یہ جن عبارتوں کا عجیب اور انتہائی مسخ شدہ خلاصہ آپ نے نکالا ہے انھیں میں لفظ بلفظ یہاں نقل کیے دیتا ہوں تاکہ جو کچھ میں نے کہا ہے، وہی اصل صورت میں سامنے آ جائے اور اس کے من مانے خلاصوں کی حاجت نہ رہے:
فن حدیث اسی تنقید (یعنی تاریخی تنقید) ہی کا دوسرا نام ہے۔ پہلی صدی سے آج تک اس فن میں یہی تنقید ہوتی رہی ہے اور کوئی فقیہہ یا محدث اس بات کا قائل نہیں رہا ہے کہ عبادات ہوں یا معاملات، کسی مسئلے کے متعلق بھی رسول اللّٰہ ﷺسے نسبت دی جانے والی کسی روایت کو تاریخی تنقید کے بغیر حجت کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔ یہ فن حقیقت میں اس تنقید کا بہترین نمونہ ہے اور جدید زمانے کی بہتر سے بہتر تاریخی تنقید کو بھی مشکل ہی سے اس پر کوئی اضافہ وترقی (improvement) کہا جا سکتا ہے، بلکہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ محدثین کے اصولِ تنقید اپنے اندر ایسی نزاکتیں اورباریکیاں رکھتے ہیں جن تک موجودہ دور کے ناقدینِ تاریخ کا ذہن بھی ابھی تک نہیں پہنچا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر میں بلا خوفِ تردید یہ کہوں گا کہ دُنیا میں صرف محمد رسول اللّٰہﷺ کی سُنّت وسیرت اور ان کے دور کی تاریخ کا ریکارڈ ہی ایسا ہے جو اس کڑی تنقید کے معیاروں پر کسا جانا برداشت کر سکتا تھا جو محدثین نے اختیار کی ہے، ورنہ آج تک دُنیا کے کسی انسان اور کسی دور کی تاریخ بھی ایسے ذرائع سے محفوظ نہیں رہی ہے کہ ان سخت معیاروں کے آگے ٹھہر سکے اور اس کو قابلِ تسلیم تاریخی ریکارڈ مانا جا سکے… تاہم! میں یہ کہوں گا کہ مزید اصلاح وترقی کا دروازہ بند نہیں ہے۔ کوئی شخص یہ دعوٰی نہیں کر سکتا کہ روایات کو پرکھنے اور جانچنے کے جو اصول محدثین نے اختیار کیے ہیں وہ حرف آخر ہیں۔ آج اگر کوئی ان کے اصول سے اچھی طرح واقفیت پیدا کرنے کے بعد، ان میں کسی خامی یا کمی کی نشاندہی کرے اور زیادہ اطمینان بخش تنقید کے لیے کچھ اصول معقول دلائل کے ساتھ سامنے لائے تو یقینا اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ ہم میں سے آخر کون نہ چاہے گا کہ کسی چیز کو رسول اللّٰہ ﷺ کی سُنّت قرار دینے سے پہلے اس کے سُنّتِ ثابتہ ہونے کا تیقُّن حاصل کر لیا جائے اور کوئی کچی پکی بات حضور ﷺ کی طرف منسوب نہ ہونے پائے۔
احادیث کے پرکھنے میں روایت کے ساتھ درایت کا استعمال بھی، جس کا ذکر فاضل مکتوب نگار (جسٹس ایس اے رحمن) نے کیا ہے، ایک متفق علیہ چیز ہے… البتہ اس سلسلے میں جو بات پیش نظر رہنی چاہیے، اور مجھے امید ہے کہ فاضل مکتوب نگار کو بھی اس سے اختلاف نہ ہو گا، وہ یہ ہے کہ درایت صرف انھی لوگوں کی معتبر ہو سکتی ہے جو قرآن وحدیث اور فقہ اِسلامی کے مطالعہ وتحقیق میں اپنی عمر کا کافی حصہ صرف کرچکے ہوں، جن میں ایک مدت کی ممارست نے ایک تجربہ کار جوہری کی سی بصیرت پیدا کر دی ہو، اور خاص طور پر جن کی عقل اِسلامی نظام فکر وعمل کے حدود اربعہ سے باہر کے نظریات، اصول اور اقدار لے کر اِسلامی روایات کو ان کے معیار پر پرکھنے کا رجحان نہ رکھتی ہو۔ بلاشبہ عقل کے استعمال پر ہم کوئی پابندی نہیں لگا سکتے، نہ کسی کہنے والے کی زبان پکڑ سکتے ہیں لیکن بہرحال یہ امر یقینی ہے کہ اِسلامی علوم سے کورے لوگ اناڑی پن کے ساتھ کسی حدیث کو خوش آئند پا کر قبول اور کسی کو اپنی مرضی کے خلاف پا کر رد کرنے لگیں، یا اِسلام سے مختلف کسی دوسرے نظامِ فکر وعمل میں پرورش پائے ہوئے حضرات یکایک اٹھ کر اجنبی معیاروں کے لحاظ سے احادیث کے رد وقبول کا کاروبار پھیلا دیں، تو مسلم ملت میں نہ ان کی درایت مقبول ہو سکتی ہے اور نہ اس ملت کا اجتماعی ضمیر ایسے بے تکے عقلی فیصلوں پر کبھی مطمئن ہو سکتا ہے۔ اِسلامی حدود میں تو اِسلام ہی کی تربیت پائی ہوئی عقل اور اِسلام کے مزاج سے ہم آہنگی رکھنے والی عقل ہی ٹھیک کام کر سکتی ہے۔ اجنبی رنگ ومزاج کی عقل، یا غیر تربیت یافتہ عقل بجز اس کے کہ انتشار پھیلائے، کوئی تعمیری خدمت اس دائرے میں انجام نہیں دے سکتی۔‘‘
(ترجمان القرآن، دسمبر ۵۸، ص ۱۶۴۔ ۱۶۶)
ان عبارات سے آپ خود ہی اپنے نکالے ہوئے خلاصے کا تقابل فرما لیں۔ آپ پر واضح ہو جائے گا کہ بات سمجھنے کی خواہش کا کتنا اچھا نمونہ آپ نے پیش فرمایا ہے۔