Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسئلۂ تعدد ازواج
اصل قانون
غلط مفروضہ
تاویل نمبر ۱
تاویل نمبر۲
تاویل نمبر ۳
تاویل نمبر۴
تاویل نمبر ۵
تاویل نمبر ۶
غلط تاویلات کی اصل وجہ
نئی نئی شرطیں
آخری سہارا
دو ٹوک بات

مسئلہ تعدد ازواج

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

آخری سہارا

ان تمام غلط تاویلات اور من گھڑت شرطوں کے بعد آخری سہارا اس واقعے سے لیا جاتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دوسری شادی کرنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس سے روک دیا۔ اس واقعے سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ دوسری شادی کرنا فی الواقع ایک بُری بات ہے، اسی لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اس سے روک دیا۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ دلیل لائی جاتی ہے کہ ایک شخص کا نکاح ثانی اس کی بیوی اور سسرال والوں کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے، اسی لیے تو حضورؐ نے خود اپنی بیٹی پر سوکن کا آنا گوارا نہ فرمایا۔ لہٰذا اگر حضورؐ کی تقلید میں تمام لوگوں کو تعددِ ازواج سے روک دیا جائے تو آخر مضائقہ کیا ہے۔ یہ توعین سنت ِ رسول کی پیروی ہوگی۔
اب ذرا اصل واقعے کو دیکھیے جسے اسلام کے پورے قانونِ تعددِ ازواج پر خط ِنسخ پھیر دینے کے لیے بہانہ بنایا جارہا ہے۔
تفصیل اس قصے کی یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ابوجہل کا خاندان مسلمان ہوگیا تو حضرت علیؓ نے اس کی بیٹی سے (جس کا نام کسی نے جویریہ، کسی نے غوراء اور کسی نے جمیلہ بیان کیا ہے) نکاح کرنا چاہا۔ لڑکی کے خاندان والوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی پر بیٹی نہ دیں گے جب تک آپؐ سے پوچھ نہ لیں۔ چنانچہ انہوں نے اس کا ذکر حضورؐ سے کیا۔ ایک روایت کی رُو سے خود حضرت علیؓ نے بھی اشارتاً کنایتاً حضورؐ سے اجازت طلب کی، اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس معاملے کا چرچا سن لیا اور جاکر اپنے والد ماجد سے اس کی شکایت کی۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا:
ان بنی ھشام بن المغیرۃ استاذ نونی ان ینکحوا ابنتھم علی ابن ابی طالب فلا اٰذن،ثم لا اٰذن، ثم لا اٰذن الا ان یرید ابن ابی طالب ان یطلق ابنتی و ینکج ابنتھم فانما ھی بضعۃ من یریبنی ما ارابھا و یوذینی ما اٰذا ھا۔
و انی لست احرامًا حلالا ولا احل حراماً ولکن و اللہ لا تجتمع بنت رسول اللہ و بنت عدو اللہ ابدًا (و فی روایۃ) ان فاطمۃ منی و انا اتخوف ان تفتن فی دینھا۔
بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اس بات کی اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی علی ابن ابی طالب کے نکاح میں دیں۔ میں اس کی اجازت نہیں دیتا، نہیں دیتا، نہیں دیتا، الایہ کہ ابوطالب کا بیٹا میری لڑکی کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے نکاح کرلے۔ میری لڑکی میرا ٹکڑا ہے، جو کچھ اسے ناگوار ہوگا وہ مجھے ناگوار ہوگا۔ اور جو چیز اسے تکلیف دے گی وہ مجھے تکلیف دے گی۔
میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرتا۔ مگر خدا کی قسم! اللہ کے رسولؐ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔ (ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا) فاطمہ مجھ سے ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ وہ اپنے دین کے معاملے میں کہیں فتنے میں نہ پڑ جائے۔
اس واقعے پر آدمی کو یہ شبہ لاحق ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی بہت سی شادیاں کیں اور عام لوگوں کو بھی چار تک بیویاں بیک وقت رکھنے کی اجازت دی، مگر خود اپنی بیٹی پر ایک سوکن کا آنا بھی آپ نے گوارا نہ کیا۔ سوکن کے آنے سے جو اذیت آپؐ کی بیٹی کو اور بیٹی کی خاطر خود آپؐ کو ہوسکتی تھی، وہی اذیت دوسری عورتوں اور ان کے ماں باپ کو بھی تو لاحق ہوتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپؐ نے اپنے حق میں تو اسے برداشت نہ کیا اور دوسروں کے حق میں اسے جائز رکھا۔
بظاہر یہ ایک سخت اعتراض ہے اور معاملے کی سادہ صورت دیکھ کر آدمی بڑی الجھن میں پڑ جاتا ہے۔ لیکن تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہ بات ناقابل انکار ہے کہ ایک عورت کا شوہر اگر دوسری بیوی لے آئے تو اس عورت کو فطرتاً ناگوار ہوتا ہے اور اس کے ماں باپ، بھائی بہن اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس سے اذیت ہوتی ہے۔ شریعت نے ایک سے زیادہ نکاحوں کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی ہے کہ یہ چیز اس عورت کو اور اس کے رشتہ داروں کو ناگوار نہیں ہوتی جس پر سوکن آئے، بلکہ اس امر واقعہ کو جانتے ہوئے شریعت نے اسے اس لیے حلال کیا ہے کہ دوسری اہم تر اجتماعی اور معاشرتی مصلحتیں اس کو جائز کرنے کی متقاضی ہیں۔ شریعت یہ بھی جانتی ہے کہ سوکنیں بہرحال سہیلیاں اور شوہر شریک بہنیں بن کر نہیں رہ سکتیں۔ ان کے درمیان کچھ نہ کچھ کش مکش اور چپقلش ضرور ہوگی اور خانگی زندگی تلخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے گی۔ لیکن یہ انفرادی قباحتیں اس عظیم تر اجتماعی قباحت سے کم تر ہیں جو یک زوجی کو بطور قانون لازم کر دینے سے پورے معاشرے میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شریعت نے تعددِ ازواج کو حلال قرار دیا ہے۔
اب دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں کیا پیچیدگی واقع ہوتی ہے۔ شرعاً آپ کی بیٹی پر بھی سوکن لانا آپ کے داماد کے لیے حلال تھا۔ اسی وجہ سے حضرت علیؓ نے ایسا کرنے کا ارادہ کیا، اور اسی وجہ سے حضورؐ نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لیے یہ فعل حرام ہے، بلکہ آپ نے خود تصریح فرمائی کہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا۔ لیکن یہاں حضورؐ کی ایک ہی شخصیت میں دو مختلف حیثیتیں جمع تھیں۔ ایک حیثیت میں آپؐ انسان تھے اور فطرتاً یہ ممکن نہ تھا کہ آپ کی صاحب زادی کے گھر میں سوکن آنے سے جو تلخی پیدا ہو اس کا تھوڑا یا بہت اثر آپؐ کی طبیعت پر نہ پڑے۔ دوسری حیثیت میں آپؐ اللہ کے رسول تھے اور رسول کی حیثیت سے آپؐ کا مقام یہ تھا کہ آپؐ کے ساتھ اگر کسی شخص کے تعلقات خراب ہو جائیں اور کوئی شخص آپؐ کے لیے موجب اذیت بن جائے تو اس کے دین و ایمان کی بھی خیر نہ تھی۔ اسی وجہ سے حضورؐ نے حضرت علیؓ کو بھی اور بنی ہشام بن مغیرہ کو بھی اس کام سے روک دیا۔ کیونکہ اگرچہ شرعاً یہ حلال تھا مگر اس کے کرنے سے یہ اندیشہ تھا کہ یہ چیز حضرت علیؓ اور ان کی دوسری بیوی اور اس کے خاندان والوں کے ایمان اور ان کی عاقبت کو خطرے میں ڈال دے گی۔
ایک اور بات جس کا حضورؐ نے اپنے خطبے میں ذکر فرمایا وہ یہ تھی کہ بنی ہشام بن مغیرہ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدترین دشمن رہ چکے تھے اور فتح مکہ کے بعد تازہ تازہ مسلمان ہوئے تھے۔ خود اس لڑکی کے باپ ابوجہل کے متعلق تو سب کو معلوم ہے کہ حضورؐ کی دشمنی میں وہ تمام کفار سے بازی لے گیا تھا۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ جنگ بدر میں وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کا خاندان برسوں اس کے جذبۂ انتقام میں تڑپتا رہا۔ اب اگرچہ یہ لوگ اسلام قبول کرچکے تھے، لیکن یہ تحقیق ہونا ابھی باقی تھا کہ یہ قبول اسلام واقعی پورے اخلاص اور قلوب کی مکمل تبدیلی کا ثمرہ ہے یا محض شکست کا نتیجہ۔ اس حالت میں اس خاندان کی لڑکی اور وہ بھی خاص ابوجہل کی بیٹی کا اُس گھر میں سوکن بن کر پہنچ جانا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی ملکۂ بیت تھیں، بڑے فتنوں کا سبب بن سکتا تھا۔ ان لوگوں کی تالیف قلب تو کی جاسکتی تھی اور کی بھی گئی، لیکن اسلام کے ساتھ ان کے تعلق کا حال جب تک ٹھیک ٹھیک معلوم نہ ہو جائے انہیں عین خاندان رسالت میں گھسا لانا اور خود رسول اکرم کی صاحب زادی کے بالمقابل لاکھڑا کرنا سخت نامناسب اور پر خطر تھا۔ اس وجہ سے بھی حضورؐ نے اس رشتے کو ناپسند فرمایا اور علی الاعلان کہا کہ خدا کے رسول کی بیٹی اور خدا کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ نیز اس بات کی طرف بھی آپؐ نے اشارہ فرما دیا کہ اس سے فاطمہؓ کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک فرد کو اپنے بیاہ شادی کے معاملے میں (اگرچہ وہ بجائے خود حلال ہی سہی) ایسی آزادی نہیں دی جاسکتی جس سے ایک پوری ملت کے لیے فتنہ و شر کا خطرہ پیدا ہو جائے۔
بے شک یہاں یہ اعتراض اٹھ سکتا ہے کہ ابوجہل کے خاندان سے ابوسفیان کا خاندان اسلام کی عداوت میں کچھ کم نہ تھا، پھر اگر ابوجہل کے خاندان کی لڑکی کا خانوادۂ رسالت میں آنا موجب فتنہ ہوسکتا تھا تو ابوسفیان کی صاحب زادی (حضرت ام حبیبہؓ) کا خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہو جانا کیوں خطرے سے خالی تھا؟ لیکن دونوں کے حالات کا فرق نگاہ میں ہو تو یہ اعتراض آپ سے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابوجہل کی لڑکی اور ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کا سرے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ ابوجہل کی لڑکی اور اس کے چچا اور بھائی، سب کے سب فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے۔ ان کے بارے میں یہ امتحان ہونا ابھی باقی تھا کہ ان کا ایمان کس حد تک اخلاص پر مبنی ہے اور کہاں تک اس میں شکست خوردگی کا اثر ہے۔ بخلاف اس کے حضرت ام حبیبہؓ اس بڑے سے بڑے امتحان سے گزر کر، جو اکابر صحابہ میں سے بھی کم ہی کسی کو پیش آیا تھا، اپنے کمال اخلاص اور اپنی صداقت ایمانی کا ثبوت دے چکی تھیں۔ انہوں نے دین کی خاطر وہ قربانیاں کی تھیں جن کی نظیر مشکل ہی سے کہیں اور نظر آسکتی ہے۔ ذرا غور کیجیے! ابوسفیان کی بیٹی، ہند بنت عتبہ (مشہور ہند جگر خوار) کی لخت جگر، جس کی پھوپھی وہ عورت تھی جسے قرآن میں حما لۃالحطب کا خطاب دیا گیا ہے، جس کا نانا عتبہ بن ربیعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا، اس خاندان سے اور اس ماحول سے نکل کر وہ حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہؓ سے بھی پہلے ایمان لاتی ہیں۔ اپنے شوہر کو مسلمان کرتی ہیں۔ خاندان والوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مہاجرین حبشہ کے ساتھ ہجرت کر جاتی ہیں۔ حبش جاکر شوہر عیسائی ہو جاتا ہے اور وہ دین کی خاطر اس کو بھی چھوڑ دیتی ہیں۔ غریب الوطنی کی حالت میں تن تنہا ایک چھوٹی سی بچی کے ساتھ رہ جاتی ہیں مگر ان کے عزم ایمانی میں ذرہ برابر تزلزل نہیں آتا۔ کئی برس جب اس حالت میں گزر جاتے ہیں اور ایک بے سہارا خاتون دیارِ غیر میں ہر طرز کے مصائب جھیل کر یہ ثابت کر دیتی ہے کہ دین کو جس پائے کا خلوص، جس مرتبے کی سیرت اور جس درجے کا کردار مطلوب ہے، وہ سب یہاں موجود ہے، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ انتخاب ان پر پڑتی ہے اور آپ حبش ہی میں ان کو نکاح کا پیغام بھیجتے ہیں۔ غزوۂ خیبر کے بعد وہ حبش سے واپس آکر حرم نبوی میں داخل ہوتی ہیں۔ اس کے تھوڑی ہی مدت بعد قریش صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب مکے پر چڑھائی کر دیں گے۔ اس موقع پر ابوسفیان صلح کی بات چیت کے لیے مدینے آتا ہے اور اس امید پر بیٹی کے ہاں پہنچتا ہے کہ اس کے ذریعہ صلح کی شرائط طے کرنے میں سہولت ہوگی۔ برسوں کی جدائی کے بعد پہلی مرتبہ باپ سے بیٹی کو ملنے کا موقع ملتا ہے، مگر جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرش پر بیٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو بیٹی فوراً یہ کہہ کر فرش اٹھا لیتی ہے کہ رسول خدا کے فرش پر ایک دشمن اسلام نہیں بیٹھ سکتا۔
ایسی خاتون کا خانوادۂ رسالت میں داخل ہونا تو ہیرے کا ہار میں ٹھیک اپنی جگہ پالینا تھا۔ اس سے کسی فتنے کے رُونما ہونے کا کوئی بعید ترین امکان کیا، وہم بھی نہ ہوسکتا تھا۔ البتہ اُس لڑکی کا اس خاندان میں آنا ضرور فتنے کے امکانات اپنے اندر رکھتا تھا جسے اور جس کے خاندان کو صرف فتح مکہ نے اسلام میں داخل کیا تھا اور اسلام میں آئے ہوئے جس کو ابھی صرف چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ اسی کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت کے اثرات سے اس کا اور اس کے خاندان والوں کا دل پوری طرح پاک ہوا ہے یا نہیں۔
یہ ہے اس واقعے کی اصل حقیقت۔ اس مخصوص واقعے میں مخصوص حالات کی بنا پر جو حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا اُس کو ایسی قانون سازی کے لیے آخر کس طرح دلیل بنایا جاسکتا ہے جو قرآن اور سنت اور دَور صحابہ سے لے کر آج تک کے متفق علیہ قانون کو منسوخ کرکے رکھ دے۔

شیئر کریں