Search
Close this search box.

رسائل و مسائل

اسلامی حکومت میں خواتین کا دائرۂ عمل

سوال

کیا اس دور میں اسلامی حکومت خواتین کو مردوں کے برابر ،سیاسی ،معاشی ومعاشرتی حقوق ادا نہ کرے گی جب کہ اسلام کا دعویٰ ہے کہ اس نے تاریک ترین دور میں بھی عورت کو ایک مقام(status) عطا کیا؟ کیا آج خواتین کو مردوں کے برابر اپنے ورثے کا حصہ لینے کا حق دیا جاسکتا ہے؟ کیا ان کو اسکولوں ،کالجوں اور یونی ورسٹی میں مخلوط تعلیم یا مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرکے ملک وقوم کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کی اجازت نہ ہوگی؟فرض کیجیے اگر اسلامی حکومت خواتین کو برابر کا حق راے دہندگی دے اور وہ کثرت آرا سے وزارت و صدارت کے عہدوں کے لیے الیکشن لڑکر کام یاب ہوجائیں تو موجودہ بیسویں صدی میں بھی کیا ان کو منصب اعلیٰ کا حق اسلامی احکام کی رو سے نہیں مل سکتا جب کہ بہت سی مثالیں ایسی آج موجود ہیں ۔ مثلاً سیلون میں وزارت عظمیٰ ایک عورت کے پاس ہے،یا نیدر لینڈ میں ایک خاتون ہی حکمران اعلیٰ ہے، برطانیا پر ملکہ کی شہنشاہیت ہے، سفارتی حد تک جیسے عابدہ سلطانہ دختر نواب آف بھوپال رہ چکی ہیں اور اب بیگم رعنا لیاقت علی خان نیدرلینڈ میں سفیر ہیں ، یا دیگر جس طرح مسز وجے لکشمی پنڈت برطانیا میں ہائی کمشنر ہیں اور اقوام متحدہ کی صدر رہ چکی ہیں ۔ اور بھی مثالیں جیسے نور جہاں ، جھانسی کی رانی، رضیہ سلطانہ، حضرت محل زوجہ واجد علی شاہ جو کہ( pride of women) کہلاتی ہیں ، جنھوں نے انگریزوں کے خلاف لکھنو میں جنگ کی کمانڈ کی۔ اس طرح خواتین نے خود کو پورا اہل ثابت کردیا ہے۔ تو کیا اگر آج محترمہ فاطمہ جناح صدارت کا عہدہ سنبھال لیں تو اسلامی اصول پاکستان کے اسلامی نظام میں اس کی اجازت نہ دیں گے؟ کیا آج بھی خواتین کو ڈاکٹر، وکلا، مجسٹریٹ، جج، فوجی افسر یاپائلٹ وغیرہ بننے کی مطلق اجازت نہ ہو گی؟ خواتین کا یہ بھی کارنامہ کہ وہ نرسوں کی حیثیت سے کس طرح مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں ،قابل ذکر ہے۔خود اسلام کی پہلی جنگ میں خواتین نے مرہم پٹی کی، پانی پلایا اور حوصلے بلند کیے۔ تو کیا آج بھی اسلامی حکومت میں آدھی قوم کو مکانات کی چار دیواری میں مقید رکھا جائے گا؟

جواب

اسلامی حکومت دنیا کے کسی معاملے میں بھی اسلامی اصولوں سے ہٹ کر کوئی کام کرنے کی نہ تو مجاز ہے اور نہ وہ اس کا ارادہ ہی کرسکتی ہے، اگر فی الواقع اس کو چلانے والے ایسے لوگ ہوں جو اسلام کے اصولوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور اس پر عمل کرتے ہوں ۔ عورتوں کے معاملے میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ عورت اور مرد عزت واحترام کے لحاظ سے برابر ہیں ۔ اخلاقی معیار کے لحاظ سے بھی برابر ہیں ۔ آخرت میں اپنے اجر کے لحاظ سے بھی برابر ہیں ۔ لیکن دونوں کا دائرۂ عمل ایک نہیں ہے۔سیاست او رملکی انتظام اور فوجی خدمات اور اسی طرح کے دوسرے کام مرد کے دائرۂ عمل سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس دائرے میں عورت کو گھسیٹ لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ یا تو ہماری خانگی زندگی بالکل تباہ ہوجائے گی، جس کی بیش تر ذمہ داریاں عورتوں سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یا پھر عورتوں پر دہرا بار ڈالا جائے گا کہ وہ اپنے فطری فرائض بھی انجام دیں جن میں مرد قطعاً شریک نہیں ہوسکتا، اور پھر مرد کے فرائض کا بھی نصف حصہ اپنے اوپر اٹھائیں ۔ عملاً یہ دوسری صورت ممکن نہیں ہے، لازماً پہلی صورت ہی رونما ہو گی، اور مغربی ممالک کا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ رونما ہوچکی ہے۔ آنکھیں بند کرکے دوسروں کی حماقتوں کی نقل اتارنا عقل مندی نہیں ہے۔
اسلام میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے برابر ہو۔ اس باب میں قرآن کا صریح حکم مانع ہے۔ نیز یہ انصاف کے بھی خلاف ہے کہ عورت کا حصہ مرد کے برابر ہو۔ کیوں کہ اسلامی احکام کی رو سے خاندان کی پرورش کا سارا مالی بار مرد پر ڈالا گیا ہے۔ بیوی کا مہر اور نفقہ بھی اس پر واجب ہے۔ اس کے مقابلے میں عورت پر کوئی مالی بار نہیں ڈالا گیا ہے۔ اس صورت میں آخر عورت کو مرد کے برابر حصہ کیسے دلایا جاسکتا ہے۔
اسلام اصولاً مخلو ط سوسائٹی کا مخالف ہے اور کوئی ایسا نظام جو خاندان کے استحکام کو اہمیت دیتا ہو، اس کو پسند نہیں کرتا کہ عورتوں اور مردوں کی مخلوط سوسائٹی ہو۔ مغربی ممالک میں اس کے بدترین نتائج ظاہر ہوچکے ہیں ۔ اگر ہمارے ملک کے لوگ ان نتائج کو بھگتنے کے لیے تیار ہوں تو شوق سے بھگتتے رہیں ۔ لیکن آخر یہ کیا ضروری ہے کہ اسلام میں ان افعال کی گنجائش زبردستی نکالی جائے جن سے وہ شدت کے ساتھ روکتا ہے۔
اسلام میں اگر جنگ کے موقع پر عورتوں سے مرہم پٹی کا کام لیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ امن کی حالت میں عورتوں کو دفتروں اور کارخانوں اور کلبوں اور پارلیمنٹوں میں لاکھڑا کیا جائے۔ مرد کے دائرۂ عمل میں آکر عورتیں کبھی مردوں کے مقابلے میں کام یاب نہیں ہو سکتیں ۔ اس لیے کہ وہ ان کاموں کے لیے بنائی ہی نہیں گئی ہیں ۔ ان کاموں کے لیے جن اخلاقی اور ذہنی اوصاف کی ضرورت ہے، وہ دراصل مرد میں پیدا کیے گئے ہیں ۔ عورت مصنوعی طور پر مرد بن کر کچھ تھوڑا بہت ان اوصاف کو اپنے اندر ابھارنے کی کوشش کرے بھی تو ان کا دہرا نقصان خود اس کو بھی ہوتا ہے اور معاشرے کو بھی۔ اس کا اپنا نقصان یہ ہے کہ وہ نہ پوری عورت رہتی ہے ،نہ پوری مرد بن سکتی ہے اور اپنے اصل دائرۂ عمل میں ، جس کے لیے وہ فطرتاً پیدا کی گئی ہے ناکام رہ جاتی ہے۔ معاشرہ اور ریاست کا نقصان یہ ہے کہ وہ اہل کارکنوں کے بجاے نااہل کارکنوں سے کام لیتا ہے اور عورت کی آدھی زنانہ اور آدھی مردانہ خصوصیات سیاست او رمعیشت کو خراب کرکے رکھ دیتی ہیں ۔ اس سلسلے میں گنتی کی چند سابقہ معروف خواتین کے نام گنانے سے کیا فائدہ۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ جہاں لاکھوں کارکنوں کی ضرورت ہو، کیا وہاں تمام خواتین موزوں ہوسکیں گی؟ ابھی حال ہی میں مصر کے سرکاری محکموں او رتجارتی اداروں نے یہ شکایت کی ہے کہ وہاں بحیثیت مجموعی ایک لاکھ دس ہزار خواتین جو مختلف مناصب پر کام کررہی ہیں ، بالعموم ناموزوں ثابت ہورہی ہیں اور ان کی کارکردگی مردوں کی بہ نسبت 55 فی صد سے زیادہ نہیں ۔ پھر مصر کے تجارتی اداروں نے یہ عام شکایت کی ہے کہ عورتوں کے پاس پہنچ کر کوئی راز، راز نہیں رہتا۔ مغربی ممالک میں جاسوسی کے جتنے واقعات پیش آتے ہیں ، ان میں بھی عموماً کسی نہ کسی طرح عورتوں کا دخل ہوتا ہے۔
عورتوں کی تعلیم سے اسلام ہرگز نہیں روکتا۔ اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم ان کو دلوائی جانی چاہیے، لیکن چند شرطوں کے ساتھ۔ اوّل یہ کہ ان کو وہ تعلیم خا ص طور پر دی جائے جس سے و ہ اپنے دائرۂ عمل میں کام کرنے کے لیے ٹھیک ٹھیک تیار ہوسکیں ، اور ان کی تعلیم بعینہٖ وہ نہ ہو جو مردوں کی ہو۔ دوسرے یہ کہ تعلیم مخلوط نہ ہو اور عورتوں کو زنانہ تعلیم گاہوں میں عورتوں ہی سے تعلیم دلوائی جائے۔ مخلوط تعلیم کے مہلک نتائج مغربی ترقی یافتہ ممالک میں اس حد تک سامنے آچکے ہیں کہ اب صرف عقل کے اندھے ہی ان کا انکار کرسکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر دیکھیے، امریکا میں ۱۷سال تک کی عمر کی لڑکیاں جو ہائی اسکولوں میں پڑھتی ہیں ، مخلوط تعلیم کی وجہ سے ہر سال ان میں سے اوسطاً ایک ہزار حاملہ نکلتی ہیں ۔ گو ابھی یہ شکل ہمارے ہاں رونما نہیں ہوئی ہے، لیکن اس مخلوط تعلیم کے نتائج کچھ ہمارے سامنے بھی آنے شروع ہوگئے ہیں ۔تیسرے یہ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین سے ایسے اداروں میں کام لیا جائے جوصرف عورتوں کے لیے ہی مخصوص ہوں ۔مثلاً زنانہ تعلیم گاہیں اور زنانہ ہسپتال وغیرہ۔ (ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۶۲ء)