Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دیباچہ
باب اول: قادیانی مسئلہ
ختم نبوت کی نئی تفسیر:
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت:
قادیانی ایک علیحدہ اُمت :
قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں سے جدا ہے :
نئے مذہب کے نتائج :
قادیانیوں کو علیحدہ اُمت قرار دینے کامطالبہ :
ذمہ داران حکومت کا رویہ :
مسلمانوں میں شغل تکفیر:
مسلمانوں میں دوسرے فرقے:
قادیانیوں کے سیاسی عزائم:
پاکستان میں قادیانی ریاست :
قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ :
قادیانیوں کی تبلیغ کی حقیقت :
انگریزی حکومت کی وفاداری :
قادیانیت کے بنیادی خدوخال :
مسلمانوں کا مطالبہ :
قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لیے علما کی متفقہ تجویز
علما کے نام
باب دوم: مقدمہ
دیباچہ
جماعت اسلامی کی مخالفت
دیانت داری کاتقاضا :
مخالفین کی بے بسی :
مولانامودودی ؒ کا اصل جرم :
مقدمہ کا پس منظر:
سزائے موت :
ایک عجیب منطق :
رہائی کامطالبہ بھی جرم؟
ہمارے صحافی اوران کاضمیر:
اے پی پی کا افترا:
فرد جرم نمبر۱
بیان نمبر۱: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے دو اخباری بیانات
فرم جرم نمبر۲
بیان نمبر۲ :مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی
مضمون : سزائے موت کے خلاف رحم کی اپیل کی گنجائش
چنداہم نکات
باب سوم
پہلابیان
وہ حالات جولاہور میں مارشل لا جاری کرنے کے موجب ہوئے
اصل مسئلہ اوراس کاپس منظر:
معاشرتی پہلو:
معاشی پہلو:
سیاسی پہلو:
تلخی پیداہونے کے مزیدوجوہ:
لازمی نتیجہ:
قادیانیوں کی اشتعال انگیزی:
مکروہ تقلید :
جماعتیں مسئلے پیدانہیں کرسکتیں:
شتابہ:
جماعت اسلامی کی مساعی:
بے تدبیری کاقدرتی ردعمل:
عام ناراضگی کے اسباب:
ایں گنا ہیست کہ درشہر شمانیز کنند:
ذمہ داری تمام تر بارڈر پولیس کے ظلم وستم پر ہے :
اصلاح حال کی کوشش :
مسلم عوام سر پھرے نہیں ہیں :
مارشل لا :
(۲) اضطراب کو روکنے اور بعد میں ان سے عہدہ برآہونے کے لیے سول حکام کی تدابیر کا کافی یا ناکافی ہونا :
(۳) اضطرابات کی ذمہ داری :
قادیانی مسئلہ کے متعلق میرااور جماعت اسلامی کاطرزعمل
’’رواداری‘‘کانرالاتصور:
غلطی کوغلطی نہ کہو:
عدالت سے درخواست:
اہم حقائق وواقعات
جماعت اسلامی کی دستاویزی شہادت:
قادیانیوں کومشورہ:
احسان شناسی:
دوسرابیان
قادیانیوں سے متعلق مطالبات بیک وقت سیاسی بھی ہیں اورمذہبی بھی:
مسلمانوں اورقادیانیوں کے اختلافات بنیادی ہیں:
تمام منحرفین کواقلیت قراردینے کامطالبہ ضروری نہیں:
ظفراللہ خان کی علیحدگی کے مطالبے کے وجوہ:
کلیدی مناصب کامفہوم اورمطالبہ علیحدگی کے لیے دلائل:
عدالت کے سامنے پیش کردہ قادیانیوں کی بناوٹی پوزیشن:
قادیانیوں کی جارحانہ روش محض اتفاقی نہیں ہے:
کفر‘تکفیراورخروج ازاسلام :
گواہوں کاکٹہراعلمی بحث کے لیے موزوں نہیں:
دستوریہ میں قائداعظمؒ کی افتتاحی تقریرکاصحیح مدعا:
کیاقائداعظمؒ کی تقریردستوریہ کوپابندکرسکتی ہے:
اسلامی ریاست نہ تھیاکریسی ہے اورنہ مغربی طرزکی جمہوریت:
اسلام میں قانون سازی:
اسلامی ریاست کے مطالبے کے حق میں معقول وجوہ موجودہیں:
اسلامی ریاست میں ذمیوں کی حیثیت:
مرتدکی سزااسلام میں:
اسلامی قانون جنگ اورغلامی:
اسلام اورفنون لطیفہ:
فقہی اختلافات اسلامی ریاست کے قیام میں حائل نہیں:
جماعت اسلامی اورڈائریکٹ ایکشن:
۳۰/جنوری کی تقریرمیں فسادات کی دھمکی نہیں بلکہ تنبیہہ تھی:
ڈائریکٹ ایکشن کارائج الوقت تصوراورمفہوم:
ڈائریکٹ ایکشن قطعی حرام نہیں:
راست اقدام کے لیے شرائط مکمل نہ تھیں:
حکومت کی تنگ ظرفی سے جوابی تشددکاخطرہ تھا:
ڈائریکٹ ایکشن کی علانیہ مخالفت نہ کرنے کی وجہ:
تیسرابیان (جومورخہ ۱۳/فروری ۱۹۵۴ء کوتحریری شکل میں عدالت مذکور میں پیش کیاگیا۔)
بجواب نکتہ اول :(الف) درباب نزول مسیح علیہ السلام

قادیانی مسئلہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اسلامی قانون جنگ اورغلامی:

۱۲۔اسلامی قانون جنگ اورخصوصاًغلامی کے مسئلے پربھی عدالت میںکچھ سوالات کیے گئے ہیں۔اس سلسلے میںیہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام کاقانون جنگ حقیقت میں ایک قانون ہے جس پراسلامی ریاست میںلازماًعمل کیاجائے گا،قطع نظراس سے کہ دوسری قومیں‘جن سے ہماری جنگ ہو‘اس کے مقررکردہ قواعداورحدودکوملحوظ رکھیںیانہ رکھیں۔اس کے برعکس جس چیزکوبین الاقوامی قانون جنگ کہتے ہیںوہ حقیقت میں قانون نہیںہے بلکہ بین الاقوامی راضی ناموںکاایک مجموعہ ہے جس کے قواعداورحدودکی پابندی ہرقوم نے اس امیداورسمجھوتے پرقبول کی ہے کہ دوسری قومیںبھی جنگ میںانہیںملحوظ رکھیں گی۔اسلام نے ہمیںجنگ کے چندکم سے کم حدود تہذیب واخلاق کاتوپابند کر دیا ہے جنھیں اگر دوسرے توڑبھی دیںتوہم بہرحال نہیںتوڑسکتے اوران سے زائد اگرکچھ مزید مہذب قوانین پر دوسری قومیںراضی ہوںتوہم نہ صرف یہ کہ ان کے ساتھ ایسے سمجھوتے کرنے کے لیے آزادہیں، بلکہ ان سب سے بڑھ کریہ ہمارامنصب ہے کہ انہیں جنگ میںمزید تہذیب اختیار کرنے کی ترغیب دیں۔مثال کے طورپرغلامی ہی کے مسئلے کولے لیجیے۔اسلام نے اس کی اجازت اس حالت میںدی ہے جب کہ دشمن نہ تبادلہ اسیران جنگ پرراضی ہواورنہ فدیے کے عوض اپنے قیدی چھڑانااورہمارے قیدی چھوڑناقبول کرے۔ اس صورت میںاسلام نے قیدیوںکوجیلوںاوراجتماعی کیمپوںمیںرکھ کرجبری محنت لینا پسند نہ کیابلکہ انہیںافرادمیںتقسیم کردینے کوترجیح دی تاکہ ان کامسلمانوں میں جذب ہو جانا زیادہ آسانی کے ساتھ ممکن ہو۔یہ صحیح ہے کہ اس زمانے میںدنیاکے دوسرے ممالک بھی قیدیوںکوغلام ہی بناکررکھتے تھے اورغلامی کالفظ ہمارے اوران کے درمیان ضرورمشترک تھا مگر جہاں تک غلامی کی حقیقت کاتعلق ہے‘اسے جس طرح اسلام نے بدلا‘اس کی نظیردنیا میں نہیں ملتی۔ آخروہ دنیاکی کون سی قوم ہے جس میںاس کثرت سے غلام اورغلا م زادے امامت اور قضا اورسپہ سالاری اورامارت وفرمانروائی کے مرتبوںپرپہنچے ہوں؟یہ تووہ کم سے کم تہذیب وانسانیت کی حدتھی جس پراسلامی قانون نے ہمیںقائم کیا۔اب اگردنیاکی قومیں تبادلہ اسیران جنگ کاقاعدہ قبول کرچکی ہیںتواسلام میںکوئی چیزاس کاخیرمقدم کرنے سے ہم کو نہیںروکتی۔ہمارے لیے تویہ خوشی کامقام ہے کہ دنیابالآخراس بات پرراضی ہوگئی جس پرہم صدیوںپہلے اسے راضی کرناچاہتے تھے۔

شیئر کریں