(یہ تقریر ۲۴ نومبر ۱۹۵۲ء کو بار ایسوسی ایشن کراچی کے صدر جناب محمد محسن صاحب صدیقی کی دعوت پر وکلاء کے ایک اجتماع میں کی گئی تھی)
حضرات، میں بار ایسوسی ایشن کے محترم صدر اور سیکرٹری کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ستھرے مجمع کے سامنے مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا قیمتی موقع دیا۔ یہ ہماری قوم کا مکھن ہے اور اس کے کسی ایک فرد کو متفق کر لینا ہزاروں آدمیوں کے متفق کرنے کی بہ نسبت زیادہ قیمتی اور وزنی ہے۔ میں اس نادر موقع کی اہمیت کو اچھی طرح محسوس کرتا ہوں اور انشاءاللہ اس سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا۔
میرا ارادہ یہاں کوئی مفصل تقریر کرنے کا تو نہیں ہے کیونکہ دراصل یہ ایک مجلس مذاکرہ ہے جو اسلامی دستور کی بنیادوں پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے منعقد کی گئی ہے، لیکن چونکہ یہ موضوع ایسا ہے کہ اس کے بارے میں اگر ابتدائی بطورِ مقدمہ چند باتیں بیان کر دی جائیں تو اس امر کا اندیشہ ہے کہ مباحث کے دوران میں بہت سے ایسے مسائل چھڑ جائیں جن کو واضح کرنے کے لیے پھر ایک تقریر کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ اس لیے میں پہلے چند اصولی باتیں وضاحت کے ساتھ بیان کر دینا چاہتا ہوں، اس کے بعد جو سوالات کیے جائیں گے ان کے جواب عرض کروں گا۔