Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اِسلام اور عدلِ اجتماعی
باطل حق کے بھیس میں
فریبِ اوّل: سرمایہ داری اور لادینی جمہوریت
فریبِ دُوُم… اجتماعی عدل اور اشتراکیت
تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ذہنی غلامی کی انتہا
عدالتِ اجتماعیہ کی حقیقت
اسلام ہی میں عدالتِ اجتماعیہ ہے
عدل ہی اسلام کا مقصود ہے
عدلِ اجتماعی
اِنسانی شخصیت کی نشوونما
انفرادی جواب دہی
اِنفرادی آزادی
اجتماعی ادارے اوراُن کا اقتدار
سرمایہ داری اور اشتراکیت کی خامیاں
اشتراکیت ظُلمِ اجتماعی کی بدترین شکل ہے
عدلِ اسلامی
آزادیٔ فرد کے حدود
اِنتقالِ دولت کی شرائط
تصرُّفِ دولت پر پابندیاں
معاشرتی خدمت
استیصالِ ظلم
مصالح عامہ کے لیے قومی ملکیت کے حدود
بیت المال میں تصرُّف کی شرائط
ایک سوال

اسلام اور عدلِ اجتماعی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

آزادیٔ فرد کے حدود

اسلام میں اللّٰہ تعالیٰ نے خود وُہ حدود قائم کر دیے ہیں جن میں افراد کی آزادی کو محدود ہونا چاہیے۔ اس نے خود متعین کر دیا ہے کہ ایک فردِ مسلم کے لیے کون کون سے افعال حرام ہیں جن سے اسے بچنا چاہیے اور کیا کچھ اس پر فرض ہے جسے اسے ادا کرنا چاہیے۔ کیا حقوق اس کے دوسروں پر ہیں اورکیا حقوق دوسروں کے اس پر ہیں۔ کن ذرائع سے ایک مال کی ملکیت کا اس کی طرف منتقل ہونا جائز ہے اور کون سے ذرائع ایسے ہیں جن سے حاصل ہونے والے مال کی ملکیت جائز نہیں ہے۔ افراد کی بھلائی کے لیے معاشرے پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں اور معاشرے کی بھلائی کے لیے افراد پر، خاندانوں اوربرادریوں پر اور پوری قوم پر کیا پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں اور کیا خدمات لازم کی جا سکتی ہیں۔ یہ تمام اُمور کتاب وسنت کے اُس مستقل دستور میں ثبت ہیں جس پر کوئی نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے اور جس میں کسی کو کمی بیشی کر دینے کا حق نہیں ہے۔ اس دستور کی رو سے ایک شخص کی انفرادی آزادی پر جو پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں ان سے تجاوز کرنے کا تو وُہ حق نہیں رکھتا، لیکن ان حدود کے اندر جو آزادی اسے حاصل ہے اسے سلب کر لینے کا بھی کسی کو حق نہیں ہے۔ کسبِ اَموال کے جن ذرائع اور صرفِ مال کے جن طریقوں کو حرام کر دیا گیا ہے اُن کے وُہ قریب نہیں پھٹک سکتا اور پھٹکے تو اسلامی قانون اسے مستوجب سزا سمجھتا ہے، لیکن جو ذرائع حلال ٹھہرائے گئے ہیں ان سے حاصل ہونے والی ملکیت پر اس کے حقوق بالکل محفوظ ہیں اور اس میں تصرف کے جو طریقے جائز کیے گئے ہیں ان سے کوئی اُسے محروم نہیں کر سکتا۔ اسی طرح معاشرے کی فلاح کے لیے جو فرائض افراد پرعائد کر دیے گئے ہیں۔ اُن کے ادا کرنے پر تو وُہ مجبور ہے۔ لیکن اس سے زائد کوئی بار جبرًا اس پر عائد نہیں کیا جا سکتا، اِلّا یہ کہ وُہ خود رضاکارانہ ایسا کرے اور یہی حال معاشرے اور ریاست کا بھی ہے کہ افراد کے جو حقوق اس پر عائد کیے گئے ہیں انھیں ادا کرنا اس پر اُتنا ہی لازم ہے جتنا افراد سے اپنے حقوق وصول کرنے کے اسے اختیارات ہیں۔ اس مستقل دستور کو اگر عملاً نافذ کر دیا جائے تو ایسا مکمل عدلِ اجتماعی قائم ہوتا ہے جس کے بعد کوئی شے مطلوب باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ دستور جب تک موجود ہے اس وقت تک کوئی شخص خواہ کتنی ہی کوشش کرے، مسلمانوں کو ہرگز اس دھوکے میں نہیں ڈال سکتا کہ جو اشتراکیت اُس نے کسی جگہ سے مستعار لے لی ہے وہی عین اسلام ہے یا وُہ اسلامی سوشلزم ہے۔
اسلام کے اس دستور میں فرد اور معاشرے کے درمیان ایسا توازن قائم کیا گیا ہے کہ نہ فرد کو وُہ آزادی دی گئی ہے جس سے وُہ معاشرے کے مَفاد کو نقصان پہنچا سکے اور نہ معاشرے کو یہ اختیارات دیے گئے ہیں کہ وُہ فرد سے اس کی وُہ آزادی سلب کر سکے جو اس کی شخصیت کی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔

شیئر کریں