۱۲۔اسلامی قانون جنگ اورخصوصاًغلامی کے مسئلے پربھی عدالت میںکچھ سوالات کیے گئے ہیں۔اس سلسلے میںیہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام کاقانون جنگ حقیقت میں ایک قانون ہے جس پراسلامی ریاست میںلازماًعمل کیاجائے گا،قطع نظراس سے کہ دوسری قومیں‘جن سے ہماری جنگ ہو‘اس کے مقررکردہ قواعداورحدودکوملحوظ رکھیںیانہ رکھیں۔اس کے برعکس جس چیزکوبین الاقوامی قانون جنگ کہتے ہیںوہ حقیقت میں قانون نہیںہے بلکہ بین الاقوامی راضی ناموںکاایک مجموعہ ہے جس کے قواعداورحدودکی پابندی ہرقوم نے اس امیداورسمجھوتے پرقبول کی ہے کہ دوسری قومیںبھی جنگ میںانہیںملحوظ رکھیں گی۔اسلام نے ہمیںجنگ کے چندکم سے کم حدود تہذیب واخلاق کاتوپابند کر دیا ہے جنھیں اگر دوسرے توڑبھی دیںتوہم بہرحال نہیںتوڑسکتے اوران سے زائد اگرکچھ مزید مہذب قوانین پر دوسری قومیںراضی ہوںتوہم نہ صرف یہ کہ ان کے ساتھ ایسے سمجھوتے کرنے کے لیے آزادہیں، بلکہ ان سب سے بڑھ کریہ ہمارامنصب ہے کہ انہیں جنگ میںمزید تہذیب اختیار کرنے کی ترغیب دیں۔مثال کے طورپرغلامی ہی کے مسئلے کولے لیجیے۔اسلام نے اس کی اجازت اس حالت میںدی ہے جب کہ دشمن نہ تبادلہ اسیران جنگ پرراضی ہواورنہ فدیے کے عوض اپنے قیدی چھڑانااورہمارے قیدی چھوڑناقبول کرے۔ اس صورت میںاسلام نے قیدیوںکوجیلوںاوراجتماعی کیمپوںمیںرکھ کرجبری محنت لینا پسند نہ کیابلکہ انہیںافرادمیںتقسیم کردینے کوترجیح دی تاکہ ان کامسلمانوں میں جذب ہو جانا زیادہ آسانی کے ساتھ ممکن ہو۔یہ صحیح ہے کہ اس زمانے میںدنیاکے دوسرے ممالک بھی قیدیوںکوغلام ہی بناکررکھتے تھے اورغلامی کالفظ ہمارے اوران کے درمیان ضرورمشترک تھا مگر جہاں تک غلامی کی حقیقت کاتعلق ہے‘اسے جس طرح اسلام نے بدلا‘اس کی نظیردنیا میں نہیں ملتی۔ آخروہ دنیاکی کون سی قوم ہے جس میںاس کثرت سے غلام اورغلا م زادے امامت اور قضا اورسپہ سالاری اورامارت وفرمانروائی کے مرتبوںپرپہنچے ہوں؟یہ تووہ کم سے کم تہذیب وانسانیت کی حدتھی جس پراسلامی قانون نے ہمیںقائم کیا۔اب اگردنیاکی قومیں تبادلہ اسیران جنگ کاقاعدہ قبول کرچکی ہیںتواسلام میںکوئی چیزاس کاخیرمقدم کرنے سے ہم کو نہیںروکتی۔ہمارے لیے تویہ خوشی کامقام ہے کہ دنیابالآخراس بات پرراضی ہوگئی جس پرہم صدیوںپہلے اسے راضی کرناچاہتے تھے۔