یہ اس معاملے کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ صحابہؓ کے لیے خاص طور پر نبیﷺ کی احادیث کو ٹھیک ٹھیک یاد رکھنے اور انھیں صحیح صحیح بیان کرنے کے کچھ مزید محرکات بھی تھے جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا:
اولاً: وہ سچے دل سے آپﷺ کو خدا کا نبی، اور دُنیا کا سب سے بڑا انسان سمجھتے تھے۔ ان کے دلوں پر آپﷺ کی شخصیت کا بڑا گہرا اثر تھا۔ ان کے لیے آپﷺ کی بات اور آپﷺ کے واقعات وحالات کی حیثیت عام انسانی وقائع جیسی نہ تھی کہ وہ ان کو اپنے معمولی حافظے کے حوالے کردیتے۔ ان کے لیے توایک ایک لمحہ جو انھوں نے آپﷺ کی معیت میں گزارا، ان کی زندگی کا سب سے زیادہ قیمتی لمحہ تھا اوراس کی یاد کو وہ اپنا سب سے بڑا سرمایہ سمجھتے تھے۔
ثانیاً: وہ آپﷺ کی ایک ایک تقریر، ایک ایک گفتگو، اور آپﷺ کی زندگی کے ایک ایک عمل سے وہ علم حاصل کر رہے تھے جو انھیں اس سے پہلے کبھی حاصل نہ ہوا تھا۔ وہ خود جانتے تھے کہ ہم اس سے پہلے سخت جاہل اور گم راہ تھے، اور یہ پاکیزہ ترین انسان اب ہم کو صحیح علم دے رہا ہے اور مہذب انسان کی طرح جینا سکھا رہا ہے۔ اس لیے وہ پوری توجہ کے ساتھ ہر بات سنتے اور ہر فعل کو دیکھتے تھے، کیوں کہ انھیں اپنی زندگی میں عملًا اسی کا نقش پیوست کرنا تھا، اسی کی نقل اتارنی تھی، اور اس کی راہ نمائی میں کام کرنا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس شعور واحساس کے ساتھ آدمی جو کچھ دیکھتا اور سنتا ہے اسے یاد رکھنے میں وہ اتنا سہل انگار نہیں ہو سکتا جتنا وہ کسی میلے یا کسی بازار میں سنی اور دیکھی ہوئی باتیں یاد رکھنے میں ہو سکتاہے۔
ثالثاً: وہ قرآن کی رو سے بھی یہ جانتے تھے اور نبیﷺ کے بار بار متنبہ کرنے سے بھی ان کو شدت کے ساتھ اس بات کا احساس تھا کہ خدا کے نبیﷺ پر افترا کرنا بہت بڑا گناہ ہے جس کی سزا ابدی جہنم ہو گی۔ اس بِنا پر وہ حضورﷺ کی طرف منسوب کرکے کوئی بات بیان کرنے میں سخت محتاط تھے۔ صحابہ کرامؓ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی صحابی نے اپنی کسی ذاتی غرض سے یا اپنا کوئی کام نکالنے کے لیے حضورﷺ کے نام سے کبھی ناجائز فائدہ اُٹھایاہو، حتّٰی کہ ان کے درمیان جب اختلافات برپا ہوئے اور دو خوں ریز لڑائیاں تک ہو گئیں، اس وقت بھی فریقین میں سے کسی ایک شخص نے بھی کوئی حدیث گھڑ کر دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کی۔ اس قسم کی حدیثیں بعد کے ناخدا ترس لوگوں نے تو ضرور تصنیف کیں مگر صحابہؓ کے واقعات میں اس کی مثال ناپید ہے۔
رابعًا: وہ اپنے اوپر اس بات کی بہت بڑی ذمہ داری محسوس کرتے تھے کہ بعد کے آنے والوں کو حضورﷺ کے حالات اور آپﷺ کی ہدایات وتعلیمات بالکل صحیح صورت میں پہنچائیں اور اس میں کسی قسم کا مبالغہ یا آمیزش نہ کریں، کیوں کہ ان کے نزدیک یہ دین تھا اور اس میں اپنی طرف سے تغیر کر دینا کوئی معمولی جرم نہیں بلکہ ایک عظیم خیانت تھا۔ اسی وجہ سے صحابہؓ کے حالات میں اس قسم کے بکثرت واقعات ملتے ہیں کہ حدیث بیان کرتے ہوئے وہ کانپ جاتے تھے، ان کے چہرہ کا رنگ اڑ جاتا تھا، جہاں ذرہ برابر بھی خدشہ ہوتا تھا کہ شاید حضورﷺ کے الفاظ کچھ اور ہوں وہاں بات نقل کرکے اَوَکَمَا قَالَ کہہ دیتے تھے تاکہ سننے والا ان کے الفاظ کو بعینہٖ حضورﷺ کے الفاظ نہ سمجھ لے۔
خامًسا: اکابر صحابہؓ خاص طور پر عام صحابیوں کو احادیث روایت کرنے میں احتیاط کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ اس معاملے میں سہل انگاری برتنے سے شدت کے ساتھ روکتے تھے اور بعض اوقات ان سے حضورﷺ کا کوئی ارشاد سن کر شہادت طلب کرتے تھے تاکہ یہ اطمینان ہو جائے کہ دوسروں نے بھی یہ بات سنی ہے۔ اسی اطمینان کے لیے صحابیوں نے ایک دوسرے کے حافظے کا امتحان بھی لیا ہے۔ مثلاً ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ کو حج کے موقع پر حضرت عبداللّٰہ بن عمرو بن عاص سے ایک حدیث پہنچی۔ دوسرے سال حج میں ام المومنین رضی اللہ عنھا نے پھر اسی حدیث کو دریافت کرنے کے لیے ان کے پاس آدمی بھیجا۔ دونوں مرتبہ حضرت عبداللّٰہ کے بیان میں ایک حرف کا فرق بھی نہ تھا۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا واقعی عبداللّٰہؓ کو بات ٹھیک یاد ہے۔ (بخاری ومسلم)
سادسًا: حضورﷺ کی ہدایات وتعلیمات کا بہت بڑا حصہ وہ تھا جس کی حیثیت محض زبانی روایات ہی کی نہ تھی، بلکہ صحابہؓ کے معاشرے میں، ان کی شخصی زندگیوں میں، ان کے گھروں میں، ان کی معیشت اور حکومت اور عدالت میں اس کا پورا ٹھپہ لگا ہوا تھا جس کے آثار ونقوش ہر طرف لوگوں کو چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ ایسی ایک چیز کے متعلق کوئی شخص حافظے کی غلطی، یا اپنے ذاتی خیالات وتعصبات کی بِنا پر کوئی نرالی بات لا کر پیش کرتا بھی تو وہ چل کہاں سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی نرالی حدیث آئی بھی ہے تو وہ الگ پہچان لی گئی ہے اور محدثین نے اس کی نشاندہی کر دی ہے کہ اس خاص راوی کے سوا یہ بات کسی اور نے بیان نہیں کی ہے، یا اس پر عمل درآمد کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔