پیراگراف ۳۳ میں فاضل جج دو باتیں اور ارشاد فرماتے ہیں جن پر ان کے دلائل کا خاتمہ ہوتا ہے۔ ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ
بہت سی احادیث بہت مختصر اور بے ربط ہیں جنھیں پڑھ کر صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان کو سیاق وسباق اور موقع ومحل سے الگ کرکے بیان کیا گیاہے۔ ان کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور ان کا صحیح مفہوم ومدعا مشخص کرنا ممکن نہیں ہے، جب تک ان کا سیاق وسباق سامنے نہ ہو، اور وہ حالات معلوم نہ ہوں جن میں رسول پاک ﷺنے کوئی بات کہی ہے یا کوئی کام کیا ہے۔
دوسری بات وہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ کہا گیا ہے اور بجا طور پر کہا گیا ہے کہ حدیث قرآن کے احکام کو منسوخ نہیں کر سکتی، مگر کم از کم ایک مسئلے میں تو احادیث نے قرآن پاک میں ترمیم کر دی ہے اور وہ وصیت کا مسئلہ ہے۔
ان دونوں باتوں کے متعلق بھی چند کلمات عرض کرکے ہم اس تنقید کو ختم کرتے ہیں:
پہلی بات دراصل ایک ایسا تاثر ہے جو حدیث کی ملخّص کتابوں میں سے کسی کو سرسری طور پر پڑھنے سے ایک عام ناظر لیتا ہے، لیکن ذخیرۂ احادیث کے وسیع علمی مطالعے کے بعد آدمی کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اکثر وبیش تر احادیث جو کسی جگہ مختصر اور بے ربط ہیں، کسی دوسری جگہ ان کا پورا سیاق وسباق، تمام متعلقہ واقعات کے ساتھ مل جاتا ہے۔ پھر جن احادیث کے معاملے میں تفصیلات نہیں ملتیں، ان پر بھی اگر غور کیا جائے تو ان کے الفاظ خود ان کے پس منظر کی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ان کے پس منظر کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنھوں نے حدیث اور سیرت کی کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرنے کے بعد رسول اللّٰہ ﷺ کے عہد اور اس وقت کے معاشرے کی کیفیت کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ وہ ایک مختصر حدیث میں اچانک کسی قول یا کسی واقعے کا ذکر دیکھ کر بآسانی یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ بات کن حالات میں اور کس محل پر کہی گئی ہے، اور یہ واقعے کس سلسلۂ واقعات میں پیش آیا ہے۔ اس کی کچھ مثالیں اس سے پہلے اسی تنقید کے سلسلے میں بعض احادیث کی تشریح کرتے ہوئے ہم پیش کر چکے ہیں۔