ان سب کے علاوہ ایک نہایت اہم بات اور بھی ہے جسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عربی زبان جانتے ہیں اورجنھوں نے محض سرسری طور پر کبھی کبھار متفرق احادیث کا مطالعہ نہیں کر لیا ہے، بلکہ گہری نگاہ سے حدیث کی پوری پوری کتابوں کو، یا کم از کم ایک ہی کتاب (مثلاً بخاری یا مسلم) کو از اول تا آخر پڑھا ہے، ان سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کی اپنی ایک خاص زبان اور آپﷺ کا اپنا ایک مخصوص انداز بیان ہے جو تمام صحیح احادیث میں بالکل یکسانیت اور یک رنگی کے ساتھ نظر آتا ہے۔ قرآن کی طرح آپ کا لٹریچر اور اسٹائل اپنی ایسی انفرادیت رکھتا ہے کہ اس کی نقل کوئی دوسرا شخص نہیں کر سکتا۔ اس میں آپﷺ کی شخصیت بولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں آپﷺ کا بلند منصب ومقام جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے آدمی کا دل یہ گواہی دینے لگتا ہے کہ یہ باتیں محمد رسول اللّٰہﷺ کے سوا کوئی دوسرا شخص کہہ نہیں سکتا۔ جن لوگوں نے کثرت سے احادیث کوپڑھ کر حضورﷺ کی زبان اور طرزِ بیان کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے، وہ حدیث کی سند کو دیکھے بغیر محض متن کو پڑھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے یا موضوع، کیوں کہ موضوع کی زبان ہی بتا دیتی ہے کہ یہ رسول اللّٰہﷺ کی زبان نہیں ہے حتّٰی کہ صحیح احادیث تک میں روایت باللفظ اور روایت بالمعنی کا فرق صاف محسوس ہو جاتا ہے، کیوں کہ جہاں راوی نے حضورﷺ کی بات کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے، وہاں آپ کے اسٹائل سے واقفیت رکھنے والا یہ بات پا لیتا ہے، کہ یہ خیال اور بیان تو حضورﷺ ہی کا ہے لیکن زبان میں فرق ہے۔
یہ انفرادی خصوصیت احادیث میں کبھی نہ پائی جا سکتی اگر بہت سے کم زور حافظوں نے ان کو غلط طریقوں سے نقل کیا ہوتا اور بہت سے ذہنوں کی کارفرمائی نے ان کو اپنے اپنے خیالات وتعصبات کے مطابق توڑا مروڑا ہوتا۔ کیا یہ بات عقل میں سماتی ہے کہ بہت سے ذہن مل کر ایک یک رنگ لٹریچر اور ایک انفرادی اسٹائل پیدا کر سکتے ہیں؟اور یہ معاملہ صرف زبان وادب کی حدتک ہی نہیں ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر دیکھیے تو نظر آتا ہے کہ طہارت جسم ولباس سے لے کر صلح وجنگ اور بین الاقوامی معاملات تک زندگی کے تمام مختلف شعبوں اور ایمان واخلاق سے لے کر علامات قیامتِ اور احوالِ آخرت تک تمام فکری اور اعتقادی مسائل میں صحیح احادیث ایک ایسا نظام فکر وعمل پیش کرتی ہیں جو اوّل سے آخر تک اپنا ایک ہی مزاج رکھتا ہے اور جس کے تمام اجزا میں پورا پورا منطقی ربط ہے۔ ایسا مربوط اور ہم رنگ نظام اور اتنا مکمل وحدانی نظام لازمًا ایک ہی فکر سے بن سکتا ہے، بہت سے مختلف ذہن مل کر اسے نہیں بنا سکتے۔ یہ ایک اور اہم ذریعہ ہے جس سے موضوع احادیث ہی نہیں مشکوک احادیث تک پہچانی جاتی ہیں۔ سند کو دیکھنے سے پہلے ایک بصیرت رکھنے والا آدمی اس طرح کی کسی حدیث کے مضمون ہی کو دیکھ کر یہ بات صاف محسوس کر لیتا ہے کہ صحیح احادیث اور قرآن مجید نے مل کر اِسلام کا جو نظام فکر اور نظامِ حیات بنایا ہے اس کے اندر یہ مضمون کسی طرح ٹھیک نہیں بیٹھتا کیوں کہ اس کا مزاج پورے نظام کے مزاج سے مختلف نظر آتا ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو فاضل جج کی یہ رائے بڑے ہی سرسری مطالعے اور نہایت ناکافی غور وتحقیق کا نتیجہ نظر آتی ہے کہ حدیث کو حافظوں کی غلطی اور مختلف ذہنوں کی کارفرمائی نے مسخ کر دیا ہے۔