(یہ تقریر۶ جنوری ۱۹۴۸ء کو لا کالج لاہور میں کی گئی)
آج کل کسی ملک میں … غیر مسلموں کے نہیں مسلمانوں کے اپنے ملک میں … اگر اسلامی قانون کے جاری کرنے کا سوال اٹھایا جائے تو اعتراضات کی ایک بوچھاڑ ہوتی ہے جس سے آدمی کو سابقہ پیش آتا ہے۔ کیا صدیوں کا پرانا قانون جدید زمانے کی سوسائٹی اور اسٹیٹ کی ضرورت کے لیے کافی ہوسکتا ہے؟ کیا ایک خاص زمانے کے قانون کو ہمیشہ کے لیے قابل عمل سمجھنا حماقت نہیں ہے؟ کیا اس مہذب دَور میں ہاتھ کاٹنے اور کوڑے برسانے کی وحشینہ سزائیں دی جائیں گی؟ کیا ہماری منڈیوں میں اب پھر غلام بِکا کریں گے؟ اور آخر اس ملک میں مسلمانوں کے کس فرقہ کی فقہ جاری ہوگی؟ پھر جو غیر مسلم یہاں رہتے ہیں وہ کیسے راضی ہو جائیں گے کہ مسلمانوں کا مذہبی قانون ان پر مسلط کر دیا جائے؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے سوالات ہیں جو تابڑ توڑ برسنے شروع ہوتے ہیں اور یہ بات غیر مسلموں کی زبان سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان سے ہوتی ہے۔
اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کو اسلام سے کوئی دشمنی ہے۔ دراصل اس کی وجہ ناواقفیت ہے۔ آدمی کا خاصہ ہے کہ وہ جس چیز کو نہیں جانتا اس کا نام سُن کر طرح طرح کے وسوسے اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور دُور کی شناسائی اُنسیت کے بجائے اکثر وحشت ہی بڑھاتی ہے۔ ہماری بدقسمتی کی طویل داستان کا ایک نہایت افسوسناک باب یہ بھی ہے کہ آج محض اغیار ہی نہیں، ہماری اپنی ملت کے لوگ بھی اکثر اپنے دین سے اور اپنے اسلاف کے چھوڑے ہوئے عظیم الشان ترکہ سے نابلد اور متوحش ہیں۔ اس حال کو ہم اچانک نہیں پہنچ گئے ہیں بلکہ صدیوں کے مسلسل انحطاط نے ہمیں یہاں تک پہنچایا ہے۔ پہلے مدت ہائے دراز تک ہمارے ہاں تہذیب و تمدن کا ارتقا اور علوم و فنون کا نشوونما معطل رہا۔ پھر جمود کے نتیجے میں ہم پر سیاسی زوال آیا اور دنیا کی مسلمان قومیں یا تو براہِ راست غیر مسلم حکومتوں کی غلام ہوگئیں یا ان میں سے بعض کو کچھ آزادی حاصل بھی رہی تو وہ غلامی سے کم نہ تھی، کیونکہ شکست خوردگی کا اثر ان کے قلب و روح کی گہرائیوں تک اُتر چکا تھا۔ آخر جب ہم نے اُٹھنا چاہا تو ہر جگہ کے مسلمانوں کو خواہ وہ غلام تھے یا آزاد، اُٹھنے کی ایک ہی صورت نظر آئی اور وہ یہ تھی کہ جدید تہذیب و تمدن اور جدید علوم کا سہارا لے کر اُٹھیں۔ ہمارے دینی علوم کے حامل جو طبقے تھے وہ خود اُسی انحطاط میں مبتلا تھے جس میں ساری اُمت مبتلا تھی۔ دینی بنیادوں پر کوئی زندگی بخش اور انقلاب انگیز حرکت برپا کرنا ان کے بس میں نہ تھا۔ ان کی رہنمائی سے مایوس ہو کر اُمت کے بے چین طبقے دنیا کے اس نظامِ زندگی کی طرف متوجہ ہوگئے جو صریحاً کامیاب نظر آرہا تھا۔ اسی سے انہوں نے اصول لیے، اسی کے علوم سیکھے، اسی کے تمدنی اداروں کا نقشہ حاصل کیا اور اسی کے نقشِ قدم پر چل پڑے۔ رفتہ رفتہ اہلِ دین کا گروہ بالکل گوشہ مخمول میں پھینک دیا گیا اور تمام مسلمان قوموں میں کار فرمائی کی باگیں اور کارکن طاقتیں انہی لوگوں کے ہاتھ میں آگئیں جو دین سے ناواقف اور تہذیب جدید کے فکری و عملی سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دو کو چھوڑ کر تمام آزاد مسلم ممالک کی حکومتیں مغرب کی بے دین ریاستوں (Secular States)کے نمونے پر بن گئیں جن میں کہیں تو پوری اسلامی شریعت منسوخ ہو چکی ہے اور کہیں غیر دینی حکومت حکومت کے نظام میں مسلمانوں کے لیے محض ان کا پرسنل لا اسلامی رہنے دیا گیا ہے، یعنی مسلمانوں کی اپنی حکومت میں ان کو صرف وہ مذہبی حقوق عطا ہوئے ہیں جو اسلامی حکومتوں میں کبھی ذمیوں کو دیے جاتے تھے۔{ اسلامی شریعت کی تنسیخ کا سلسلہ سب سے پہلے ہندوستان میں شروع ہوا۔ یہاں انگریزی تسلط کے بعد بھی ایک مدت تک شریع ہی کو قانون کی حیثیت حاصل تھی۔ چنانچہ ۱۷۹۱ئ تک اس ملک میں چور کا ہاتھ کاٹا جاتا رہا۔ مگر اس کے بعد انگریزی حکومت نے بتدریج اسلامی قوانین کو دوسرے قوانین سے بدلنا شروع کیا یہاں تک کہ انیسویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے پوری شریعت منسوخ ہوگئی اور اس کا صرف وہ حصہ مسلمانوں کے پرسنل لا کی حیثیت سے باقی رہنے دیا گیا جو نکاح و طلاق وغیرہ مسائل سے متعلق تھا۔ پھر اسی نقش قدم پر خود وہ ممالک بھی چل پڑے جن میں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں قائم تھیں۔ ہندوستان کی تمام مسلمان ریاستوں نے رفتہ رفتہ اپنے پبلک لا کو برطانوی ہند کے نمونے پر ڈھال لیا اور شریعت کو صرف پرسنل لا تک محدود کر دیا۔ مصری حکومت نے ۱۸۸۴ئ میں اپنے پورے قانونی نظام کو فرنچ کوڈ کے مطابق بدل لیا اور محض نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ کے مسائل قاضیوں کے دائرہ اختیار میں چھوڑ دیئے۔ اس کے بعد بیسویں صدی میں البانیا اور ٹرکی نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ انہوں نے صاف صاف اعلان کیا کہ ان کی حکومتیں بے دین حکومتیں ہیں اور صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنے ملکی قوانین اٹلی، سوئٹزر لینڈ، فرانس اور جرمنی کے نمونوں پر ڈھال لیے، بلکہ مسلمانوں کے پرسنل لا میں وہ کھلی کھلی تحریفات کر ڈالیں جن کی جرأت کوئی غیر مسلم حکومت بھی نہ کرسکی تھی۔ چنانچہ البانیا میں تعدد ازدواج کو قانوناً ممنوع ٹھیرایا گیا اور ٹرکی میں نکاح، طلاق اور وراثت، کے متعلق قرآن کے صریح احکام تک تبدیل کر ڈالے گئے۔ اب صرف افغانستان اور سعودی عرب، دو ہی ملک دنیا میں ایسے رہ گئے ہیں جہاں شریعت کو ملکی قانون کی حیثیت حاصل ہے، اگرچہ شریعت کی رُوح وہاں سے بھی غائب ہے۔
} اسی طرح جو ممالک غلام تھے ان میں بھی تمام تہذیبی اداروں اور سیاسی تحریکوں کے کارفرما اسی قسم کے لوگ بنے اور آزادی کی طرف ان کا جو قدم بھی بڑھا اسی منزل کی طرف بڑھا جس پر دوسری آزاد قومیں پہنچی ہوئی تھیں۔ اب اگر ان لوگوں سے اسلامی قانون اور اسلامی دستور کے نفاذ کا مطالبہ کیا جائے تو وہ بیچارے مجبور ہیں کہ اسے ٹالیں یا دبائیں، کیونکہ وہ اس چیز کی ابجد تک سے ناواقف ہیں جس کے قیام و نفاذ کا ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔ جو تعلیم اور ذہنی و عملی تربیت انہوں نے پائی ہے وہ انہیں اسلامی قانون کی روح و مزاج سے اتنی دُور سے جاچکی ہے کہ ااس کو سمجھنا ان کے لیے آسان نہیں رہا ہے۔ اور حاملانِ دین کی رہنمائی میں دینی تعلیم کا جو نظام چل رہا ہے وہ اس وقت تک بیسویں صدی کے لیے بارھویں صدی کے مردان کار تیار کرنے میں مشغول ہے۔ اس لیے کوئی ایسا گروہ بھی موجود نہیں ہے جو شاگردانِ مغرب کو ہٹا کر اسلامی آئین و قانون کے مطابق ایک جدید ریاست کا نظام بنا اور چلا سکے۔
یہ واقعی ایک سخت پیچیدگی ہے جس نے تمام مسلم ممالک میں اسلامی قانون دوستور کے نفاذ کو مشکل بنا رکھا ہے۔ مگر ہمارا معاملہ دوسرے مسلمان ملکوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہم اس برعظیم ہند میں پچھلے دس سال سے اس بات پر لڑتے رہے ہیں کہ ہم اپنی مستقل تہذیب، الگ نظریۂ زندگی اور مخصوص آئین حیات رکھتے ہیں، ہمارے لیے مسلم وغیر مسلم کی ایک ایسی متحدہ قومیت ناقابل قبول ہے جس کا نظامِ زندگی لامحالہ ہمارے آئینِ حیات سے مختلف ہوگا، ہمیں ایک الگ خطۂ زمین درکار ہے جس میں ہم اپنے آئین پر زندگی کا نظام بنا اور چلا سکیں۔ ایک طویل اور اَن تھک کشمکش کے بعد بالآخر اب ہمیں وہ خطۂ زمین مل گیا ہے جس کا ہم مطالبہ کر رہے تھے۔ اور اس کی قیمت میں ہم کو لاکھوں مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو دینی پڑی ہے۔ یہ سب کچھ ہو چکنے کے بعد اگر ہم نے یہاں اپنا وہ آئین حیات ہی نافذ نہ کیا جس کے لیے اتنے پاپڑ بیل کر اور اتنی بھاری قیمت ادا کرکے یہ خطہ زمین حاصل کیا گیا ہے تو ہم سے بڑھ کر زیاں کار کوئی نہ ہوگا۔ اسلامی دستور کے بجائے جمہوری لادینی دسوتر، اور اسلامی قانون کی جگہ تعزیرات ہند اور ضابطہ دیوانی ہی جاری کرنا تھا تو آخر ہندوستان کیا بُرا تھا کہ اتنے لڑائی جھگڑوں سے یہ پاکستان لیا جاتا اور اگر ہمارا مقصد اشتراکی پروگرام نافذ کرنا تھا تو ’’یہ کار خیر‘‘ بھی ہندوستان کی سوشلسٹ یا کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ مل کر انجام دیا جاسکتا تھا، اس کے لیے بھی کوئی ضرورت نہ تھی کہ خواہ مخواہ اتنی جانفشانی اور اتنی بڑی قیمت پر پاکستان حاصل کرنے کی حماقت کی جاتی۔ دراصل ہم ایک قوم کی حیثیت سے اپنے آپ کو خدا اور خلق اور تاریخ کے سامنے آئین اسلامی کے نفاذ کے لیے پابند کر چکے ہیں، ہمارےلیے اب اپنے قول سے پھرنا ممکن نہیں رہا۔ لہٰذا چاہے دوسری مسلمان قومیں کچھ کرتی رہیں، ہمیں بہرحال ان ساری پیچیدگیوں کو حل کرنا ہی پڑے گا جو اس کام کی راہ میں حائل ہیں۔
جہاں تک اسلامی قانون کے نفاذ کی عملی مشکلات کا تعلق ہے ان سب کو دُور کرنے کی تدبیریں کی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اصل مشکل نہیں ہے۔ اصلی مشکل صرف یہ ہے کہ وہ دماغ جن کی فکر و محنت، اس کام کے لیے درکار ہے، بجائے خود مطمئن نہیں ہیں اور ان کے عدم اطمینان کی وجہ ان کی عدم واقفیت ہے۔ اس لیے سب سے پہلے جو کام کرنے کا ہے وہ یہی ہے کہ انہیں واضح طریقہ پر یہ بتایا جائے کہ اسلامی قانون کس چیز کا نام ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے، اس کا مقصد، اس کے اصول، اس کی روح اور ان کا مزاج کیا ہے۔ اس میں کیا چیز قطعی اور مستقل ہے اور اس کے ایسا ہونے کا فائدہ کیا ہے اور اس میں کونسی چیز ابد تک ترقی پذیر ہے اور وہ کس طرح ہر دور میں ہماری بڑھتی ہوئی تمدنی ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے۔ اس کے احکام کن مصالح پر مبنی ہیں اور ان غلط فہمیوں کی کیا اصلیت ہے جو ان احکام کے متعلق ناواقف لوگوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر یہ تفہیم صحیح طریقہ پر ہو جائے تو ہمیں یقین ہے کہ ہمارے بہترین کار فرما اور کارکن دماغ مطمئن ہو جائیں گے اور ان کا اطمینان ان ساری تدبیروں کا دروازہ کھول دے گا جو اسلامی قانون کے نفاذ کو عملاً ممکن بنا سکتی ہیں۔ میری آج کی تقریر اسی تعارف کے لیے ہے۔