Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ
کچھ جدید اڈیشن کے بارے میں
۱۔ نوعیتِ مسئلہ
۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں
۳ ۔دَورِ جدید کا مسلمان
۴۔ نظریات
۵ ۔نتائج
۶ ۔چند اور مثالیں
۷۔ فیصلہ کن سوال
۸ ۔قوانینِ فطرت
۹ ۔انسانی کوتاہیاں
۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت
۱۱ ۔پردہ کے احکام
۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین
۱۳۔ خاتمہ

پردہ

  مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔

”پردہ “ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔

عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،”پردہ “ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔

۹ ۔انسانی کوتاہیاں

گزشتہ صفحات میں خالص علمی تحقیق اور سائنٹیفک مشاہدات و تجربات کی مدد سے ہم نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر انسانی فطرت کے مقتضیات اور انسان کی ذہنی افتاد اور جسمانی ساخت کی تمام دلالتوں کا لحاظ کرکے تمدن کا ایک صحیح نظام مرتب کیا جائے تو صنفی معاملات کی حد تک اس کے ضروری اصول و ارکان کیا ہونے چاہییں۔ اس بحث میں کوئی چیز ایسی بیان نہیں کی گئی ہے جو متشابہات میں سے ہو، یا جس میں کسی کلام کی گنجائش ہو۔ جو کچھ کہا گیا ہے وہ علم و حکمت کے محکمات میں سے ہے اور عمومًا سب ہی اہلِ علم و عقل اس سے واقف ہیں۔ لیکن انسانی عجز کا کمال دیکھیے کہ جتنے نظام تمدن خود انسان نے وضع کیے ہیں ان میں سے ایک میں بھی فطرت کی ان معلوم و معروف ہدایات کو بہ تمام و کمال اور بحسن تناسب ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ انسان خود اپنی فطرت کے مقتضیات سے ناواقف نہیں ہے۔ اس سے خود اپنی ذہنی کیفیات اور جسمانی خصوصیات چھپی ہوئی نہیں ہیں۔ مگر اس کے باوجود یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ آج تک وہ کوئی ایسا معتدل نظامِ تمدن وضع کرنے میں کام یاب نہ ہو سکا جس کے اصول و مناہج میں پورے توازن کے ساتھ ان سب مقتضیات و خصوصیات اور سب مصالح و مقاصد کی رعایت کی گئی ہو۔
۱۔ نارسائی کی حقیقی علت
اس کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم اس کتاب کی ابتدا میں اشارہ کر چکے ہیں۔ انسان کی یہ فطری کم زوری ہے کہ اس کی نظر کسی معاملہ کے تمام پہلوئوں پر من حیث الکل حاوی نہیں ہو سکتی۔ ہمیشہ کوئی ایک پہلو اسے زیادہ اپیل کرتا ہے اور اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ پھر جب وہ ایک طرف مائل ہو جاتا ہے تو دوسری اطراف یا تو اس کی نظر سے بالکل ہی اوجھل ہو جاتی ہیں یا وہ قصدًا انھیں نظر انداز کر دیتا ہے۔ زندگی کے جزئی اور انفرادی معاملات تک میں انسان کی یہ کم زوری نمایاں نظر آتی ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ تمدن و تہذیب کے وسیع تر مسائل، جن میں سے ہر ایک اپنے اندر بے شمار جلی و خفی گوشے رکھتا ہے، اس کم زوری کے اثر سے محفوظ رہ جائیں۔ علم اور عقل کی دولت سے انسان کو سرفراز تو ضرور کیا گیا ہے، مگر عمومًا زندگی کے معاملات میں خالص عقلیت اس کی راہ نما نہیں ہوتی۔ جذبات اور رجحانات پہلے اسے ایک رُخ پر موڑ دیتے ہیں، پھر جب وہ اس خاص رُخ کی طرف ہو جاتا ہے، تب عقل سے استدلال کرتا ہے اور علم سے مدد لیتا ہے۔ اس حالت میں اگر خود اس کا علم اسے معاملے کے دوسرے رُخ دکھائے اور اس کی اپنی عقل اس کی ایک رخی پر متنبہ کرے تب بھی وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا بلکہ علم و عقل کو مجبور کرتا ہے کہ اس کے رجحان کی تائید میں دلائل اور تاویلات فراہم کریں۔
۲۔ چند نمایاں مثالیں
معاشرت کے جس مسئلے سے اس وقت ہم بحث کر رہے ہیں، اس میں انسان کی یہی یک رُخی اپنی افراط و تفریط کی پوری شان کے ساتھ نمایاں ہوئی ہے۔
ایک گروہ اَخلاق اور روحانیت کے پہلو کی طرف جھکا اور اس میں یہاں تک غلو کر گیا کہ عورت اور مرد کے صنفی تعلق ہی کو سرے سے ایک قابل نفرت چیز قرار دے بیٹھا۔ یہ بے اعتدالی ہمیں بدھ مت، مسیحیت اور بعض ہندو مذاہب میں نظر آتی ہے۔ اور اسی کا اثر ہے کہ اب تک دنیا کے ایک بڑے حصہ میں صنفی تعلق کو بجائے خود ایک بدی سمجھا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ ازدواج کے دائرے میں ہو یا اس سے باہر۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہ کہ رہبانیت کی غیر فطری اور غیر متمدن زندگی کو اخلاق اور طہارتِ نفس کا نصب العین سمجھا گیا۔ نوعِ انسانی کے بہت سے افراد نے، جن میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی، اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو فطرت سے انحراف بلکہ جنگ میں ضائع کر دیا اور جو لوگ فطرت کے اقتضا سے باہم ملے بھی تو اس طرح جیسے کوئی شخص مجبورًا اپنی کسی گندی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا تعلق نہ تو زوجین کے درمیان محبت اور تعاون کا تعلق بن سکتا ہے اور نہ اس سے کوئی صالح اور ترقی پزیر تمدن وجود میں آ سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ نظامِ معاشرت میں عورت کے مرتبہ کو گرانے کی ذمہ داری بھی بڑی حد تک اسی نظامِ معاشرت میں عورت کے مرتبہ کو گرانے کی ذمہ داری بھی بڑی حد تک اسی نام نہاد اخلاقی تصور پر ہے۔ رہبانیت کے پرستاروں نے صنفی کشش کو شیطانی وسوسہ اور کشش کی محرک، یعنی عورت کو شیطان کا ایجنٹ قرار دیا اور اسے ایک ناپاک وجود ٹھہرایا جس سے نفرت کرنا ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو طہارتِ نفس چاہتا ہے۔ مسیحی، بدھ اور ہندو لٹریچر میں عورت کا یہی تصور غالب ہے اور جو نظامِ معاشرت اس تصور کے ماتحت مرتب کیا گیا ہو اس میں عورت کا مرتبہ جیسا کچھ ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
اس کے برعکس دوسرے گروہ نے انسان کے داعیات جسمانی کی رعایت کی تو اس میں اتنا غلو کیا کہ فطرتِ انسانی تو درکنار، فطرتِ حیوانی کے مقتضیات کو بھی نظر انداز کر دیا۔ مغربی تمدن میں یہ کیفیت اس قدر نمایاں ہو چکی ہے کہ اب چھپائے نہیں چھپ سکتی۔ اس کے قانون میں زِنا کوئی جرم ہی نہیں ہے۔ جرم اگر ہے تو جبر و اکراہ ہے، یا کسی دوسرے کے قانونی حق میں مداخلت۔ان دونوں میں سے کسی جرم کی مشارکت نہ ہو تو زنا (یعنی صنفی تعلقات کا انتشار) بجائے خود کوئی قابلِ تعزیر جرم، حتّٰی کہ کوئی قابلِ شرم اخلاقی عیب بھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وہ کم از کم حیوانی فطرت کی حد میں تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ اس سے بھی آگے بڑھا۔ اس نے صنفی تعلق کے حیوانی مقصد یعنی تناسل اور بقائے نوع کو بھی نظر انداز کر دیا، اسے محض جسمانی لطف و لذت کا ذریعہ بنا لیا۔ یہاں پہنچ کر وہی انسان جو احسن تقویم پر پیدا کیا گیا تھا، اسفل سافلین میں پہنچ جاتا ہے۔ پہلے وہ اپنی انسانی فطرت سے انحراف کرکے حیوانات کا سا منتشر صنفی تعلق اختیار کرتا ہے جو کسی تمدن کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ پھر وہ اپنی حیوانی فطرت سے بھی انحراف کرتا ہے اور اس تعلق کے فطری نتیجہ یعنی اولاد کی پیدائش کو بھی روک دیتا ہے تاکہ دنیا میں اس کی نوع کو باقی رکھنے والی نسلیں وجود ہی میں نہ آنے پائیں۔
ایک جماعت نے خاندان کی اہمیت کو محسوس کیا تو اس کی تنظیم اس قدر بندشوں کے ساتھ کی کہ ایک فرد کو جکڑ کر رکھ دیا اور حقوق و فرائض میں کوئی توازن ہی باقی نہ رکھا۔ اس کی ایک نمایاں مثال ہندوئوں کا خاندانی نظام ہے۔ اس میں عورت کے لیے ارادے اور عمل کی کوئی آزادی نہیں۔ تمدن اور معیشت میں اس کا کوئی حق نہیں۔ وہ لڑکی ہے تو لونڈی ہے۔ بیوی ہے تو لونڈی ہے۔ ماں ہے تو لونڈی ہے۔ بیوہ ہے تو لونڈی سے بھی بد تر زندہ درگور ہے۔ اس کے حصہ میں صرف فرائض ہی فرائض ہیں، حقوق کے خانہ میں ایک عظیم الشان صفر کے سوا کچھ نہیں۔ اس نظامِ معاشرت میں عورت کو ابتدا ہی سے ایک بے زبان جانور بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس میں سرے سے اپنی خودی کا کوئی شعور پیدا ہی نہ ہو۔ بلاشبہ اس طریقہ سے خاندان کی بنیادوں کو بہت مضبوط کر دیا گیا اور عورت کی بغاوت کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔ لیکن جماعت کے پورے نصف حصہ کو ذلیل اور پست کرکے اس نظامِ معاشرت نے درحقیقت اپنی تعمیر میں خرابی کی ایک صورت اور بڑی ہی خطرناک صورت پیدا کر دی جس کے نتائج اب خود ہندو بھی محسوس کر رہے ہیں۔
ایک دوسری جماعت نے عورت کے مرتبے کو بلند کرنے کی کوشش کی اور اسے ارادہ و عمل کی آزادی بخشی تو اس میں اتنا غلو کیا کہ خاندان کا شیرازہ درہم برہم کر دیا۔ بیوی ہے تو آزاد، بیٹی ہے تو آزاد، بیٹا ہے تو آزاد، خاندان کا درحقیقت کوئی سر دھرا نہیں۔ کسی کو کسی پر اقتدار نہیں۔ بیوی سے شوہر نہیں پوچھ سکتا کہ تُو نے رات کہاں بسر کی۔ بیٹی سے باپ نہیں پوچھ سکتا کہ تو کس سے ملتی ہے اورکہاں جاتی ہے۔ زوجین درحقیقت دو برابر کے دوست ہیں جو مساوی شرائط کے ساتھ مل کر ایک گھر بناتے ہیں، اوراولاد کی حیثیت اس ایسوسی ایشن میں محض چھوٹے ارکان کی سی ہے۔ مزاج اور طبائع کی ایک ادنیٰ ناموافقت اس بنے ہوئے گھر کو ہر وقت بگاڑ سکتی ہے، کیوں کہ اطاعت کا ضروری عنصر، جو ہر نظم کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہے، اس جماعت میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہ مغربی معاشرت ہے، وہی مغربی معاشرت جس کے علم برداروں کو اصول تمدن و عمران میں پیغمبری کا دعوٰی ہے۔ ان کی پیغمبری کا صحیح حال آپ کو دیکھنا ہو تو یورپ اور امریکا کی کسی عدالتِ نکاح و طلاق یا کسی عدالتِ جرائمِ اطفال (juvenile court)کی روداد اُٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ابھی حال میں انگلستان کے ہوم آفس سے جرائم کے جو اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سن لڑکوں اور لڑکیوں میں جرائم کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس کی خاص وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ خاندان کا ڈسپلن بہت کم زور ہو گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو):
“Blue Book of Crime Statistics for 1934”
انسان اور خصوصًا عورت کی فطرت میں شرم و حیا کا جو مادہ رکھا گیا ہے اسے ٹھیک ٹھیک سمجھنے اور عملًا لباس اور طرزِ معاشرت کے اندر اس کی صحیح ترجمانی کرنے میں تو کسی انسانی تمدن کو کام یابی نہیں ہوئی۔ شرم و حیا کو انسان اور خاص کر عورت کی بہترین صفات میں شمار کیا گیا ہے۔ مگر لباس و معاشرت میں اس کا ظہور کسی عقلی طریقے اور کسی ہموارضابطہ کی صورت میں نہیں ہوا۔ سترِ عورت کے صحیح حدود معین کرنے اور یکسانی کے ساتھ انھیں ملحوظ رکھنے کی کسی نے کوشش نہیں کی۔ مردوں اور عورتوں کے لباس اور ان کے آداب و اطوار میں حیاداری کی صورتیں کسی اصول کے تحت مقرر نہیں کی گئیں۔ معاشرت میں مرد اور مرد، عورت اور عورت، مرد اور عورت کے درمیان کشف و حجاب کی مناسب اور معقول حد بندی کی ہی نہیں گئی۔ تہذیب و شائستگی اور اخلاقِ عامہ کے نقطہ نظر سے یہ معاملہ جتنا اہم تھا، اتناہی اس کے ساتھ تغافل برتا گیا۔ اسے کچھ تو رسم و رواج پر چھوڑ دیا گیا، حالانکہ رسم و رواج اجتماعی حالات کے ساتھ بدل جانے والی چیز ہے اور کچھ افراد کے ذاتی رجحان اور انتخاب پر منحصر کر دیا، حالانکہ نہ جذبہ شرم و حیا کے اعتبار سے تمام اشخاص یکساں ہیں اور نہ ہر شخص اتنی سلامت ذوق اور صحیح قوتِ انتخاب رکھتا ہے کہ اپنے اس جذبہ کے لحاظ سے خود کوئی مناسب طریقہ اختیار کر سکے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ مختلف جماعتوں کے لباس اور معاشرت میں حیاداری اور بے حیائی کی عجیب آمیزش نظر آتی ہے جس میں کوئی عقلی مناسبت، کوئی یکسانی، کوئی ہمواری، کسی اصول کی پابندی نہیں پائی جاتی۔ مشرقی ممالک میں تو یہ چیز صرف بے ڈھنگے پن ہی تک محدود رہی، لیکن مغربی قوموں کے لباس اور معاشرت میں جب بے حیائی کا عنصر حد سے زیادہ بڑھا تو انھوں نے سرے سے شرم و حیا کی جڑ ہی کاٹ دی۔ ان کا جدید نظریہ یہ ہے کہ ’’شرم و حیا دراصل کوئی فطری جذبہ ہی نہیں ہے بلکہ محض لباس پہننے کی عادت نے اسے پیدا کر دیا ہے۔ سترِ عورت اور حیا داری کا کوئی تعلق اخلاق اور شائستگی سے نہیں ہے بلکہ وہ تو درحقیقت انسان کے داعیاتِ صنفی کو تحریک دینے والے اسباب میں سے ایک سبب { FR 6824 } ہے۔‘‘اسی فلسفہ بے حیائی کی عملی تفسیریں ہیں وہ نیم عریاں لباس، وہ جسمانی حسن کے مقابلے، وہ برہنہ ناچ، وہ ننگی تصویریں، وہ اسٹیج پر فاحشانہ مظاہرے، وہ برہنگی (nudism) کی روز افزوں تحریک، وہ حیوانیتِ محضہ کی طرف انسان کی واپسی۔
یہی بے اعتدالی اس مسئلہ کی دُوسری اطراف میں بھی نظر آتی ہے۔ جن لوگوں نے اَخلاق اور عصمت کو اہمیت دی انھوں نے عورت کی حفاظت ایک جان دار، ذی عقل، ذی رُوح وجود کی حیثیت سے نہیں کی، بلکہ ایک بے جان زیور، ایک قیمتی پتھر کی طرح کی اس کی تعلیم و تربیت کے سوال کو نظر انداز کر دیا۔ حالانکہ تہذیب وتمدن کی بہتری کے لیے یہ سوال عورت کے حق میں بھی اتنا ہی اہم تھا جتنا مرد کے لیے تھا۔ بخلاف اس کے جنھوں نے تعلیم و تربیت کی اہمیت کو محسوس کیا انھوں نے اَخلاق اورعصمت کی اہمیت کو نظر انداز کرکے ایک دوسری حیثیت و تہذیب کی تباہی کا سامان مہیا کر دیا۔
جن لوگوں نے فطرت کی تقسیمِ عمل کا لحاظ کیا انھوں نے تمدن و معاشرت کی خدمات میں سے صرف خانہ داری اور تربیتِ اطفال کی ذمہ داریاں عورت پر عائد کیں اور مرد پررزق مہیا کرنے کا بار ڈالا۔ لیکن اس تقسیم میں وہ توازن برقرار نہ رکھ سکے۔ انھوں نے عورت سے تمام معاشی حقوق سلب کر لیے۔ وراثت میں اسے کسی قسم کا حق نہ دیا۔ ملکیت کے تمام حقوق مرد کی طرف منتقل کر دیے اور اس طرح معاشی حیثیت سے عورت کو بالکل بے دست و پا کرکے عورت اورمرد کے درمیان درحقیقت لونڈی اور آقا کا تعلق قائم کر دیا۔ اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا گروہ اُٹھا جس نے اس بے انصافی کی تلافی کرنا چاہی اور عورت کو اس کے معاشی و تمدنی حقوق دلانے کا ارادہ کیا۔ مگر یہ لوگ ایک دوسری غلطی کے مرتکب ہو گئے۔ ان کے دماغوں پرمادیت کا غلبہ تھا۔ اس لیے انھوں نے عورت کو معاشی و تمدنی غلامی سے نجات دلانے کے معنی یہ سمجھے کہ اسے بھی مرد کی طرح خاندان کا کمانے والا فرد بنا دیا جائے اورتمدن کی ساری ذمہ داریوں کے سنبھالنے میں اس کے ساتھ برابر کا شریک کیا جائے۔ مادیت کے نقطہ نظر سے اس طریقہ میں بڑی جاذبیت تھی، کیوں کہ اس سے نہ صرف مرد کا بار ہلکا ہو گیا بلکہ کسبِ معیشت میں عورت کے ساتھ شریک ہو جانے سے دولت کے حصول اور اسبابِ عیش کی فراہمی میں قریب قریب دو چند کا اضافہ بھی ہو گیا۔ مزید برآں قوم کی معاشی اور عمرانی کو چلانے کے لیے پہلے کے مقابلے میں دوگنے ہاتھ اور دوگنے دماغ مہیا ہو گئے۔ جس سے یکایک تمدن کے ارتقا کی رفتار تیز ہو گئی لیکن مادی اور معاشی پہلو کی طرف اس قدر حد سے زیادہ مائل ہو جانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے پہلو جو درحقیقت اپنی اہمیت میں اس ایک پہلو سے کچھ کم نہ تھے، ان کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئے اور بہت سے پہلوئوں کو انھوں نے جانتے بوجھتے نظر انداز کر دیا۔ انھوں نے قانونِ فطرت کو جاننے کے باوجود قصدًا اس کی خلاف ورزی کی جس پر خود ان کی اپنی سائنٹیفک تحقیقات شہادت دے رہی ہیں۔ انھوں نے عورت کے ساتھ انصاف کرنے کا دعوٰی کیا مگر درحقیقت بے انصافی کے مرتکب ہوئے جس پر خود ان کے اپنے مشاہدات اور تجربات گواہ ہیں۔ انھوں نے عورت کو مساوات دینے کا ارادہ کیا مگردرحقیقت نامساوات قائم کربیٹھے جس کا ثبوت خود ان کے اپنے علوم و فنون فراہم کر رہے ہیں۔ انھوں نے تمدن و تہذیب کی اصلاح کرنا چاہی، مگر درحقیقت اس کی تخریب کے نہایت خوف ناک اسباب پیدا کر دیے جن کی تفصیلات خود انھی کے بیان کردہ واقعات اور خود ان کے اپنے فراہم کردہ اعداد و شمار سے ہمیں معلوم ہوئی ہیں۔ ظاہرہے کہ وہ ان حقائق سے بے خبر نہیں ہیں۔ مگر جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں، یہ انسان کی کم زوری ہے کہ وہ خود اپنی زندگی کے لیے قانون بنانے میں تمام مصلحتوں کی معتدل اور متناسب رعایت ملحوظ نہیں رکھ سکتا۔ ہوائے نفس اسے افراط کے کسی ایک رُخ پر بہا لے جاتی ہے اور جب وہ بہہ جاتا ہے تو بہت سی مصلحتیں اس کی نظر سے چھپ جاتی ہیں اور بہت سی مصلحتوں اور حقیقتوں کو دیکھنے اور جاننے کے باوجود وہ ان کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتا ہے، اس قصدی و ارادی اندھے پن کا ثبوت ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں دے سکتے کہ خود ایک ایسے اندھے ہی کی شہادت پیش کر دیں۔ روس کا ایک ممتاز سائنس دان انتون نیملاف (Anton Nemilov)جو سو فی صدی کمیونسٹ ہے اپنی کتاب{ FR 6825 }
(The Biological Tragedy of Woman) میں سائنس کے تجربات اورمشاہدات سے خود ہی عورت اورمرد کی فطری نامساوات ثابت کرنے پر تقریباً دو سو صفحے سیاہ کرتا ہے مگر پھر خود ہی اس تمام سائنٹیفک تحقیق کے بعد لکھتا ہے:
آج کل اگر یہ کہا جائے کہ عورت کو نظامِ تمدن میں محدود حقوق دیے جائیں تو کم از کم آدمی اس کی تائید کریں گے۔ ہم خود اس تجویز کے سخت مخالف ہیں۔ مگر ہمیں اپنے نفس کو یہ دھوکا نہ دینا چاہیے کہ مساواتِ مرد و زن کو عملی زندگی میںقائم کرنا کوئی سادہ اور آسان کام ہے۔ دنیا میں کہیں بھی عورت اور مرد کو برابر کر دینے کی اتنی کوشش نہیں کی گئی جتنی سوویت روس میں کی گئی ہے ۔ کسی جگہ اس باب میں اس قدر غیر متعصبانہ اور فیاضانہ قوانین نہیں بنائے گئے۔ مگر اس کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ عورت کی پوزیشن خاندان میں بہت کم بدل سکی ہے۔‘‘ (صفحہ :۷۲)
نہ صرف خاندان بلکہ سوسائٹی میں بھی:
اب تک عورت اور مرد کی نامساوات کا تخیل، نہایت گہرا تخیل، نہ صرف ان طبقوں میں جو ذہنی حیثیت سے ادنیٰ درجہ کے ہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ سوویت طبقوں میں بھی جما ہوا ہے اور خود عورتوں میں اس تخیل کا اتنا گہرا اثر ہے کہ اگر ان کے ساتھ ٹھیٹھ مساوات کا سلوک کیا جائے تو وہ اسے مرد کے مرتبہ سے گرا ہوا سمجھیں گی، بلکہ اسے مرد کی کم زوری اور نامردی پر محمول کریں گی۔ اگر ہم اس معاملہ میں کسی سائنٹسٹ، کسی مصنف، کسی طالب علم، کسی تاجر، یا کسی سو فی صدی کمیونسٹ کے خیالات کا تجسس کریں تو بہت جلدی یہ حقیقت منکشف ہو جائے گی کہ عورت کو وہ اپنے برابر کا نہیں سمجھتا۔ اگر ہم زمانہ حال کے کسی ناول کو پڑھیں، خواہ وہ کیسے آزاد خیال مصنف کا لکھا ہوا ہو، یقینا اس میں ہمیں کہیں نہ کہیں ایسی عبارتیں ملیں گی جو عورت کے متعلق اس تخیل کی چغلی کھا جائیں گی۔ (صفحہ ۱۹۵۔۱۹۴)
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں انقلابی اصول ایک نہایت اہم صورت واقعی سے ٹکرا جاتے ہیں، یعنی اس حقیقت سے کہ حیاتیات (biology) کے اعتبار سے دونوں صنفوں کے درمیان مساوات نہیں ہے اور دونوں پر مساوی بار نہیں ڈالا گیا ہے۔ (صفحہ:۷۷)
ایک اقتباس اور دیکھ لیجیے، پھر نتیجہ آپ خود نکال لیں گے:
سچی بات تو یہ ہے کہ تمام عمال (workers) میں صنفی انتشار (sexual anarchv) کے آثار نمایاں ہو چکے ہیں، یہ ایک نہایت پر خطر حالت ہے جو سوشلسٹ نظام کو تباہ کرنے کی دھمکی دے رہی ہے، ہر ممکن طریقے سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے، کیوں کہ اس محاذ پر جنگ کرنے میں بڑی مشکلات ہیں۔ مَیں ہزارہا ایسے واقعات کا حوالہ دے سکتا ہوں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہوانی بے قیدی (sexual licentiousness) نہ صرف ناواقف لوگوں میں بلکہ طبقہ عمال کے نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عقلی حیثیت سے ترقی یافتہ افراد میں پھیل گئی ہے۔(صفحہ ۲۰۳۔۲۰۲)
ان عبارتوں کی شہادت کیسی کھلی ہوئی شہادت ہے۔ ایک طرف یہ اعتراف ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان فطرت نے خود ہی مساوات نہیں رکھی، عملی زندگی میں بھی مساوات قائم کرنے کی کوششیں کام یاب نہیں ہوئیں، اور جس حد تک فطرت سے لڑ کر اس قسم کی مساوات قائم کی گئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فواحش کا ایک سیلاب امنڈ آیا جس سے سوسائٹی کا سارا نظام خطرہ میں پڑ گیا۔ دوسری طرف یہ دعوٰی ہے کہ نظامِ اجتماعی میں عورت کے حقوق پر کسی قسم کی حد بندیاں نہ ہونی چاہییں اور اگر ایسا کیا جائے گا تو ہم اس کی مخالفت کریں گے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت اس امر کا ہو گا کہ انسان…… جاہل نہیں بلکہ عالم، عاقل، نہایت باخبر انسان بھی…… اپنے نفس کے رجحانات کا کیسا غلام ہوتا ہے کہ خود اپنی تحقیق کو جھٹلاتا ہے، اپنے مشاہدات کی نفی کرتا ہے اور ہر طرف سے آنکھیں بند کرکے ہوائے نفس کے پیچھے ایک ہی رخ پر انتہا کو پہنچ جاتا ہے، خواہ اس افراط کے خلاف اس کے اپنے علوم کتنی ہی محکم دلیلیں پیش کریں، اس کے کان کتنے ہی واقعات سن لیں اور اس کی آنکھیں کتنے ہی بُرے نتائج کا مشاہدہ کر لیں۔
اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــہَہٗ ہَوٰىہُ وَاَضَلَّہُ اللہُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِہٖ وَقَلْبِہٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِہٖ غِشٰوَۃً۝۰ۭ فَمَنْ يَّہْدِيْہِ مِنْۢ بَعْدِ اللہِ۝۰ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَo الجاثیہ 23:45
پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گم راہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟
۳۔ قانونِ اِسلامی کی شانِ اعتدال
بے اعتدالی اور افراط و تفریط کی اس دنیا میں صرف ایک نظامِ تمدن ایسا ہے جس میں غایت درجہ کا اعتدال و توازن پایا جاتا ہے۔ جس میں فطرتِ انسانی کے ایک ایک پہلو، حتّٰی کہ نہایت خفی پہلو کی بھی رعایت کی گئی ہے۔ انسان کی جسمانی ساخت، اس کی حیوانی جبلت، اس کی انسانی سرشت، اس کی نفسی خصوصیات اور اس کے فطری داعیات کے متعلق نہایت مکمل اور تفصیلی علم سے کام لیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک ایک چیز کی تخلیق سے فطرت کا جو مقصد ہے اسے بتمام و کمال اس طریقہ سے پورا کیا گیا ہے کہ کسی دوسرے مقصد حتّٰی کہ چھوٹے سے چھوٹے مقصد کو بھی نقصان نہیں پہنچتا اور بالآخر یہ سب مقاصد مل کر اس بڑے مقصد کی تکمیل میں مددگار ہوتے ہیں جو خود انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ یہ اعتدال، یہ توازن، یہ تناسب اتنا مکمل ہے کہ کوئی انسان خود اپنی عقل اور کوشش سے اسے پیدا کر ہی نہیں سکتا۔ انسان کا وضع کیا ہوا قانون ہو اور اس میں کسی جگہ بھی یک رُخی ظاہر نہ ہو، ناممکن، قطعی ناممکن! خود وضع کرنا تو درکنار، حقیقت یہ ہے کہ معمولی انسان تو اس معتدل و متوازن اور انتہائی حکیمانہ قانون کی حکمتوں کو پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتا جب تک کہ وہ غیر معمولی سلامت طبع نہ رکھتا ہو اور اس پر سال ہا سال تک علوم اورتجربات کا اکتساب نہ کر لے اور پھر برسوں غور و خوض نہ کرتا رہے۔ مَیں اس قانون کی تعریف اس لیے نہیں کرتا ہوں کہ میں اسلام پر ایمان لایا ہوں بلکہ دراصل میں اسلام پر ایمان لایا ہی اس لیے ہوں کہ مجھے اس کمال درجہ کا توازن، تناسب اور قوانین کے ساتھ تطابق نظر آتا ہے، جسے دیکھ کر میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یقینا اس قانون کا واضع وہی ہے جو زمین و آسمان کا فاطراور غیب و شہادت کا عالم ہے اور حق یہ ہے کہ مختلف سمتوں میں بہک جانے والے بنی آدم کو عدل و توسط کا محکم طریقہ وہی بتا سکتا ہے۔
قُلِ اللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيْ مَا كَانُوْا فِيْہِ يَخْتَلِفُوْنَo الزمر 46:39
کہو خدایا! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، حاضر و غائب کے جاننے والے، تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں