اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق پر بحث کرنے سے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ اسلام کی حکومت دراصل ایک اصولی (Ideological) حکومت ہے اور اس کی نوعیت ایک قومی جمہوری (National Democratic) حکومت سے قطعاً مختلف ہے۔ دونوں قسم کی ریاستوں کے اس نوعی فرق کا مسئلہ زیرِ بحث پر کیا اثر پڑتا ہے، اس کو حسبِ ذیل نکات سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
(۱) اسلامی حکومت اپنے حدود میں رہنے والے لوگوں کو اس لحاظ سے تقسیم کرتی ہے کہ کون اُن اصولوں کو مانتے ہیں جن پر اسلامی حکومت کی بِناء رکھی گئی ہے اور کون انہیں نہیں مانتے، یعنی مسلم اور غیر مسلم۔
(۱) قومی حکومت انہیں اس لحاظ سے تقسیم کرتی ہے کہ کون لوگ اُس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو دراصل ریاست کی بنانے اور چلانے والی ہے، اور کون لوگ اس سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل کی اصطلاح میں اس کے لیے اکثریت اور اقلیّت کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں،
(۲) اسلامی حکومت کو چلانا دراصل ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اصولوں کو مانتے ہوں، وہ اپنے انتظام میں غیر مسلموں کی خدمات تو ضرور استعمال کر سکتی ہے، مگر رہنمائی و کار فرمائی کے مناصب انہیں نہیں دے سکتی۔
(۲) قومی حکومت اپنی رہنمائی و کارفرمائی کے لیے صرف اپنے افرادِ قوم ہی پر اعتماد کرتی ہے اور دوسری قلیل التعداد قومیں جو اس کے شہریوں میں شامل ہوں، اس اعتماد کی مستحق نہیںہوتیں، یہ بات چاہے صاف صاف کہی نہ جاتی ہو، مگر عملاً ہوتا اسی طرح ہے، اور اگر اقلیّت کے کسی فرد کو کبھی کوئی کلیدی منصب دیا بھی جاتا ہے تو یہ محض ایک نمائشی حرکت ہوتی ہے۔ پالیسیوں کی تشکیل میں فی الحقیقت اس کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
(۳) اسلامی حکومت عین اپنی نوعیّت ہی کے لحاظ سے اس بات پر مجبور ہے کہ مسلموں اور غیر مسلموں کے درمیان واضح امتیاز قائم کرے اور صاف صاف بتا دے کہ وہ غیر مسلموں کو کیا حقوق دے سکتی ہے اور کیا نہیں دے سکتی۔
(۳) قومی حکومت کے لیے یہ منافقانہ چالبازی آسان ہے کہ وہ ملک کے تمام باشندوں کو نظریّے کے اعتبار سے ایک قوم قرار دے کر کاغذ پر سب کو مساوی حقوق دے دے‘ مگر عملاً اکثریّت اور اقلیّت کا پورا امتیازقائم رکھے اور زمین پر اقلیتوں کو کسی قسم کے حقوق نہ دے۔
(۴) اسلامی حکومت کو اپنے نظام میں غیر مسلم عناصر کی موجودگی سے جو پیچیدگی پیش آتی ہے اسے وہ اس طرح حل کرتی ہے کہ انہیں متعیّن حقوق کا ذمّہ Guarantee دے کر مطمئن کر دیتی ہے، اپنے اصولی نظام کے حل و عقد میں ان کی مداخلت روک دیتی ہے، اور ان کے لیے ہر وقت یہ دروازہ کھلا رکھتی ہے کہ اگر اسلام کے اصول انہیں پسند آ جائیں تو وہ انہیں قبول کرکے حکمراں جماعت میں شامل ہو جائیں۔
(۴) قومی حکومت کو اپنے نظام میں غیر قومی عناصر کی شمولیّت سے جو پیچیدگی پیش آتی ہے اسے حل کرنے کے لیے وہ تین مختلف تدبیریں اختیار کرتی ہے۔ ایک یہ کہ ان کی انفرادیّت کو بتدریج مٹا کر اپنے اندر جذب کرے، دوسرے یہ کہ ان کی ہستی کو محو کرنے کے لیے قتل و غارت اور اخراج کے ظالمانہ طریقے اختیار کرے۔ تیسرے یہ کہ انکو اپنے اندر اچھوت بنا کر رکھ دے۔ یہ تینوں تدبیریں دنیا کی قومی جمہوری ریاستوں میں بکثرت اختیار کی گئی ہیں‘ اب تک کی جا رہی ہیں، اور آج ہندوستان میں خود مسلمانوں کو ان کا تلخ تجربہ ہو رہا ہے۔
(۵) اسلامی حکومت ذمّی غیر مسلموں کو وہ تمام حقوق دینے پر مجبور ہے جو شریعت نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں۔ ان حقوق کو سلب کرنے یا ان میں کمی کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ البتہ مسلمانوں کو یہ اختیار ضرور حاصل ہے کہ وہ ان حقوق کے علاوہ کچھ مزید حقوق انہیں عطا کر دیں‘ بشرطیکہ یہ اضافہ اسلام کے اصولوں سے متصادم نہ ہوتا ہو۔
(۵) قومی جمہوری حکومت میں اقلیتوں کو جو حقوق بھی دیے جاتے ہیں وہ اکثریت کے عطا کردہ ہوتے ہیں، اور اکثریت جس طرح انہیں عطا کرنے کا حق رکھتی ہے اسی طرح وہ ان میں کمی بیشی کرنے اور بالکل سلب کر لینے کا بھی حق رکھتی ہے۔ پس درحقیقت اس نظام میں اقلیتیں سرا سر اکثریّت کے رحم پر جیتی ہیں اور ان کے لیے ابتدائی انسانی حقوق تک کی کوئی پائیدار ضمانت نہیں ہوتی۔
یہ بنیادی اختلافات ہیں جو ذمّیوں کے ساتھ اسلام کے سلوک اور اقلیتوں کے ساتھ قومی جمہوریتوں کے سلوک کو ایک دوسرے سے بالکل ممتاز کر دیتے ہیں۔ جب تک انہیں پیشِ نظر نہ رکھا جائے، انسان خلطِ مبحث سے نہیںبچ سکتا اور نہ اس غلط فہمی سے محفوظ رہ سکتا ہے کہ موجودہ زمانے کی قومی جمہوریتیں تو اپنے دستوروں میں اقلیتوں کو بالکل مساویانہ حقوق دیتی ہیں مگر اسلام اس معاملے میں تنگ نظری سے کام لیتا ہے۔
ان ضروری توضیحات کے بعد اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔