اسلام میں اللہ تعالیٰ نے خود وہ حدود قائم کر دیئے ہیں جن میں افراد کی آزادی کو محدود ہونا چاہیے۔ اس نے خود متعین کر دیا ہے کہ ایک فردِ مسلم کے لیے کون کون سے افعال حرام ہیں جن سے اس کو بچنا چاہیے اور کیا کچھ اس پر فرض ہے جسے اس کو ادا کرنا چاہیے۔ کیا حقوق اس کے دوسرے پر ہیں اور کیا حقوق دوسروں کے اس پر ہیں۔ کن ذرائع سے ایک مال کی ملکیت کا اس کی طرف منتقل ہونا جائز ہے اور کون سے ذرائع ایسے ہیں جن سے حاصل ہونے والے مال کی ملکیت جائز نہیں ہے۔ افراد کی بھلائی کے لیے معاشرے پر کیا فرائض عائد ہوتے ہیں اور معاشرے کی بھلائی کے لیے افراد پر، خاندانوں اور برادریوں پر اور پوری قوم پر کیا پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں اور کیا خدمات لازم کی جاسکتی ہیں۔ یہ تمام امور کتاب و سنت کے اس مستقل دستور میں ثبت ہیں جس پر کوئی نظرثانی کرنے والا نہیں ہے اور جس میں کسی کو کمی و بیشی کر دینے کا حق نہیں ہے۔ اس دستور کی رو سے ایک شخص کی انفرادی آزادیوں پر جو پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں ان سے تجاوز کرنے کا تو وہ حق نہیں رکھتا، لیکن ان حدود کے اندر جو آزادی اس کو حاصل ہے اسے سلب کر لینے کا بھی کسی کو حق نہیں ہے۔ کسبِ اموال کے جن ذرائع اور صرفِ مال کے جن طریقوں کو حرام کر دیا گیا ہے ان کے وہ قریب نہیں پھٹک سکتا اور پھٹکے تو اسلامی قانون اسے مستوجبِ سزا سمجھتا ہے۔ لیکن جو ذرائع حلال ٹھیرائے گئے ہیں ان سے حاصل ہونے والی ملکیت پر اس کے حقوق بالکل محفوظ ہیں اور اس میں تصرف کے جو طریقے جائز کیے گئے ہیں ان سے کوئی اس کو محروم نہیں کرسکتا۔ اسی طرح معاشرے کی فلاح کے لیے جو فرائض افراد پر عائد کر دیئے گئے ہیں ان کے ادا کرنے پر تو وہ مجبور ہے۔ لیکن اس سے زائد کوئی بارجبراً اس پر عائد نہیں کیا جاسکتا، الایہ کہ وہ خود رضاکارانہ ایسا کرے۔ اور یہی حال معاشرے اور ریاست کا بھی ہے کہ افراد کے جو حقوق اس پر عائد کیے گئے ہیں انہیں ادا کرنا اس پر اتنا ہی لازم ہے جتنا افراد سے اپنے حقوق وصول کرنے کے اسے اختیارات ہیں۔ اس مستقل دستور کو اگر عملاً نافذ کر دیا جائے تو ایسا مکمل عدلِ اجتماعی قائم ہوتا ہے جس کے بعد کوئی شے مطلوب باقی نہیں رہ جاتی۔ یہ دستور جب تک موجود ہے اس وقت تک کوئی شخص خواہ کتنی ہی کوشش کرے، مسلمانوں کو ہر گز اس دھوکے میں نہیں ڈال سکتا کہ جو اشتراکیت اس نے کسی جگہ سے مستعار لے لی ہے وہی عین اسلام ہے یا وہ ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ہے۔
اسلام کے اس دستور میں فرد اور معاشرے کے درمیان ایسا توازن قائم کیا گیا ہے کہ نہ فرد کو وہ آزادی دی گئی ہے جس سے وہ معاشرے کے مفاد کو نقصان پہنچا سکے۔ اور نہ معاشرے کو یہ اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ فرد سے اس کی وہ آزادی سلب کرسکے جو اس کی شخصیت کے نشوونما کے لیے ضروری ہے۔