اب ہم فاضل جج کے نکات نمبر ۲‘۳ اور ۴ کو لیتے ہیں۔ ان نکات میں ان کے استدلال کا سارا انحصار تین باتوں پر ہے جو بجائے خود غلط یا اصل حقیقت سے بہت مختلف ہیں:
ایک یہ کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے احادیث کو لکھنے سے منع کر دیا تھا۔
دوسرے یہ کہ حضورﷺ کے زمانے میں اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی قرآن کو محفوظ کرنے کا تو اہتمام کیا گیا، مگر احادیث کے محفوظ کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔
تیسرے یہ کہ احادیث صحابہ اور تابعین کے ذہنوں میں چھپی پڑی تھیں، وہ کبھی کبھار اتفاقاً کسی کے سامنے ان کا ذکر کر دیا کرتے تھے، اور ان روایات کو جمع کرنے کا کام حضورﷺکی وفات کے چند سو برس بعد کیا گیا۔
ان تین خلافِ واقعہ بنیادوں پر فاضل جج سوالیہ انداز میں اس نتیجے کی طرف ہماری راہ نُمائی کرتے ہیں کہ احادیث کے ساتھ یہ برتائو اس لیے کیا گیا کہ دراصل وہ محض ایک وقتی حیثیت رکھتی تھیں، دُنیا بھر کے لیے اور ہمیشہ کے لیے ان کو مآخذ قانون بنانا سرے سے مطلوب ہی نہ تھا۔
سطورِ ذیل میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ان تینوں باتوں میں، جن پر اس نتیجے کی بِنا رکھی گئی ہے، صداقت کا جوہر کس قدر ہے، اور خود وہ نتیجہ جو ان سے برآمد کیا گیا ہے، بجائے خود کہاں تک صحیح ہے۔
کتابتِ حدیث کی ابتدائی ممانعت اور اس کے وجوہ
رسول اللّٰہ ﷺ کی جن دو حدیثوں کا فاضل مصنف نے حوالہ دیا ہے ان میں صرف احادیث لکھنے سے منع کیا گیا ہے، ان کو زبانی روایت کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ان میں سے ایک حدیث میں تو بالفاظ صریح حضورﷺ نے فرمایا ہے وَحَدِّثُوْا عَنّیِ وَلَاَ حَرَجَ ’’میری باتیں زبانی بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن دراصل یہ بات سرے سے ہی غلط ہے کہ صرف ان دو حدیثوں کو لے کر ان سے نتائج اخذ کر ڈالے جائیں اور اس سلسلے کے تمام دوسرے متعلقہ واقعات کو نظر انداز کر دیا جائے۔ پہلی بات جو اس باب میں جاننی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نبی ﷺ جس زمانے میں مبعوث ہوئے ہیں، اس وقت عرب کی پوری قوم اَن پڑھ تھی اور اپنے سارے معاملات حافظے اور زبان سے چلاتی تھی۔ قریش جیسے ترقی یافتہ قبیلے کا حال، مؤرخ بلاذری کی ایک روایت کے مطابق یہ تھا کہ اس میں صرف ۱۷ آدمی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ مدینہ کے انصار میں بلاذری ہی کے بقول گیارہ سے زیادہ آدمیوں کو لکھنا پڑھنا نہ آتا تھا۔ کتابت کے لیے کاغذ ناپید تھا۔ جھلیوں اور ہڈیوں اور کھجور کے پتوں پر تحریریں لکھی جاتی تھیں ۔ان حالات میں جب حضورﷺ مبعوث ہوئے تو آپﷺ کے سامنے اولین کام یہ تھا کہ قرآن مجید کو اس طرح محفوظ کریں کہ اس میں کسی دوسری چیز کی آمیزش نہ ہونے پائے۔ لکھنے والے چوں کہ گنے چنے آدمی تھے، اس لیے آپ کو خطرہ تھا کہ جو لوگ وحی کے الفاظ اور آیات لکھ رہے ہیں، وہی لوگ اگر آپﷺ ہی سے سن کر آپﷺ کے حوالے سے دوسری چیزیں بھی لکھیں گے تو قرآن آمیزش سے نہ بچ سکے گا۔ آمیزش نہ ہو گی تو کم از کم شک پڑ جائے گا کہ ایک چیز آیت قرآنی ہے یا حدیث رسولﷺ۔ اس بِنا پر ابتدائی دور میں حضورﷺ نے احادیث لکھنے سے منع فرما دیا تھا،مگر یہ حالت زیادہ دیر تک باقی نہیں رہی۔