سوال-بخاری شریف کی تیسری حدیث میں نزول وحی اور رسول اللّٰہ ﷺ کی کیفیات کا ذکر ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول وحی کی ابتدا میں آں حضرت ﷺ پر اضطراب طاری ہوگیا تھا۔ دریافت طلب یہ امر ہے کہ حضور ﷺ گھبراے کیوں تھے؟ یہ بات کہ یہ رسالت کی ذمہ داریوں کے احساس کا نتیجہ تھا، دل کو مطمئن نہیں کرتی، ورنہ، وَرَقہ کے پاس لے جانے کے کوئی معنی نہیں بنتے۔ بعض لوگوں کا یہ اشتباہ کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام پر اس وقت اپنی رسالت کا کماحقہ وضوح نہیں ہوا تھا،کچھ بامعنی بات نہیں معلوم ہوتی۔ اگر یہ صحیح ہے تو جن کے پاس آپ یہ معاملہ لے کر گئے تھے کیا وہ ان کیفیات کے پس منظر کو حضور ﷺ سے زیادہ جانتے تھے۔ ورقہ کے یہ الفاظ ’’ھٰذا النَّامُوسُ الَّذِیْ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی مُوسٰی‘‘ ({ FR 1790 }) اس امر کے مؤید ہیں کہ واقعی حضورﷺ پراپنی رسالت کا کماحقہ وضوح نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد صورتِ حال مزید مخدوش ہوجاتی ہے۔ صحیح صورتِ حال کیا ہے؟
جواب-نزول وحی کی کیفیت کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ نبیﷺ کو اچانک اس صورت حال سے سابقہ پیش آیا تھا۔ آپ کو اس سے پہلے کبھی یہ گمان بھی نہ گزرا تھا کہ آپ ؐ نبی بناے جانے والے ہیں ۔نہ اس کی کوئی خواہش آپ کے دل کے کسی گوشے میں موجود تھی۔ نہ اس کے لیے آپ پہلے سے کوئی تیاری کررہے تھے اور اس کے متوقع تھے کہ ایک فرشتہ اوپر سے پیغام لے کر آئے گا۔آپؐ خلوت میں بیٹھ بیٹھ کر مراقبہ اور عبادت ضرور فرماتے تھے لیکن نبی بناے جانے کا کوئی تصور آپؐ کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ تھا۔
اس حالت میں جب یکایک غارِ حرا کی اس تنہائی میں فرشتہ آیا تو آپﷺ کے اوپر فطرتاً اس پہلے عظیم اور غیر معمولی تجربے سے وہی گھبراہٹ طاری ہوئی جو لامحالہ ایک بشر پر طاری ہونی ہی چاہیے،قطع نظر اس سے کہ وہ کیسا ہی عظیم الشان بشر ہو۔ یہ گھبراہٹ بسیط نہیں بلکہ مرکب نوعیت کی تھی۔ طرح طرح کے سوالات حضورﷺکے ذہن میں پیدا ہورہے تھے جنھوں نے طبع مبارک کو سخت خلجان میں مبتلا کردیا تھا۔ کیا واقعی میں نبی ہی بنایاگیا ہوں ؟ کہیں مجھے کسی سخت آزمائش میں تو نہیں ڈال دیا گیا ہے؟ یہ بار عظیم آخر میں کیسے اٹھائوں گا؟ لوگوں سے کیسے کہوں کہ میں تمھاری طرف نبی مقرر ہوا ہوں ؟ لوگ میری بات کیسے مان لیں گے؟آج تک جس معاشرے میں عزت کے ساتھ رہا ہوں ، اب لوگ میرا مذاق اڑائیں گے اور مجھے دیوانہ کہیں گے۔ اس جاہلیت کے ماحول سے آخر میں کیسے لڑ سکوں گا؟ غرض اس طرح کے نہ معلوم کتنے سوالات ہوں گے جو آپﷺ کو پریشان کررہے ہوں گے۔اسی وجہ سے آپﷺ گھرپہنچے تو کانپ رہے تھے۔ جاتے ہی فرمایا کہ مجھے اڑھا دو، مجھے اڑھا دو۔ گھر والوں نے آپ کو اڑھا دیا۔ کچھ دیر کے بعد جب ذرا دل ٹھیرا تو سیدہ خدیجہؓ کو سارا واقعہ سنایا اور فرمایا: لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِی({ FR 1799 }) ’’مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔‘‘ انھوں نے آپﷺ کو اطمینان دلایا کہ
کَلاَّ وَ اللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبدًا۔ اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ۔({ FR 1800 })
’’ ہرگز نہیں ، خدا کی قسم! آپﷺ کو اﷲ کبھی رنج نہ دے گا۔آپؐ تو رشتہ داروں کے کام آتے ہیں ،بے کسوں کی مدد کرتے ہیں ، نادار کی دست گیری کرتے ہیں ،مہمان کی تواضع کرتے ہیں اور تمام نیک کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں ۔‘‘
پھر وہ ورقہ بن نوفل کے پاس آپﷺ کو لے گئیں ،کیوں کہ وہ اہل کتاب میں سے تھے اور انبیاے سابقین کے حالات سے باخبر تھے۔ انھوں نے حضورﷺ سے کیفیت سن کر بلاتأمل تصدیق کی کہ ’’یہ وہی ناموس ہے جو حضرت موسیٰ ؑ پر آیا تھا۔‘‘ اس لیے کہ وہ بچپن سے لے کر جوانی تک آپﷺ کی انتہائی پاکیزہ سیرت سے خوب واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ یہاں پہلے سے نبوت کے دعوے کی کسی تیاری کا شائبہ تک نہیں پایا گیا ہے۔ ان دونوں باتوں کو جب انھوں نے اس واقعہ سے ملایا کہ یکایک غیب سے ایک ہستی آکر ایسے شخص کو ان حالات میں وہ پیغام دیتی ہے جو عین تعلیماتِ انبیا کے مطابق ہے تو یہ ضرور سچی نبوت ہے۔
یہ سارا قصہ ایسا فطری اور معقول ہے کہ اس صورت حال میں یہی کچھ ہونا چاہیے تھا۔ اس پر شکوک کا پیدا ہونا تو درکنار،میرے نزدیک تو یہ رسول اﷲ ﷺ کے نبی صادق ہونے کے اہم ترین دلائل میں سے ایک ہے۔اگر یہ معاملہ اس طرح پیش نہ آتا اور آپؐ یکایک حرا سے آتے ہی بڑے اطمینان کے ساتھ فرشتے کی آمد کا واقعہ مجمع عام میں سنا کر اپنی نبوت کا دعویٰ پیش فرماتے تو ایک آدمی یہ شک کرسکتا تھا کہ حضرت پہلے سے اپنے آپ کو نبوت کا اہل سمجھے بیٹھے تھے اور دور ایک غار میں بیٹھ بیٹھ کر اس کا انتظار کررہے تھے کہ کب کوئی کشف والہام ہوتا ہے۔آخر شدت مراقبہ نے ذہن کے سامنے ایک فرشتے کا نقشہ پیش کرہی دیا اور کانوں میں آوازیں بھی آنے لگیں ۔معاذ اﷲ۔ لیکن خدا کے فضل سے وہاں نبوت کا ارادہ اور اس کی خواہش اور کوشش تو درکنار،جب بالفعل وہ مل گئی تب بھی چند ساعتوں تک عالم حیرت ہی طاری رہا۔ دوسرے الفاظ میں یو ں سمجھیے کہ بے نظیر شخصیت کے مالک ہونے پر بھی وہ ذات عجب وخود پسندی سے اس درجے خالی تھی کہ جب نبوت کے منصب عظیم پر یکایک مامور کردیے گئے اس وقت بھی کافی دیر تک یہ اطمینان نہ ہوتا تھا کہ دنیا کے کروڑوں انسانوں میں سے تنہا ایک میں ہی اس قابل ہوں کہ اس منصب کے لیے ربّ کائنات کی نگاہ انتخاب میرے اوپر پڑے۔ (ترجمان القرآن،اگست ۱۹۶۰ء)