۱۔’’اگرہم اپنے نبیؐ کے بعدکسی نبی کاظہورجائزقراردیںتوگویاہم باب وحی بندہو جانے کے بعداس کاکھلناجائزقراردیںگے اوریہ صحیح نہیں‘جیساکہ مسلمانوں پر ظاہر ہے۔ اورہمارے رسول اللہ ؐکے بعدنبی کیونکرآسکتاہے درآنحالیکہ آپ کی وفات کے بعدوحی منقطع ہوگئی۔‘‘ (حمامتہ ابشریٰ مرزاغلام احمدصاحب ‘ص۳۴)
۲۔’’ظاہرہے کہ اگرچہ ایک ہی دفعہ وحی کانزول فرض کیاجائے اورصرف ایک ہی فقرہ جبرئیل لادیںاورپھرچپ ہوجائیں‘یہ امربھی ختم نبوت کے منافی ہے کیونکہ جب ختمیت کی مہرہی ٹوٹ گئی اوروحی رسالت پھرنازل ہونی شروع ہوگئی توپھرتھوڑا یابہت نازل ہونا برابرہے… اب جبرئیل کوبعدوفات رسول اللہؐ ہمیشہ کے لیے وحی نبوت لانے سے منع کیاگیاہے۔‘‘ (ازالہ اوہام‘مرزاغلام احمدصاحب ‘ص ۵۷۷)
۳۔‘‘قرآن کریم بعدخاتم النبیین رسول کاآناجائزنہیںرکھتاخواہ وہ نیاہویاپرانا کیونکہ رسول کاعلم دین بتوسط جبرئیل ملتاہے اورباب نزول جبرئیل یہ پیرایہ وحی رسالت مسدودہے اوریہ بات ممتنع ہے کہ رسول توآوے مگرسلسلہ وحی رسالت نہ ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام ‘ص۷۶۱)
۴۔’’رسول کی حقیقت اورماہیت میںیہ امرداخل ہے کہ دینی علوم کو… بذریعہ جبرئیل حاصل کرے اورابھی ثابت ہوچکاہے کہ اب وحی رسالت تاقیامت منقطع ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ‘ص۶۱۴)
۵۔’’پس یہ کس قدرجرأت اوردلیری اورگستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کر کے نصوص صریحہ قرآن کوعمداًچھوڑدیاجائے اورخاتم الانبیا کے بعدایک نبی کاآنامان لیا جائے اوربعداس کے جووحی نبوت منقطع ہوچکی تھی پھرسلسلہ وحی نبوت کاجاری کر دیا جائے۔ کیونکہ جس میںشان نبوت باقی ہے اس کی وحی بلاشبہ نبوت کی وحی ہوگی۔‘‘
(ایام صلح ‘ مرزاغلام احمدصاحب‘ص۱۴۶)