا پر اُمت کہا گیا ہے وہ نسل یا وطن یا معاشی اَغراض نہیں ہیں بلکہ وہ ان کی زندگی کا مشن اور ان کی پارٹی کا اصول اور مسلک ہے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ (آل عمران:۱۱۰)
’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے نوعِ انسانی کے لیے نکالا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا (البقرہ:۱۴۳)
’’اور اس طرح ہم نے تم کو ایک بیچ کی اُمت بنایا ہے تاکہ تم نوعِ انسانی پر نگران ہو اور رسولؐ تم پر نگران ہو‘‘۔
ان آیات پر غور کیجیے: ’’بیچ کی اُمت‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ’’مسلمان‘‘ ایک بین الاقوامی جماعت (International Party) کا نام ہے۔ دُنیا کی ساری قوموں میں سے ان اشخاص کو چھانٹ کر نکالا گیا ہے جو ایک خاص اصول کو ماننے ، ایک خاص پروگرام کو عمل میں لانے اور ایک خاص مشن کو انجام دینے کے لیے تیار ہوں۔ یہ لوگ چونکہ ہرقوم میں سے نکلے ہیں اور ایک پارٹی بن جانے کے بعد کسی قوم سے ان کا تعلق نہیں رہا ہے، اس لیے یہ بیچ کی اُمت ہیں۔ لیکن ہرہرقوم سے تعلق توڑنے کے بعد سب قوموں سے ان کا ایک دوسرا تعلق قائم کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ دنیا میں خدائی فوج دار کے فرائض انجام دیں۔ ’’تم نوعِ انسانی پر نگراں ہو‘‘ کے الفاظ بتارہے ہیں کہ مسلمان خدا کی طرف سے دُنیا میں فوج دار مقرر کیا گیا ہے۔ ’’اور نوعِ انسانی کے لیے نکالا گیا ہے‘‘ کا فقرہ صاف کَہ رہا ہے کہ مسلمان کا مشن ایک عالم گیر مشن ہے۔ اس مشن کا خاصہ یہ ہے کہ ’’حزب اللہ ‘‘ کے لیڈر سیّدنا محمدؐ کو فکر و عمل کا جو ضابطہ خدا نے دیا تھا اس کو تمام ذہنی، اَخلاقی اور مادی طاقتوں سے کام لے کر دنیا میں نافذ کیا جائے اور اس کے مقابلہ میں ہر دوسرے طریقہ کو مغلوب کر دیا جائے۔ یہ ہے وہ چیز جس کی بنیاد پر مسلمان ایک اُمت بنائے گئے ہیں۔
تیسرا اصطلاحی لفظ جو مسلمانوں کی اجتماعی حیثیت ظاہر کرنے کے لیے نبیﷺ نے بکثرت استعمال کیا ہے۔ وہ لفظ ’’جماعت‘‘ ہے اور یہ لفظ بھی ’’حزب‘‘ کی طرح بالکل پارٹی کا ہم معنی ہے۔ عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ اور یَدُ اللہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ اور ایسی ہی بکثرت احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نےﷺ لفظ ’’قوم‘‘ یا ’’شعب‘‘ یا اس کے ہم معنی دوسرے الفاظ استعمال کرنے سے قصداً احتراز فرمایا کہ ’’ہمیشہ قوم کے ساتھ رہو‘‘ یا ’’قوم پر خدا کا ہاتھ ہے‘‘ بلکہ ایسے تمام مواقع پر آپؐ جماعت ہی کا لفظ استعمال فرماتے تھے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے اور یہی ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کے اجتماع کی نوعیت ظاہر کرنے کے لیے ’’قوم‘‘ کے بجائے جماعت، حزب اور پارٹی کے الفاظ ہی زیادہ مناسب ہیں۔ قوم کا لفظ جن معنوں میں عموماً مستعمل ہوتا ہے، ان کے لحاظ سے ایک شخص خواہ وہ کسی مسلک اور کسی اصول کا پیرو ہو ایک قوم میں شامل رہ سکتا ہے جب کہ وہ اس قوم میں پیدا ہوا ہو اور اپنے نام، طرزِ زندگی اور معاشرتی تعلقات کے اعتبار سے اس قوم کے ساتھ منسلک ہو لیکن پارٹی، جماعت اور حزب کے الفاظ جن معنوں میں مستعمل ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے اصول اور مسلک ہی پر پارٹی میں شامل ہونے یا اس سے خارج ہونے کا مدار ہوتا ہے۔ آپ ایک پارٹی کے اصول و مسلک سے ہٹ جانے کے بعد ہرگز اس میں شامل نہیں رہ سکتے، نہ اس کا نام استعمال کرسکتے ہیں، نہ اس کے نمایندے بن سکتے ہیں، نہ اس کے مفاد کے محافظ بن کر نمودار ہوسکتے ہیں اور نہ پارٹی والوں سے آپ کا کسی طور پر تعاون ہوسکتا ہے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ میں پارٹی کے اصول و مسلک سے تو متفق نہیں ہوں۔ لیکن میرے والدین اس پارٹی کے ممبر رہ چکے ہیں اور میرا نام اس کے ممبروں سے ملتا جلتا ہے۔ اس لیے مجھ کو بھی ممبروں کے سے حقوق ملنے چاہییں۔ تو آپ کا یہ استدلال اتنا مضحکہ انگیز ہوگا کہ شاید سننے والوں کو آپ کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگے گا لیکن پارٹی کے تصور کو قوم کے تصور سے بدل ڈالیے، اس کے بعد یہ سب حرکات کرنے کی گنجائش نکل آتی ہے۔
اسلام نے اپنی بین الاقوامی پارٹی کے ارکان میں یک جہتی اور ان کی معاشرتی زندگی میں یکسانی پیدا کرنے کے لیے اور ان کو ایک سوسائٹی بنادینے کے لیے حکم دیا تھا کہ آپس ہی میں بیاہ شادی کرو۔ اس کے ساتھ ہی ان کی اولاد کے لیے تعلیم و تربیت کا ایسا انتظام تجویز کیا گیا تھا کہ وہ خود بخود پارٹی کے اصول و مسلک کے پیرو بن کر اُٹھیں اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ افزائش نسل سے بھی پارٹی کی قوت بڑھتی رہے۔ یہیں سے اس پارٹی کے قوم بننے کی ابتدا ہوتی ہے۔ بعد میں مشترک معاشرت، نسلی تعلقات اور تاریخی روایات نے اس قومیت کو زیادہ مستحکم کر دیا۔
اس حد تک جو کچھ ہوا، درست ہوا، لیکن رفتہ رفتہ مسلمان اس حقیقت کو بھولتے چلے گئے کہ وہ دراصل ایک پارٹی ہیں اور پارٹی ہونے کی حیثیت ہی پر ان کی قومیت کی اساس رکھی گئی ہے، یہ بھلاوا بڑھتے بڑھتے اب یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پارٹی کا تصور قومیت کے تصور میں بالکل ہی گم ہوگیا۔ مسلمان اب صرف ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ اسی طرح کی قوم جیسی کہ جرمن ایک قوم ہے یا جاپانی ایک قوم ہے یا انگریز ایک قوم ہے۔ وہ بھول گئے ہیں کہ اصل چیز وہ اصول اور مسلک ہے جس پر اسلام نے ان کو ایک اُمت بنایا تھا۔ وہ مشن ہے جس کو پورا کرنے کے لیے اس نے اپنے پیروئوں کو ایک پارٹی کی صورت میں منظم کیا تھا۔ اس حقیقت کو فراموش کرکے انھوں نے غیرمسلم قوموں سے ’’قومیت‘‘ کا جاہلی تصور لے لیا ہے۔ یہ ایسی بنیادی غلطی ہے اور اس کے قبیح اثرات اتنے پھیل گئے ہیں کہ احیائے اسلام کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھ سکتا۔ جب تک کہ اس غلطی کو دُور نہ کر دیا جائے۔
ایک پارٹی کے ارکان میں باہمی محبت ، رفاقت اور معاونت جو کچھ بھی ہوتی ہے شخصی یا خاندانی حیثیت سے نہیں ہوتی بلکہ صرف اس بنا پر ہوتی ہے کہ وہ سب ایک اصول کے معتقد اور ایک مسلک کے پیرو ہوتے ہیں۔ پارٹی کا ایک رکن اگر جماعتی اصول اور مسلک سے ہٹ کر کوئی کام کرے تو صرف یہی نہیں کہ اس کی مدد کرنا پارٹی والوں کا فرض نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس پارٹی والوں کا فرض یہ ہوتا ہے کہ اس کو ایسے غدارانہ اور باغیانہ طرزِ عمل سے روکیں، نہ مانے تو اس کے خلاف جماعتی ضوابط کے تحت سخت کارروائی کریں، پھر بھی نہ مانے تو جماعت سے نکال باہر کریں۔ ایسی مثالیں بھی دُنیا میں ناپید نہیں ہیں کہ جوشخص پارٹی کے مسلک سے شدید انحراف کرتا ہے اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔{ اسلام میں قتل مرتد کی یہی بنا ہے۔ روسی اشتراکی بھی اشتراکیت سے مرتد ہونے کی یہی سزا دیتے ہیں۔
} لیکن ذرا مسلمانوں کا حال دیکھیے کہ اپنے آپ کو پارٹی کے بجائے قوم سمجھنے کی وجہ سے کیسی شدید غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔ ان میں سے جب کوئی شخص اپنے فائدے کے لیے غیر اسلامی اصولوں پر کوئی کام کرتا ہے تو دوسرے مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے کہ اس کی مدد کریں گے۔ اگر مدد نہیں کی جاتی تو شکایت کرتا ہے کہ دیکھو مسلمان مسلمان کے کام نہیں آتے۔ سفارش کرنے والے ان کی سفارش ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ایک مسلمان بھائی کا بھلا ہوتا ہے ، اس کی مدد کرو، مدد کرنے والے بھی اگر اس کی مدد کرتے ہیں تو اپنے اس فعل کو اسلامی ہمدردی سے موسوم کرتے ہیں۔ اس سارے معاملہ میں ہر ایک کی زبان پر اسلامی ہمدردی، اسلامی برادری، اسلام کے رشتہ دین کا نام بار بار آتا ہے۔ حالانکہ درحقیقت اسلام کے خلاف عمل کرنے میں خود اسلام ہی کا حوالہ دینا اور اس کے نام سے ہمدردی چاہنا یا ہمدردی کرنا صریح لغو بات ہے، جس اسلام کا یہ لوگ نام لیتے ہیں اگر حقیقت میں وہ ان کے اندر زندہ ہو تو جونہی ان کے علم میں یہ بات آئے کہ اسلامی جماعت کا کوئی شخص کوئی کام اسلامی نظریہ کے خلاف کر رہا ہے، یہ اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوجائیں اور اس سے توبہ کراکے چھوڑ یں۔ کسی کا مدد چاہنا تو درکنار ایک زندہ اسلامی سوسائٹی میں تو کوئی شخص اصولِ اسلام کی خلا ف ورزی کا نام تک نہیں لے سکتا۔ لیکن آپ کی اس سوسائٹی میں رات دن یہی معاملہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ آپ کے اندر جاہلی قومیت آگئی ہے جس چیز کو آپ اسلامی اخوت کَہ رہے ہیں یہ دراصل جاہلی قومیت کا رشتہ ہے جو آپ نے غیرمسلموں سے لے لیا ہے۔
اسی جاہلیت کا ایک کرشمہ یہ ہے کہ آپ کے اندر ’’قومی مفاد‘‘ کا ایک عجیب تصور پیدا ہوگیا ہے اور آپ کو اس بے تکلف ’’اسلامی مفاد‘‘ بھی کَہ دیا کرتے ہیں۔ یہ نام نہاد اسلامی مفاد یا قومی مفاد کیا چیز ہے؟یہ کہ جو لوگ ’’مسلمان‘‘کہلاتے ہیں ۔ ان کا بھلا ہو ان کے پاس دولت آئے، ان کی عزت بڑھے، ان کو اقتدار نصیب ہو اور کسی نہ کسی طرح ان کی دُنیا بن جائے بلااس لحاظ کے کہ یہ سب حاصل ہوں یا خلاف ورزی کرتے ہوئے پیدائشی مسلمان یا خاندانی مسلمان کو آپ ’’مسلمان‘‘کہتے ہیں۔ چاہے اس کے خیالات اور اس کے طرزِعمل میں اسلام کی صفت کہیں ڈھونڈے نہ ملتی ہو۔ گویا آپ کے نزدیک مسلمان روح کا نہیں بلکہ جسم کا نام ہے اور صفت ِ اسلام سے قطع نظر کرکے بھی ایک شخص کو مسلمان کہا جاسکتا ہے۔ اس غلط تصور کے ساتھ جن جسموں کا اسمِ ذات آپ نے مسلمان رکھ چھوڑا ہے۔ ان کی حکومت کو آپ اسلامی حکومت، ان کی ترقی کو آپ اسلامی ترقی ، ان کے فائدے کو آپ اسلامی مفاد قرار دیتے ہیں، خواہ یہ حکومت اور یہ ترقی اور یہ مفاد سراسر اصولِ اسلام کے منافی ہی کیوں نہ ہو۔ جس طرح جرمنیت کسی اصول کا نام نہیں محض ایک قومیت کا نام ہے ، اور جس طرح ایک جرمن قوم پرست صرف جرمنوں کی سربلندی چاہتا ہے، خواہ کسی طریقے سے ہو، اسی طرح آپ نے بھی ’’مسلمانیت‘‘ کو محض ایک قومیت بنا لیا ہے اور آپ کے مسلمان قوم پرست محض اپنی قوم کی سربلندی چاہتے ہیں، خواہ یہ سربلندی اصولاً اور عملاً اسلام کے بالکل برعکس طریقوں کی پیروی کا نتیجہ ہو۔ کیا یہ جاہلیت نہیں ہے؟ کیا درحقیقت آپ اس بات کو بھول نہیں گئے ہیں کہ مسلمان صرف اس بین الاقوامی پارٹی کا نام تھا جو دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایک خاص نظریہ اور ایک عملی پروگرام لے کر اُٹھی تھی؟ اس نظریہ اور پروگرام کو الگ کرنے کے بعد محض اپنی شخصی یا اجتماعی حیثیت سے جو لوگ کسی دوسرے نظریہ اور پروگرام پر کام کرتے ہیں ان کے ان کاموں کو آپ ’’اسلامی‘‘ کیسے کَہ سکتے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ جو شخص سرمایہ داری کے اصول پر کام کرتا ہو اسے اِشتِراکی کے نام سے یاد کیا جائے؟ کیا سرمایہ دارانہ حکومت کو کبھی آپ اِشتِراکی ادارہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں؟ اگر کوئی شخص اس طرح اصطلاحوں کو بے جا استعمال کرے تو آپ شاید اسے جاہل اور بیو قوف کہنے میں ذرا تامل نہیں کریں گے مگر یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام اور مسلمان کی اصطلاح کو بالکل بے جا استعمال کیا جارہا ہے اور اس میں کسی کو جاہلیت کی بُو تک محسوس نہیں ہوتی۔
مسلمان کا لفظ خود ظاہر کر رہا ہے کہ یہ ’’اسمِ ذات‘‘ نہیں بلکہ ’’اسمِ صفت‘‘ ہی ہوسکتا ہے اور ’’پیرو ِاسلام‘‘ کے سوا اس کا کوئی دوسرا مفہوم سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ انسان کی اس خاص ذہنی، اَخلاقی اور عملی صفت کو ظاہر کرتا ہے جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ لہٰذا آپ اس لفظ کو شخص مسلمان کے لیے اس طرح استعمال نہیں کرسکتے جس طرح آپ ہندو یا جاپانی یا چینی کے الفاظ شخصِ ہندو یا شخصِ جاپانی یا شخصِ چینی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا سا نام رکھنے والا جوں ہی اصولِ اسلام سے ہٹا اس سے مسلمان ہونے کی حیثیت خود بخود سلب ہوجاتی ہے۔ اب وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی شخصی حیثیت میں کرتا ہے۔ اسلام کا نام استعمال کرنے کا اسے کوئی حق نہیں ہے۔ اسی طرح مسلمان کا مفاد، مسلمان کی ترقی،مسلمان کی حکومت و ریاست، مسلمان کی تنظیم اور ایسے ہی دوسرے الفاظ آپ صرف ان مواقع پر بول سکتے ہیں جب کہ یہ چیزیں اسلامی نظریہ اور اصول کے مطابق ہوں اور اس مشن کو پورا کرنے سے متعلق ہوں جو اسلام لے کر آیا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہو تو ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی لفظ ِمسلمان کا استعمال درست نہیں۔ آپ ان کو جس دوسرے نام سے چاہیں موسوم کریں۔ بہرحال مسلمان کے نام سے موسوم نہیں کرسکتے کیونکہ صفت اسلام سے قطع نظر کرکے مسلمان سرے سے کوئی شے ہی نہیں ہے۔ آپ کبھی اس بات کا تصور نہیں کرسکتے کہ اِشتِراکیت سے قطع نظر کرکے کسی شخص یا قوم کا نام اِشتِراکی ہے اور اس معنی میں کسی مفاد کو اِشتِراکی مفاد یا کسی حکومت یا کسی تنظیم کو اِشتِراکیوں کی حکومت یا تنظیم یا کسی ترقی کو اِشتِراکیوں کی ترقی کہا جاسکتا ہے۔ پھر آخر مسلمان کے معاملہ میں آپ نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہےکہ اسلام سے قطع نظر کرکے مسلمان کسی شخص یا قوم کا ذاتی نام ہے اور اس کی ہرچیزکو اسلامی کَہ دیا جاسکتا ہے۔
اس غلط فہمی نے بنیادی طور پر اپنی تہذیب،ا پنے تمدُّن اور اپنی تاریخ کے متعلق آپ کے رویہ کو غلط کر دیا ہے جو بادشاہتیں اور حکومتیں غیراسلامی اصولوں پر قائم تھیں۔ آپ ان کو ’’اسلامی حکومتیں‘‘ کہتے ہیں۔ محض اس لیے کہ ان کے تخت نشین مسلمان تھے۔ جو تمدُّن، قرطبہ و بغداد اور دہلی و قاہرہ کے عیش پرست درباروں میں پرورش پایا تھا، آپ اسے ’’اسلامی تمدُّن‘‘ کہتے ہیں حالانکہ اسلام سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ آپ سے جب اسلامی تہذیب کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو آپ جھٹ سے آگرے کے تاج محل کی طرف اشارہ کردیتے ہیں ۔ گویا یہ ہے اس تہذیب کا سب سے زیادہ نمایاں نمونہ حالانکہ اسلامی تہذیب سرے سے یہ ہے ہی نہیں کہ ایک میت کو سپردِ خاک کرنے کے لیے ایکڑوں زمین مستقل طور پر گھیر لی جائے اور اس پر لاکھوں روپے کی عمارت تیار کی جائے۔ آپ جب اسلامی تاریخ کے مفاخر بیان کرتے ہیں حالانکہ حقیقی اسلامی تاریخ کے نقطۂ نظر سے ان کارناموں کا بڑا حصہ آبِ زر سے نہیں بلکہ سیاہ روشنائی سے جرائم کی فہرست میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ آپ نے مسلمان بادشاہوں کی تاریخ کا نام ’’اسلامی تاریخ‘‘ رکھ چھوڑا ہےبلکہ آپ اسے ’’تاریخِ اسلام‘‘ بھی کَہ دیتے ہیں۔ گویا ان بادشاہوں کا نام اسلام ہے۔ آپ بجائے اس کے کہ اسلام کے مشن اور اس کے اصول و نظریات کو سامنے رکھ کر اپنی گذشتہ تاریخ کا احتساب کریں اور پورے انصاف کے ساتھ اسلامی حرکات کو غیراسلامی حرکات سے ممتاز کرکے دیکھیں اور دکھائیں۔ اسلامی تاریخ کی خدمت آپ اس کو سمجھتے ہیں کہ مسلمان حکمرانوں کی حمایت و مدافعت کریں۔ آپ کے زاویۂ نظر میں یہ کجی صرف اس لیے پیدا ہوئی کہ آپ مسلمان کی ہرچیز کو اسلامی سمجھتے ہیں اور آپ کا گمان یہ ہے کہ جو شخص مسلمان کہلاتا ہے وہ اگر غیرمسلمانہ طریق پر بھی کام کرے تو اس کے کام کو مسلمان کا کام کہا جاسکتا ہے۔
یہی ٹیڑھا زاویۂ نظر آپ نے اپنی ملّی سیاست میں بھی اختیار کررکھا ہے۔ اسلام کے اصول و نظریات اور اس کے مشن سے قطع نظر کرکے آپ ایک قوم کو مسلم قوم کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس قوم کی طرف سے یا اس کے نام سے یا اس کے لیے ہرشخص اور ہر گروہ من مانی کارروائیاں کرسکتا ہے۔ آپ کے نزدیک ہروہ شخص مسلمانوں کا نمایندہ بلکہ ان کا لیڈر بھی بن سکتا ہے جو مسلمانوں کی قوم سے تعلق رکھتا ہو، خواہ اس غریب کو اسلام کے متعلق کچھ بھی معلوم نہ ہو۔ آپ ہراس پارٹی کے ساتھ لگے چلنے کو تیار ہوجاتے ہیں جس کی پیروی میں آپ کو کسی نوعیت کا فائدہ نظر آئے خواہ اس کا مشن اسلام کے مشن سے کتنا ہی مختلف ہو۔ آپ خوش ہوجاتے ہیں جب مسلمانوں کی چار روٹیاں ملنے کا کوئی انتظام ہوجائے، خواہ اسلام کی نگاہ میں وہ حرام کی روٹیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ آپ پھولے نہیں سماتے جب کسی جگہ مسلمان آپ کو اقتدار کی کرسی پر بیٹھا نظر آتا ہے، خواہ وہ اس اقتدار کو بالکل اسی طرح غیراسلامی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہو جس طرح ایک غیرمسلم کرسکتا ہے۔ آپ اکثر ان چیزوں کا نام اسلامی مفاد رکھتے ہیں جو حقیقتاً غیراسلامی ہیں۔ ان اداروں کی حمایت و حفاظت پر اپنا زور صرف کرتے ہیں جو اصولِ اسلام کے بالکل خلاف قائم ہوئے ہیں اور ان مقاصد کے پیچھے اپنا رویہ اور اپنی قومی طاقت ضائع کرتے ہیں جو ہرگز اسلامی نہیں ہیں۔ یہ سب نتائج اسی ایک بنیادی غلطی کے ہیں کہ آپ نے اپنے آپ کو محض ایک قوم سمجھ لیا ہے اور اس حقیقت کو آپ بھول گئے ہیں کہ دراصل آپ ایک بین الاقوامی پارٹی ہیں جس کا کوئی مفاد اپنی پارٹی کے اصولوں کو دنیا میں حکمران بنانے کے سوا نہیں ہے۔ جب تک آپ اپنے اندر قوم کے بجائے پارٹی کا تصور پیدا نہ کریں اور اس کو ایک زندہ تصور نہ بنائیں گے، زندگی کے کسی معاملہ میں بھی آپ کا رویہ درست نہ ہوگا۔(ترجمان القرآن، ۵۸ھ/ اپریل ۳۹ء)

شیئر کریں