اب بحث طویل ہو جائے گی اگر ہم پہلی صدی ہجری سے لے کر اس چودھویں صدی تک کے فقہا کی تحریریں مسلسل نقل کریں۔ لیکن ہم اتنا کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مسئلہ کے جزئیات میں مذاہب اربعہ کے درمیان خواہ کتنا ہی اختلاف ہو، بہرحال بجائے خود یہ مسئلہ کہ ’’مرتد کی سزا قتل ہے‘‘ فقہ کے چاروں مذاہب میں متفق علیہ ہے۔
امام مالکؒ کا مذہب ان کی کتاب مؤطا میں یوں لکھا ہے:
’’زید بن اسلم سے مالک نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اپنا دین بدلے اس کی گردن ماردو۔ اس حدیث کے متعلق مالک نے کہا جہاں تک ہم سمجھ سکتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اسلام سے نکل کر کسی دوسرے طریقے کا پیرو ہو جائے مگر اپنے کفر کو چھپا کر اسلام کا اظہار کرتا رہے جیسا کہ زندیقوں۱؎ اور اسی طرح کے دوسرے لوگوں کا ڈھنگ ہے تو اس کا جُرم ثابت ہو جانے کے بعد اُسے قتل کر دیا جائے اور توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے کیونکہ ایسے لوگوں کی توبہ کا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ اور جو شخص اسلام سے نکل کر علانیہ کسی دوسرے طریقے کی پیروی اختیار کرے اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے،توبہ کرلے تو خیر ورنہ قتل کیا جائے۔ ‘‘ (باب القضاء فی من ارتد عن الاسلام)
حنابلہ کا مذہب ان کی مستند ترین کتاب ’’المغنی‘‘ میں اس طرح بیان ہوا ہے:
’’امام احمد بن حنبلؒ کی رائے یہ ہے کہ جو عاقل و بالغ مرد یا عورت اسلام کے بعد کفر اختیار کرے اسے تین دن تک توبہ کی مہلت دی جائے، اگر توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے۔ یہی رائے حسن بصری، زہری، ابراہیم نخعی، مکحول، حماد، مالک، لیث، اوزاعی، شافعی اور اسحاق بن راہویہ کی ہے۔ ‘‘
(جلد۱۰ ص ۷۴)
مذہب حنفی کی تصریح امام طحاوی نے اپنی کتاب شرح معانی الآثار میں اس طرح کی ہے:
’’اسلام سے مرتد ہونے والے شخص کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف اس امر میں ہے کہ آیا اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے یا نہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اگر امام اس سے توبہ کا مطالبہ کرے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ پھر اگر وہ شخص توبہ کرلے تو چھوڑ دیا جائے ورنہ قتل کر دیا جائے۔ امام ابوحنیفہ، ابویوسف اور محمد رحمۃ اللہ علیہم ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے یہ رائے اختیار کی ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ توبہ کا مطالبہ کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ ان کے نزدیک مرتد کی حیثیت حربی کافر کی سی ہے۔ جن حربی کافروں تک ہماری دعوت پہنچ چکی ہے ان کو جنگ شروع کرنے سے پیش تر اسلام کی طرف دعوت دینا غیر ضروری ہے، البتہ جنھیں دعوت نہ پہنچی ہو ان پر حملہ آور ہونے سے پہلے حجت تمام کرنی چاہیے۔ اسی طرح جو شخص اسلام سے ناواقفیت کی بنا پر مرتد ہوا ہو اس کو تو پہلے سمجھا کر اسلام کی طرف واپس لانے کی کوشش کرلینی چاہیے مگر جو شخص سوچ سمجھ کر اسلام سے نکلا ہو اسے توبہ کی دعوت دیے بغیر قتل کر دیا جائے۔ امام ابویوسف ؒ کا بھی ایک قول اسی رائے کی تائید میں ہے، چنانچہ وہ کتاب الاملاء میں فرماتے ہیں کہ مَیں مرتد کو قتل کروں گا اور توبہ کا مطالبہ نہ کروں گا، ہاں اگر وہ خود ہی جلدی کرکے توبہ کرلے تو میں اسے چھوڑ دوں گا اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے کروں گا۔‘‘ (کتاب السیر بحث استتابۃ المرتد)
مذہب حنفی کی مزید تصریح ہدایہ میں اس طرح ہے:
’’جب کوئی شخص اسلام سے پھر جائے (العیاذ باللہ) تو اس کے سامنے اسلام پیش کیا جائے۔ اگر اسے کوئی شبہ ہو تو اسے صاف کرنے کی کوشش کی جائے، کیونکہ بہت ممکن ہے وہ کسی شبہ میں مبتلا ہو اور ہم اس کا شبہ دُور کردیں تو اس کا شرایک بدتر صورت (یعنی قتل) کے بجائے ایک بہتر صورت (یعنی دوبارہ قبول اسلام)سے دفع ہو جائے۔ مگر مشائخ فقہا کے قول کے مطابق اس کے سامنے اسلام پیش کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ اسلام کی دعوت تو اس کو پہنچ چکی۔‘‘ (باب احکام المرتدین)
افسوس ہے کہ فقہ شافعی کی کوئی معتبر کتاب اس وقت میرے پاس نہیں ہے، مگر ہدایہ میں ان کا جو مذہب نقل کیا گیا ہے وہ یہ ہے:
’’امام شافعی سے منقول ہے کہ امام کو لازم ہے کہ مرتد کو تین دن کی مہلت دے اور اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس سے پہلے اسے قتل کر دے۔ کیونکہ اس مسلمان کا ارتداد بظاہر کسی شبہ ہی کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ایک مدت ضرور ہونی چاہیے جس میں اس کے لیے غور و تامل کا موقع ہو، اور ہم اس غرض کے لیے تین دن کافی سمجھتے ہیں۔‘‘ (باب احکام المرتدین)
غالباً ان شہادتوں کے بعد کسی شخص کے لیے اس امر میں شبہ کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے، اور یہ سزا نفس ارتداد کی ہے نہ کہ کسی اور جرم کی جو ارتداد کے ساتھ شامل ہوگیا ہو۔
بعض لوگ حدیث اور فقہ کی باتیں سن کر یہ سوال کیا کرتے ہیں کہ قرآن میں یہ سزا کہاں لکھی ہے؟ ایسے لوگوں کی تسلی کے لیے اگرچہ ہم نے اس بحث کی ابتدا میں قرآن کا حکم بھی بیان کر دیا ہے، لیکن اگر بالفرض یہ حکم قرآن میں نہ بھی ہوتا تو حدیث کی کثیر التعداد روایات، خلفائے راشدین کے فیصلوں کی نظیریں، اور فقہا کی متفقہ رائیں اس حکم کو ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی تھیں۔ ثبوت حکم کے لیے ان چیزوں کو ناکافی سمجھ کر جو لوگ اس کا حوالہ قرآن سے مانگتے ہیں ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ تمھاری رائے میں کیا اسلام کا پورا قانون تعزیرات وہی ہے جو قرآن میں بیان ہوا ہے؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو گویا تم کہتے ہو کہ قرآن میں جن افعال کو جرم قرار دے کر سزا تجویز کر دی گئی ہے ان کے ماسوا کوئی فعل اسلامی حکومت میں جرم مستلزمِ سزا نہ ہوگا۔ پھر ایک مرتبہ غور کرلو، کیا اس قاعدے پر تم دنیا میں کوئی حکومت ایک دن بھی کامیابی کے ساتھ چلا سکتے ہو؟ اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے، اور تم خود بھی تسلیم کرتے ہو کہ قرآن کے بیان کردہ جرائم اور سزائوں کے علاوہ اسلامی نظام حکومت میں دوسرے جرائم بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے لیے تفصیلی قانون تعزیرات کی ضرورت ہے، تو ہمارا دوسرا سوال یہ ہے کہ جو قانون نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی حکومت میں رائج تھا اور جس کو مسلسل تیرہ سو برس تک تمام امت کے جج، مجسٹریٹ اور علمائے قانون بالاتفاق تسلیم کرتے رہے ہیں، آیا وہ اسلامی قانون کہلانے کا زیادہ مستحق ہے یا وہ قانون جسے آج چند ایسے لوگ تجویز کریں جو غیر اسلامی علوم اور غیر اسلامی تہذیب و تمدن سے مغلوب و متاثر ہیں اور جن کو اسلامی علوم کی ادھوری تعلیم بھی میسر نہیں آئی ہے؟