Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی نظامِ تعلیم
قدیم نظامِ تعلیم
جدید نظامِ تعلیم
ایک انقلابی قدم کی ضرورت
مقصد کا تعین
دین ودنیا کی تفریق مٹا دی جائے
تشکیلِ سیرت
عملی نقشہ
ابتدائی تعلیم
ثانوی تعلیم
اعلیٰ تعلیم
اختصاصی تعلیم
لازمی تدابیر
عورتوں کی تعلیم
رسم الخط
انگریزی کا مقام

اسلامی نظامِ تعلیم

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اختصاصی تعلیم

اعلیٰ تعلیم کے بعد اختصاصی تعلیم کو لیجئے جس کا مقصود کسی ایک شعبۂ علم میں کمال پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں جس طرح ہمارے ہاں دوسرے علوم وفنون کی اختصاصی تعلیم کا انتظام کیاجاتا ہے ،اسی طرح اب قرآن، حدیث، فقہ اور دوسرے علومِ اسلامیہ کی تعلیم کا بھی ہونا چاہیے۔ تاکہ ہمارے ہاں اعلیٰ درجہ کے مفسر، محدث اور فقیہہ اورعلمائے دین پیدا ہو سکیں۔ جہاں تک فقہ کا تعلق ہے، اس کی تعلیم تو ہمارے لاء کالجوں میں ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ہم کو تعلیم کا کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، اس مسئلے پر اس سے پہلے میں اپنے دو لیکچروں میں مفصل بحث کر چکا ہوں جو ۱۹۴۸ء میں لاء کالج لاہور میں ہوئے تھے۔ یہ دونوں لیکچر ’’اسلامی قانون‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں‘ اس لیے یہاں اس بحث کا اعادہ غیر ضروری ہے۔ رہے قرآن وحدیث اور دوسرے علوم اسلامیہ، تو ان کی اختصاصی تعلیم کے لیے ہماری یونیورسٹیوں کو خاص انتظامات کرنے چاہئیں جن کا مختصر خاکہ میں یہاں پیش کرتا ہوں۔
میرے خیال میں اس مقصد کے لیے ہمیں مخصوص کالج یا یونیورسٹیوں کے تحت الگ شعبے قائم کرنے ہوں گے جن میں صرف گریجویٹ یا انڈر گریجویٹ داخل ہو سکیں۔ ان اداروں میں حسبِ ذیل مضامین کی تعلیم ہونی چاہیے۔
۱۔ عربی ادب، تاکہ طلبہ میں اعلیٰ درجے کی علمی کتابیں پڑھنے اور سمجھنے کی استعداد پیدا ہو سکے اور اس کے ساتھ وہ عربی زبان لکھنے اور بولنے پر بھی قادر ہوں۔
۲۔ علومِ قرآن، جن میں پہلے اصول تفسیر، تاریخ علمِ تفسیر اور فنِ تفسیر کے مختلف اسکولوں کی خصوصیات سے طلبہ کو آشنا کیا جائے، اور پھر قرآن مجید کا تحقیقی مطالعہ کرایا جائے۔
۳۔ علومِ حدیث، جن میں اصولِ حدیث، تاریخِ علمِ حدیث اور فنِ جرح وتعدیل پڑھانے کے بعد حدیث کی اصل کتابیں ایسے طریقے سے پڑھائی جائیں کہ طلبہ ایک طرف خود احادیث کو پرکھنے اور ان کی صحت وسقم کے متعلق رائے قائم کرنے کے قابل ہو جائیں اور دوسری طرف حدیث کے بیشتر ذخیرے پر ان کو نظر حاصل ہو جائے۔
۴۔ فقہ، جس کی تعلیم لاء کالجوں کی تعلیمِ فقہ سے ذرا مختلف ہو۔ یہاں صرف اتنا کافی ہے کہ طلبہ کو اصولِ فقہ، تاریخ علمِ فقہ، مذاہب فقہ کی امتیازی خصوصیات اور قرآن وحدیث کے نصوص سے استنباط احکام کے طریقے اچھی طرح سمجھا دئیے جائیں۔
۵۔ علم العقائد، علمِ کلام اور تاریخ علمِ کلام، جسے اس طریقے سے پڑھایا جائے کہ طلبہ اس علم کی حیثیت سے واقف ہو جائیں اور متکلمینِ اسلام کے پورے کام پر ان کو جامع نظر حاصل ہوجائے۔
۶۔ تقابلِ ادیان، جس میں دنیا کے تمام بڑے بڑے مذاہب کی تعلیمات سے ان کی امتیازی خصوصیات سے، اور ان کی تاریخ سے طلبہ کو آشنا کیا جائے۔
اس تعلیم سے جو لوگ فارغ ہوں، مجھے اس سے کوئی بحث نہیں کہ آپ ان کی ڈگری کا نام کیا رکھیں مگر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں آئندہ انہی لوگوں کو ’’علمائے دین‘‘ کہا جانا چاہیے جو اس ڈگری کو حاصل کریں اور ان کے لیے ان تمام اعلیٰ ملازمتوں کے دروازے کھلے ہونے چاہئیں جو دوسرے مضامین کے ایم اے اور پی ایچ ڈی حضرات کو مل سکتی ہیں۔

شیئر کریں