(یہ مقالہ ۱۲۔ ستمبر ۱۹۴۰ء کو انجمن اسلامی تاریخ و تمدن کی دعوت پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں بمقام اسٹریچی ہال پڑھا گیا)
حضرات!
اس مقالہ میں مجھے آپ کے سامنے اس عمل (process) کی تشریح کرنی ہے جس سے ایک طبعی نتیجہ کے طور پر اسلامی حکومت وجود میں آتی ہے۔ آج کل میں دیکھ رہا ہوں کہ اسلامی حکومت کا نام بازیچۂ اطفال بنا ہوا ہے۔ مختلف حلقوں سے اس تصور اور اس مقصد کا اظہار ہو رہا ہے۔ مگر ایسے ایسے عجیب راستے اس منزل تک پہنچنے کے لیے تجویز کیے جارہے ہیں جن سے وہاں تک پہنچنا اتنا ہی محال ہے جتنا موٹر کار کے ذریعے امریکا تک پہنچنا۔ اس خام خیالی (loose thinking) کی تمام تروجہ یہ ہے کہ بعض سیاسی و تاریخی اسباب سے کسی ایسی چیز کی خواہش تو پیدا ہوگئی ہے جس کا نام ’’اسلامی حکومت‘‘ ہو مگر خالص علمی (scientific)طریقہ پر نہ تو یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس حکومت کی نوعیت کیا ہے اور نہ یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ کیوں کر قائم ہوا کرتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ علمی طریقہ پر اس مسئلہ کی پوری تحقیق کی جائے۔