یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اسلامی طرز پر تربیت دیں۔ ہماری نسلیں اس لحاظ سے بڑی بدقسمت ہیں کہ گھروں کے اندر کبھی قرآن کی آواز ان کے کانوں میں نہیں پڑتی اور نہ وہ اپنی آنکھوں سے گھر کے لوگوں کو کبھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ہم اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ بچپن میں ہم اپنے گھروں میں قرآن کی آواز سنتے تھے اور اپنے بڑوں کو نماز پڑھتے دیکھتے تھے۔ ہمارے گرد وپیش بہرحال کچھ نہ کچھ آثار دین کے باقی تھے لیکن موجودہ نسل کی یہ بدقسمتی انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ گھروں کی جس فضا میں وہ پرورش پا رہی ہے اس میں نہ قرآن کی آواز کبھی گونجتی ہے، نہ نماز کا منظرکبھی سامنے آتا ہے۔ اگر ہمارے گھروں کا یہی حال رہا اور نسلیں اسی طرح غلط تربیت حاصل کرتی رہیں تو جب زندگی کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں آئے گی اس وقت شائد اسلام کا نام بھی باقی نہ رہ سکے گا۔ آپ اب اس صورت حال کو ختم کریں اور اس فکر میں لگ جائیں کہ گھروں کی معاشرت میں، روزہ مرہ کے رہن سہن میں، زندگی کے مختلف معمولات میں اسلام نمودار ہو، اور وہ ہمارے بچوں کوآنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا نظرآئے۔ بچے اسے دیکھیں، اس کا مزہ چکھیں اور اس سے اثر قبول کریں۔ ان کے کانوں میں بار بار قرآن کی آواز پڑے۔ وہ دن میں پانچ مرتبہ گھر میں نماز کا منظر دیکھیں، پھر وہ اپنی فطرت کے تحت اپنے بڑوں کی تقلید کریں، اور انہیں نماز پڑھتا دیکھ کر خود بخود ان کی نقل اتاریں۔ وہ توحید کا پیغام سنیں، وہ عبادت کا مُدعا سمجھیں، اسلام کا نقش ان کے دلوں پر پائم ہو، ان کی عادات درست ہوں، ان کے اندر اسلامی ذوق پیدا ہو۔ نئی نسل کے لیے یہ سب کچھ ہمیں درکار ہے، پس وہ تمام عورتیں جو اسلام کو قبول کریں انہیں چاہیے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی گودوں اوراپنے گھروں کو مسلمان بنائیں، تاکہ ان میں ایک مسلمان نسل پروان چڑھ سکے۔