Search
Close this search box.

رسائل و مسائل

آیتِ رجم کی تحقیق

سوال

آپ نے رسائل ومسائل حصہ دوم[سوال نمبر۲۰۴] میں ’’ نسخ قرآن‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آیتِ رجم توریت کی ہے،قرآن کی نہیں ۔‘‘ میں حیران ہوں کہ آپ نے ایک ایسی بات کا انکشاف کیا ہے جو صاف تصریحات کے خلاف ہے۔ سلف سے خلف تک تمام علماے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کی بعض آیات ایسی ہیں جن کی تلاوت تو منسوخ ہے لیکن حکم ان کا باقی ہے: وَالنَّسْخُ قَدْ یَکُوْنُ فِی التِّلَاَ وَۃِ مَعَ بَقَائِ الْحُکمِ ({ FR 2129 }) اب میں وہ دلائل عرض کروں گا جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ’’آیت رجم‘‘ جناب رسول اکرم ﷺ پراتری اور وہ قرآن کی آیت تھی: (۱)حضرت ابو ہریرہؓ اور زید بن خالدؓ کی روایت میں ہے جب دو آدمی زنا کا کیس لے کر آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’بخدا میں تمھارا فیصلہ کتاب اﷲ کے مطابق کروں گا۔‘‘ پھر آپ ؐ نے شادی شدہ زانیہ کے لیے رجم کی سزا تجویز کی۔(۲) ظاہر ہے کہ کتاب اﷲ سے مراد قرآن مجید ہے۔ (۲)حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی تقریر میں فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ نے جناب محمدﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب اتاری۔ رجم کی آیت بھی اس کتاب میں تھی جسے اﷲ نے اُتارا۔ ہم نے اس(آیت رجم) کو پڑھا، سمجھا اور یاد رکھا۔ حضور ؐ نے رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کی سزا دی۔ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد مجھے ڈر لگتا ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ کتاب اﷲمیں تو رجم کی آیت نہیں ہے اور خدا کے نازل کردہ فریضے کو چھوڑنے کی وجہ سے لوگ گمراہی میں مبتلا ہو جائیں ، حالاں کہ اﷲ کی کتاب میں رجم ثابت ہے۔‘‘ ({ FR 2036 }) (۳)سعید بن مسیب کی روایت ہے، حضرت عمرؓ نے فرمایا: خبردار، آیت رجم کا انکار کرکے ہلاکت میں نہ پڑنا کہ کوئی یہ کہہ دے کہ ہم زنا کی دونوں حدوں کو کتاب اﷲ میں نہیں پاتے۔ جناب رسول اﷲﷺ نے رجم کی سزا دی اور ہم نے بھی یہ سزا دی۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس الزام کا اندیشہ نہ ہوتا کہ عمر بن الخطاب نے کتاب اﷲ میں زیادتی کی ہے تو میں یہ آیت (قرآن میں ) لکھ دیتا: اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجُمُو ھُمَا اَلْبَتَّۃَ({ FR 1916 }) ’’بوڑھا اور بوڑھی جب زنا کریں تو دونوں کو ضرور رجم کر دو‘‘۔ بے شک یہ ایک ایسی آیت ہے جسے ہم نے پڑھا۔ (۴)علامہ آلوسیؒ نےاپنی مشہور تفسیر میں لکھا ہے: وَنَسْخُ الْاًیۃِ عَلٰی مَا ارْتَضَاہٗ بَعْضُ الْاُصُوْلِیّیْنَ۔ بَیَانُ اِنْتِھَائِ التَّعَبُّدِ بِقَرَائتِھَا کَآیۃٍ (اَلشَّیْخُ والشَّیْخَۃُ اِذَا زَنَیَا فَارْجِمُوْھُمَا نَکَالاً مِنَّ اللّٰہ وِاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ)({ FR 1917 }) احکام القرآن سے نسخ کا جو نظریہ میں نے نقل کیا ہے، وہ ذہن کو اُلجھن میں ضرور ڈالتا ہے کیونکہ جس آیت کا حکم باقی ہو، اس کے منسوخ التلاوۃ قرا ر دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ مندرجہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت رجم جناب رسول اﷲﷺ پر نازل ہوئی اور وہ قرآن کی آیت ہے۔ لیکن وہ قرآن کے مجموعے میں نہیں پائی جاتی۔ کیوں ؟ یہ ایک ناقابل حل معما ہے جس نے مجھے بے حد پریشان کررکھا ہے۔ امید ہے کہ آپ میری ان قرآنی اُلجھنوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ براہ عنایت ذرا تفصیل سے روشنی ڈالیے۔ اگر آپ میرے دلائل آپ کو اپیل کریں تو رسائل و مسائل کی مندرج عبارت کو آپ بدل دیں ۔‘‘

جواب

بلاشبہہ یہ بات متعدد روایات میں آئی ہے کہ آیت رجم قرآن کی آیت تھی۔ لیکن مجھے اس بات کو قبو ل کرنے سے جن وجوہ سے تأمل ہے،وہ یہ ہیں :۔
۱۔ جن روایات میں اس آیت کا ذکر آیا ہے،ان کوجمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت کے الفاظ میں نمایاں اختلاف ہے۔کسی میں البتۃ کا لفظ ہے اور کسی میں نہیں ہے۔ کسی میں البتۃ پر آیت ختم ہوگئی ہے، کسی میں البتۃ کے بعد نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ({ FR 2037 }) کے الفاظ ہیں ، اور کسی میں اس کے بجاے بِمَا قَضَیَا مِنَ اللَّذَّۃِ ({ FR 2038 })کے الفاظ۔ اگر یہ واقعی قرآن کی آیت تھی، لوگوں کو یاد تھی اور سزاے رجم کے حق میں نص کی حیثیت رکھتی تھی تو اس کے الفاظ نقل کرنے میں یہ اختلاف کیسا ہے؟
۲۔ سنت سے جو حکم بتواتر ِ معنی ثابت ہے وہ کچھ اور ہے اور آیت کے صریح الفاظ سے جو حکم نکلتا ہے وہ کچھ اور۔ سنت سے جو چیز ثابت ہے وہ تو یہ ہے کہ شادی شدہ مرد یا عورت جب زنا کا ارتکاب کرے تو اسے رجم کیا جائے خواہ وہ جوان ہو یا سن رسیدہ۔ بخلاف اس کے آیت سے جو حکم نکلتا ہے،وہ یہ ہے کہ بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت سے جب زنا کاصدور ہو تو اس کو رجم کیا جائے، خواہ وہ شادی شدہ ہو، یا نہ ہو۔ اس طرح یہ روایات سنت ثا بتہ قطعیہ کے خلاف پڑتی ہیں ۔ اس مشکل کو رفع کرنے کے لیے بعض بزرگوں نے شیخ کو ثیب اور شیخہ کو ثیبہ کا ہم معنی قرار دینے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ قطعاً ایک من مانی تأویل ہے۔ عربی زبان کی لغت،محاورات،استعمالات، حتیٰ کہ استعارات وکنایات تک میں اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ شیخ اور شیخہ کے الفاظ سے ثیب اور ثیبہ مراد لیے جاسکیں ۔
۳۔ خود آیت کے الفاظ اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ اِذَازَنَیَا فَارْ جُمُوْ ھُمَا اَلْبَتَّۃَ قرآن کے معیار فصاحت سے اس قدر فرو تر ہیں کہ ذوق زبان یہ باور نہیں کرتا کہ اﷲتعالیٰ نے یہ الفاظ قرآ ن میں نازل فرمائے ہوں گے۔
۴۔ کوئی مرفوع روایت ایسی موجود نہیں ہے جو یہ بتاتی ہو کہ نبیؐ نے اس کی تلاوت منسوخ کرنے اور مصحف سے اس کو خارج کردینے یا اس میں درج نہ کرنے کا حکم دیا ہو۔
۵۔ یہودیوں کے ہاں زنا کا جو مقدمہ پیش ہوا تھا،اس کا فیصلہ کرتے ہوئے حضورﷺ نے تورات منگوائی تھی اور اس کی آیت کو فیصلہ ٔ رجم کی بنا قرار دیا تھا۔ مسلم اور ابو دائود میں ہے کہ حضورؐ نے اس مقدمے میں رجم کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَوَّلُ مَنْ اَحْیَا اَمْرَکَ إذْ اَمَاتُوْہٗ ({ FR 1918 }) ’’خدایا! میں پہلا شخص ہوں جو تیرے حکم کو زندہ کررہا ہوں جب کہ انھوں نے اسے مردہ کردیا تھا۔‘‘
۶۔ جس مقدمے میں حضورﷺ نے یہ فرما کر رجم کا فیصلہ صادر کیا تھا کہ ’’بخدا میں تمھارا فیصلہ کتاب اﷲ کے مطابق کروں گا‘‘ اس میں کہیں یہ مذکور نہیں ہے کہ حضورﷺ نے آیت اَلشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ کا حوالہ دیا ہو اور فرمایا ہو کہ یہ ہے کتاب اﷲ کا فیصلہ، اور اس کی تلاوت اگرچہ منسوخ ہے مگر اس کا حکم باقی ہے۔ لہٰذا حضورﷺکا مذکورہ بالا ارشاد لازماً اسی آیت کی طرف اشارہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی یہ تأویل بھی ممکن ہے کہ کتاب اﷲ کی رو سے چوں کہ آپؐ حاکم مجاز تھے، اس لیے آپﷺ کا فیصلہ کتاب اﷲ ہی کا فیصلہ ہے۔ اور اس کی یہ تأویل بھی ممکن ہے کہ یہودیوں کے مقدمے میں آپﷺ نے تورات کے مطابق رجم کا جو حکم دیا تھا، اس کی توثیق بعد میں اﷲ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں فرما دی تھی۔ براء بن عازبؓ کی روایت ہے کہ اسی مقدمے کے متعلق سورۂ المائدہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جو یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ… سے لے کر وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (المائدہ:۴۷) پر تمام ہوتی ہیں ۔ ({ FR 2039 })
۷۔ زنا بعد احصان کے لیے رجم کا قانون اپنے ثبوت کے لیے اس آیت کا محتاج نہیں ہے۔اسے ثابت کرنے کے لیے بجاے خود یہ بات ہی کافی ہے کہ نبی ﷺ نے یہ حکم بیان فرمایا اور متعدد مقدمات میں اس کے مطابق فیصلہ کیا۔ پھر آپ ؐ کے بعد خلفاے راشدینؓ اسی پر عمل کرتے رہے اور ان کے بعد تمام فقہااور محدثین اس پر متفق رہے۔ یہ چیز جب ایک قانون کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے تو پھر ایک ایسی منسوخ التلاوۃ آیت ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے جو اگر ثابت ہو بھی جائے تو اس قانون کے لیے حجت نہیں بن سکتی۔ اس لیے کہ یہ آیت رجم کی علت بڑھاپے میں زنا کے ارتکاب کو قرار دے رہی ہے اور جس قانون کے لیے اس کو حجت ٹھیرایا جاتا ہے، اس میں علتِ رجم شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا ارتکاب کرنا ہے۔
۸۔ یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ اس آیت کی صرف تلاوت منسوخ ہوئی ہے اور اس کا حکم باقی رہ گیا ہے۔ کیوں کہ جو حکم باقی رہا ہے،وہ یہ نہیں ہے کہ بوڑھا اور بوڑھی اگر غیر شادی شدہ ہوں تو رجم کیے جائیں ۔بلکہ باقی رہنے والا حکم اس کے بالکل برعکس یہ ہے کہ غیر شادی شدہ مجرم اگر بوڑھا بھی ہو تو کوڑوں کی سزا کا مستحق ہے اور شادی شدہ مجرم اگر جوان بھی ہو تو اسے رجم کرنا چاہیے۔
اس سلسلے میں علامہ ابن ہمامؒ کی یہ راے بھی قابل غور ہے جسے علامہ آلوسیؒ نے روح المعانی میں نقل کیا ہے:
’’یہ کہنا کہ(زانی محصن کے حق میں سورۂ النور کی آیت اَلزَّانِیَۃُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ کے حکم کو منسوخ کرنے والی چیز سنت قطعیہ ہے، زیادہ صحیح ہے، بہ نسبت اس کے کہ آیت مذکورہ (الشیخ والشیخۃ) کو اس کا ناسخ قرار دیا جائے۔اس لیے کہ یہ بات قطعی طورپر ثابت نہیں ہے کہ یہ آیت قرآن میں نازل ہوئی تھی پھر اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی۔ اگر حضرت عمرؓ نے خطبے میں اس کا ذکر کیا اور لوگ خاموش رہے( جیسا کہ روایات میں بیان کیا جاتا ہے) تو یہ اس کاقطعی ثبوت نہیں ہے۔کیوں کہ اجماع سکوتی کا حجت ہونا مختلف فیہ ہے۔ اور وہ حجت ہو بھی تو ہم قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمام مجتہد صحابہؓ اس موقع پر موجود تھے۔ پھر اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت عمرؓ کی طرف اس روایت کی نسبت بھی ظنی ہے۔ اور یہی وجہ ہے ،و اﷲ اعلم،کہ حضرت علی ؓ نے جب شُراحہ کو جلد اور رجم کی سزا دی تو کہا کہ میں نے اس کو کتاب اﷲ کے مطابق کوڑے لگوائے ہیں اور سنت رسول اﷲﷺ کے مطابق رجم کرایا ہے۔اس قول میں حضرت علی ؓ نے رجم کے لیے منسوخ التلاوت آ یت قرآنی کو حجت میں پیش نہیں فرمایا۔‘‘({ FR 2040 })
رہا نسخ تلاوت مع بقا الحکم کا مسئلہ، تو اس میں شک نہیں کہ علماے اُصول نسخ کی اس قسم کا ذکر کرتے ہیں ۔ مگر میں اعتراف کرتا ہوں کہ انتہائی غور کرنے پر بھی میں اس مسئلے کو نہیں سمجھ سکا ہوں ۔ نسخ تلاوت کے لیے اگر موزوں ہوسکتی تھیں تو وہ آیتیں جن کا حکم منسوخ ہوچکا ہو نہ کہ کوئی ایسی آیت جس کا حکم باقی ہو۔ کوئی صاحب علم بزرگ اس مسئلے پر تشفی بخش بحث فرمائیں تو شکریے کے مستحق ہوں گے۔ (ترجمان القرآن، نومبر۱۹۵۵ء)
نظریۂ نسخ آیت مع بقاے حکم پر استدراک
(رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ ماہ نومبر ۱۹۵۵کے عنوان ’’رسائل و مسائل‘‘ کے تحت آیت رجم اور نظریۂ نسخ آیت مع بقاے حکم‘‘ (دیکھیے سوال نمبر ۳۲۷آیت رجم کی تحقیق) کے متعلق جو جواب تحریر کیا گیا تھا، اسے دیکھ کر ایک صاحب نے ذیل کا مکتوب ارسال فرمایا تھا، جو ان کے حسبِ ارشاد شائع کیا جارہا ہے)
’’جواب میں جو عقلی و نقلی مواد آپ نے پیش کیا ہے، وہ ایک سمجھ دار اور منصف مزاج آدمی کے لیے نہایت تسلی بخش ہے۔ مگر چوں کہ آپ نے دیگر اصحاب علم سے بھی اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالنے کا مطالبہ فرمایا ہے، اس لیے حسب الارشاد چند مختصر گزارشات درج ذیل ہیں :
(۱) نسخ آیت مع بقاے حکم کا نظریہ بعض اصولیوں کی انفرادی راے ہے نہ کہ تمام اہل سنت کا متفقہ عقیدہ، جیسا کہ آپ کے پیش کردہ حوالے سے ثابت ہوتا ہے۔ یعنی وَنَسْعُ الآیَۃِ مَا ارْتَضَاہُ بَعْضَ الْاُصُولِیِیْنَ ({ FR 2162 }) ایسی صورت میں سائل کا یہ کہنا کہ ’’سلف سے خلف تک تمام علماے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کی بعض آیات ایسی ہیں جن کی تلاوت تو منسوخ ہے لیکن حکم ان کا باقی ہے‘‘ محض ایک دعویٰ بلا دلیل بلکہ غلط بیانی ہے۔ کیوں کہ بعض اصولیوں کے کسی خاص نظریے سے کل علماے اہل سنت کا عقیدہ لازم نہیں آتا۔
(۲) رہی یہ بات کہ آیا بعض اصولیوں کا یہ نظریہ صحیح ہے یا غلط؟ سو واضح ہو کہ یہ نظریہ عقلاً و نقلاً باطل ہے۔
(الف) عقلاً تو اس لیے باطل ہے کہ جو چیز قرآن کا جز ہی نہ ہو، اس کو قرآنی حکم ماننا سراسر مہمل بلکہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ یہ ایسا ہی ایک بے بنیاد تخیل ہے جیسا کہ قرآن کے چالیس پارے ہونے کا۔
(ب) نقلاً اس لیے کہ اس نظریے سے تنقیص قرآن لازم آتی ہے۔ کیوں کہ ایک باقی الحکم آیت کا قرآن میں نہ پایا جانا قرآن کے ناقص اور ادھورا ہونے کو مستلزم ہے۔ حالاں کہ قرآن مجید کی تنقیص بالاتفاق کفر اور آیت اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدہ:۳)کے صریحاً خلاف ہے۔
(۳) زنا کے متعلق شریعت کا حکم اور قانون یہ ہے کہ غیر شادی شدہ زانی یا زانیہ کو سو کوڑے لگائے جائیں خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان، اور شادی شدہ زانی یا زانیہ کو سنگ سار کیا جائے، خواہ وہ جوان ہوں یا بوڑھے۔ یہ ایک مشہور اجماعی قانون ہے جو سنت نبویؐ، سنت خلفاے راشدین اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ بلکہ غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کی سزا قرآن سے بھی ثابت ہے۔ کیوں کہ آیت اَلزَّانِيَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا (النور:۲) میں دلیل سنت قطعیہ الف لام عہد خارجی ہے۔ جس سے مراد صرف غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ ہی ہیں ۔ ایسے مشہور و معروف اور اجماعی قانون شریعت کے مقابلے میں اوّل تو سائل کی پیش کردہ حضرت عمرؓ والی تقریر ہی درایتاً ساقط الاعتبار ہے، کیوں کہ حضرت عمرؓ جیسے اعلیٰ مجتہد شریعت کی طرف ایسے مشہور و اجماعی قانون کی خلاف ورزی کا منسوب کرنا ہی بعید از قیاس ہے۔ اگر بالفرض اس نسبت کو صحیح تسلیم بھی کرلیا جائے تو ایک مشہور اجماعی قانون کے مقابلے میں حضرت عمرؓ کی یہ راے ’’ان کی ایک انفرادی اور اجتہادی راے قرار پائے گی، جو کسی غیر نبی کے بارے میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔‘‘ اَلْمُجْتَھِدُ یُخْطِیُٔ وَیُصِیْبُ۔({ FR 2163 }) (ترجمان القرآن، فروری ۱۹۵۶ئ)