Search
Close this search box.

مودوی سے جانیئے

ابراہیم علیہ السلام کی وراثت کے مستحق کون لوگ ہو سکتے ہیں؟

اب انھیں بتایا جا رہا ہے کہ امامت ِ ابراہیم ؑ کے نُطفے کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ اس سچّی اطاعت و فرماں برداری کا پھل ہے ، جس میں ہمارے اُن بندے نے اپنی ہستی کو گم کر دیا تھا، اور اس کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں ، جو ابراہیم ؑ کے طریقے پر خود چلیں اور دُنیا کو اس طریقے پر چلانے کی خدمت انجام دیں۔ چونکہ تم اس طریقے سے ہٹ گئے ہو اور اس خدمت کی اہلیّت پُوری طرح کھو چکے ہو، لہٰذا تمہیں امامت کے منصب سے معزُول کیا جا تا ہے۔

ساتھ ہی اشاروں اشاروں میں یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ جو غیر اسرائیلی قومیں موسیٰ اور عیسیٰ علیہماالسّلام کے واسطے سے حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ اپنے تعلق پر فخر کرتے ہیں، محض نس و نسب کے فخر کو لیے بیٹھے ہیں۔ ورنہ ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کے طریقے سے اب ان کو دُور کا واسطہ بھی نہیں رہا ہے۔ لہٰذا ان میں سے بھی کوئی امامت کا مستحق نہیں ہے۔

پھر یہ بات ارشاد ہوتی ہے کہ اب ہم نے ابراہیم ؑ کی دُوسری شاخ، بنی اسماعیل ؑ میں و ہ رسُول ؐ پیدا کیا ہے ، جس کے لیے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے دُعا کی تھی۔ اس کا طریقہ وہی ہے ، جو ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ ، اسحاق ؑ ، یعقوب ؑ اور دُوسرے تمام انبیا کا تھا۔ وہ اور اس کے پریو تمام ان پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہیں جو دنیا میں خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی راستہ کی طرف دُنیا کو بُلاتے ہیں جس کی طرف سارے انبیا دعوت دیتے چلے آئے ہیں۔ لہٰذا اب امامت کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو اس رسول کی پیروی کریں۔

تفہیم القرآن تفسیر سورة البقرة آیت 123