حضورﷺ کے اتباع کا جو حکم قرآن میں دیا گیا ہے اس کو فاضل جج اس معنی میں لیتے ہیں کہ ’’ہم بھی ویسے ہی ایمان دار اور راست باز اور ویسے ہی سرگرم اور دیندار اور متقی بنیں جیسے حضورﷺ تھے۔‘‘ ان کے نزدیک اتباع کا یہ مفہوم ’’غیر فطری اور ناقابل عمل ہے کہ ہم بھی اسی طرح سوچیں اور عمل کریں جس طرح حضورﷺ سوچتے اور عمل کرتے تھے۔‘‘ وہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ مفہوم اگر لیا جائے تو زندگی اجیرن ہو جائے گی۔‘‘
اس کے متعلق ہم عرض کریں گے کہ اتنے بڑے بنیادی مسئلے کو بہت ہی سطحی انداز میں لے لیا گیا ہے۔ اتباع کے معنی محض صفات میں ہم رنگ ہونے کے نہیں ہیں، بلکہ طرز فکر، معیار اقدار، اصول ونظریات، اخلاق ومعاملات اور سیرت وکردار میں پیروی کرنا بھی لازمًا اس میں شامل ہے، اور سب سے زیادہ یہ کہ جہاں حضورﷺ نے استاد کی حیثیت سے دین کے کسی حکم پر عمل کرکے بتایا ہو، وہاں شاگرد کی طرح اس عمل میں آپ کی پیروی کرنا ہمارے لیے ضروری ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جس تراش خراش کا لباس آپﷺ پہنتے تھے، وہی ہم پہنیں، جس طرح کے کھانے آپؐ کھاتے تھے، وہی ہم کھائیں، جس قسم کی سواریاں آپﷺ استعمال فرماتے تھے انھی پر ہم بیٹھیں، یا جن اسلحہ سے آپﷺ جنگ کرتے تھے ان کے سوا ہم کوئی ہتھیار استعمال نہ کریں۔ اتباع کا یہ مفہوم اگر لیا جائے تو بے شک زندگی اجیرن ہو جائے، مگر امت میں آج تک کوئی ذی علم آدمی ایسا نہیں گزرا ہے جو اس معنی میں اتباع کے وجوب کا قائل ہو۔ اس کا مطلب ابتدا سے تمام مسلمانوں نے یہ سمجھا ہے کہ حضورﷺ نے اپنے قول وعمل سے اِسلامی انداز فکر اور دین کے اصول واحکام کی جو تشریح فرمائی ہے، اس میں ہم آپﷺ کی پیروی کریں۔
مثال کے طورپر اسی تعدّد ازواج کے مسئلے کو لے لیجیے جس پر فاضل جج نے اس سے پہلے شرح وبسط کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے۔ اس میں حضورﷺ کے قول وفعل سے قطعی طور پر یہ انداز فکر ظاہر ہوتا ہے کہ تعدّد ازواج فی الاصل کوئی برائی نہیں ہے جس پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہو، اور یک زوجی درحقیقت کوئی قدر مطلوب نہیں ہے جسے معیار کے طور پر نگاہ میں رکھ کر قانون سازی کی جائے۔ لہٰذا حضورﷺ کے اتباع کا تقاضا یہ ہے کہ یہی اس مسئلے میں ہمارا طرز فکر بھی ہو۔ پھر اس سلسلے میں قرآن کی ہدایات پر حضورﷺ کی اپنی حکومت میں جس طرح عمل کیا گیا وہ ان ہدایات کی صحیح ترین شرح ہے جس کی پیروی ہم کو کرنی چاہیے۔ آپ کے زمانے میں لوگوں کے معاشی حالات ہمارے موجودہ حالات سے بدرجہا زیادہ خراب تھے، مگر آپ نے کبھی اشارتًابھی ان وجوہ سے تعدد ازواج پر پابندی نہیں لگائی۔ آپﷺ نے کسی شخص سے جو دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہو یہ نہیں فرمایا کہ پہلے ثابت کرو کہ تم کو فی الواقع اس کی ضرورت ہے اور تم دو یا زائد بیویوں کا بار بھی اُٹھا سکتے ہو۔ آپ نے کسی سے نہیں پوچھا کہ کس یتیم بچے کی پرورش کے لیے تم دوسرا نکاح کرنا چاہتے ہو۔ آپ نے کسی سے نہیں کہا کہ پہلے اپنی پہلی بیوی کو راضی کرو۔ آپ کی حکومت میں یہ بات بالکل کھلے طور پر جائز تھی کہ ایک شخص اپنی مرضی کے مطابق چار تک جتنی چاہے شادیاں کرے۔ مداخلت آپ کے زمانے میں اگر کبھی ہوئی ہے توصرف اس وقت جب کہ کسی نے بیویوں کے درمیان انصاف نہیں کیا ہے۔ اب اگر ہم رسول پاکﷺ کے متبع ہیں تو ہمارا کام یہ نہیں ہونا چاہیے کہ دو تین آیتیں لے کر خود اجتہاد کرنے بیٹھ جائیں، بلکہ ہمیں لازمًا یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جس رسول پر یہ آیتیں نازل ہوئی تھیں اس نے ان کا منشا کیا سمجھا تھا اور اسے کس طرح عمل کا جامہ پہنایا تھا۔