عقلیت (rationalism) اور فطریت (naturalism) یہ دو چیزیں ہیں جن کا اشتہار گذشتہ دو صدیوں سے مغربی تہذیب بڑے زور شور سے دے رہی ہے۔ اشتہار کی طاقت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ جس چیز کو پیہم اور مسلسل اور بکثرت نگاہوں کے سامنے لایا جائے اور کانوں پر مسلط کیا جائے اس کے اثر سے انسان اپنے دل اور دماغ کو کہاں تک بچاتا رہے گا۔ بالآخر اشتہار کے زور سے دنیا نے یہ بھی تسلیم کرلیا کہ مغربی علوم اور مغربی تمدن کی بنیاد سراسر عقلیت اور فطریت پر ہے۔ حالانکہ مغربی تہذیب کے تنقیدی مطالعے سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ اس کی بنیاد نہ عقلیت پر ہے نہ اصولِ فطرت کی متابعت({ FR 1093 }) پر‘ بلکہ اس کے برعکس اس کا پورا ڈھچر(۲) حِسّ اور خواہش اور ضرورت پر قائم ہے، اور مغربی نشاۃ جدیدہ(۳) دراصل عقل اور فطرت کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ اس نے معقولات کو چھوڑ کر محسوسات اور مادیت کی طرف رجوع کیا۔ عقل کے بجائے حس پر اعتماد کیا۔ عقلی ہدایات اور منطقی استدلال اور فطری وجدان کو رد کرکے محسوس مادی نتائج کو اصلی و حقیقی معیار قرار دیا۔ فطرت کی رہنمائی کو مردود ٹھہرا کر خواہش اور ضرورت کو اپنا رہنما بنایا۔ ہر اُس چیز کو بے اصل سمجھا جو ناپ اور تول میں نہ آسکتی ہو۔ ہر اُس چیز کو ہیچ اور ناقابل اعتنا قرار دیا جس پر کوئی محسوس مادی منفعت مترتب نہ ہوتی ہو۔ ابتدا میں یہ حقیقت خود اہل مغرب سے چھپی ہوتی تھی‘ اس لیے وہ عقل اور فطرت کے خلاف چلنے کے باوجود یہی سمجھتے رہے کہ انھوںنے جس روشن خیالی کے دور جدید کا افتتاح کیا ہے اس کی بنیاد ’عقلیت‘ اور فطرت پر ہے۔ بعد میں اصل حقیقت کھلی، مگر اعتراف کی جرأت نہ ہوئی۔ مادہ پرستی‘ اور خواہشات کی غلامی‘ اور مطالباتِ نفس و جسد کی بندگی پر منافقت کے ساتھ عقلی استدلال اور ادعائے فطریت(۴) کے پردے ڈالے جاتے رہے، لیکن اب انگریزی محاورے کے مطابق ’بلی تھیلے سے بالکل باہر آچکی ہے‘ غیر معقولیت اور خلاف ورزی فطرت کی لے اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس پر کوئی پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ اس لیے اب کھلم کھلا عقل اور فطرت دونوں سے بغاوت کا اعلان کیا جارہا ہے۔ علم اور حکمت کی مقدس فضا سے لے کر معاشرت‘ معیشت اور سیاست تک ہر جگہ بغاوت کا علم بلند ہو چکا ہے اور’قدامت پرست‘ منافقین کی ایک جماعت کو مستثنیٰ کر کے دنیائے جدید کے تمام رہنما اپنی تہذیب پر صرف خواہش اور ضرورت کی حکمرانی تسلیم کررہے ہیں۔
مشرقی مستغربین({ FR 1094 }) ومتفرنجین(۲) اپنے پیشوائوں سے ابھی چند قدم پیچھے ہیں۔ ان کا دماغی نشوونما جس تعلیم اور جس ذہنی فضا اور جن عواملِ تہذیب و تمدن کے زیر اثر ہوا ہے ان کا اقتضا یہی ہے کہ وہی محسوسات و مادیات کی پرستش اورخواہشات و ضروریات کی غلامی ان میں بھی پیدا ہو، اور فی الواقع ایسا ہی ہو رہا ہے، مگر ابھی تک یہ اس منزل پر نہیں پہنچے ہیں جہاں بلی تھیلے سے باہر آجائے۔ اپنی تحریر و تقریر میں یہ اب بھی کہے جارہے ہیں کہ ہم صرف عقل اور فطرت کی رہنمائی تسلیم کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے صرف عقلی استدلال پیش کرو۔ ہم کسی ایسی چیز کو نہ مانیں گے جو عقلی دلائل اور فطری شواہد سے ثابت نہ کر دی جائے، لیکن ان تمام بلند آہنگیوں(۳) کے تھیلے میں وہی بلی چھپی ہوئی ہے جو نہ عقلی ہے اور نہ فطری۔ ان کے مقالات کا تجزیہ کیجیے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ معقولات اور فطری و جدانیات کے ادراک سے ان کے ذہن عاجز ہیں۔ جس کو یہ ’عقلی فائدہ‘ کہتے ہیں‘ اس کی حقیقت پوچھیے تو معلوم ہوگا کہ اس سے مراد’تجربی فائدہ‘ ہے اور تجربی فائدہ وہ ہے جو ٹھوس ہو‘ وزنی ہو‘ شمار اور پیمائش میں آسکے۔ کوئی چیز جس کا فائدہ ان کو حسابی اعداد سے گن کر‘ یا ترازو کے پلڑوں سے تول کر‘ یا گز سے ناپ کر نہ بتایا جاسکے‘ اس کو یہ مفید نہیں مان سکتے‘ اور جب تک اس معنی خاص میں اس کی افادیت ثابت نہ کر دی جائے اس پر ایمان لانا اور اس کا اتباع کرنا ان کے نزدیک ایسا فعل ہے جس کو یہ ’غیر معقولیت‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ فطرت کی رہنمائی جس کی پیروی کا ان کو دعویٰ ہے اس کی حقیقت بھی تھوڑی سی جرح میں کھل جاتی ہے۔ فطرت سے مراد ان کے نزدیک انسانی فطرت نہیں بلکہ حیوانی فطرت ہے۔ جووجدان اور شہادت قلبیہ سے خالی ہے اور صرف حس‘ خواہش اور مطالبات نفس و جسد ہی رکھتی ہے۔ ان کے نزدیک اعتبار کے قابل صرف وہی چیزیں ہیں جو حواس کو متاثر کرسکیں‘ خواہشات کو تسکین دے سکیں‘ جسمانی یا نفسانی مطالبات کو پورا کرسکیں‘ جن کا فائدہ فوراً مشاہدے میں آجائے اور جن کا نقصان نظروں سے اوجھل ہو یا فائدے کے مقابلے میں ان کو کم نظر آجائے۔ باقی رہیں وہ چیزیں جو فطرت انسانی کے مقتضیات({ FR 1095 }) سے ہیں‘ جن کی اہمیت کو انسان اپنے وجدان میں پاتا ہے‘ جن کے فوائد یا نقصانات مادی اور حسی نہیں بلکہ نفسی اور روحانی ہیں وہ اوہام اور خرافات ہیں‘ ہیچ اور ناقابل اعتنا(۲) ہیں‘ ان کو کسی قسم کی اہمیت دینا بلکہ ان کے وجود کو تسلیم کرنا بھی تاریک خیالی‘ وہم پرستی اور دقیانوسیت ہے‘ ایک طرف عقل و فطرت سے یہ انحراف ہے‘ دوسری طرف عقلیت و فطریت کا دعویٰ ہے‘ اور عقل کے دیوالیہ پن کا حال یہ ہے کہ وہ اس اجتماعِ ضدین(۳) کو محسوس تک نہیں کرتی۔
تعلیم اور تہذیبِ فکر کا کم سے کم اتنا فائدہ تو ہر انسان کو حاصل ہونا چاہیے کہ اس کے خیالات میں الجھائو باقی نہ رہے‘ افکار میں پراگندگی اور ژولیدگی(۴) نہ ہو۔ وہ صاف اور سیدھا طریق فکر اختیار کرسکے‘ مقدمات کو صحیح ترتیب دے کر صحیح نتیجہ اخذ کرسکے‘ تناقض اور خلط مبحث جیسی صریح غلطیوں سے بچ سکے، لیکن مستثنیات(۵) کو چھوڑ کر ہم اپنے عام تعلیم یافتہ حضرات کو دماغی تربیت کے ان ابتدائی ثمرات سے بھی محروم پاتے ہیں۔ ان میں اتنی تمیز بھی تو نہیں ہوتی کہ کسی مسئلے پر بحث کرنے سے پہلے اپنی صحیح حیثیت متعین کرلیں‘ پھر اس حیثیت کے عقلی لوازم کو سمجھیں‘ اور ان کو ملحوظ رکھ کر ایسا طریق استدلال اختیار کریں جو اس حیثیت سے مناسبت رکھتا ہو۔ ان سے گفتگو کیجیے، یا ان کی تحریریں دیکھیے۔ پہلی نظر ہی میں آپ کو محسوس ہو جائے گا کہ ان کے خیالات میں سخت الجھائو ہے۔ بحث کی ابتدا ایک حیثیت سے کی تھی‘ چند قدم چل کر حیثیت بدل دی‘ آگے بڑھے تو ایک دوسری حیثیت اختیار کرلی۔ اثباتِ مدعا کے لیے مقدمات کو سمجھ بوجھ کر انتخاب کرنا اور ان کو منطقی اسلوب پر مرتب کرنا تک نہ آیا۔ آغاز سے لے کر اختتام تک یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ دراصل آپ کا مدّعا کیا ہے‘ کس مسئلے کی تحقیق پیش نظر تھی اور کیا آپ نے ثابت کیا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ موجودہ تہذیب اور اس کے اثر سے موجودہ تعلیم کا میلان زیادہ ترحسیات اور مادیات کی طرف ہے۔ وہ خواہشات کو تو بیدار کر دیتی ہے‘ مطلوبات اور ضروریات کے احساس کو بھی ابھار دیتی ہے‘ محسوسات کی اہمیت بھی دلوں میں بٹھا دیتی ہے‘ مگر عقل اور ذہن کی تربیت نہیں کرتی‘ تنقید اور تفکر کا پندار({ FR 1150 }) تو ضرور پیدا ہو جاتا ہے اور یہی پندار ان کو ہر چیز پر ’’عقلی‘‘ تنقید کرنے اور ہر اُس چیز سے انکار کر دینے پر آمادہ کرتا ہے جو اُن کی ’’عقل‘‘ میں نہ سمائے مگر درحقیقت ان کا ذہن عقلیت سے منحرف ہوتا ہے اور صحیح عقلی طریق پر کسی مسئلے کو سلجھانے، یا کسی امر میں رائے قائم کرنے کی صلاحیت اُن میں پیدا ہی نہیں ہوئی۔
اس غیر ’معقول عقلیت‘ کا اظہار سب سے زیادہ اُن مسائل میں ہوتا ہے جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ یہی وہ مسائل ہیں جن کے روحانی و اخلاقی اور اجتماعی و عمرانی مبادی(۲) مغرب کے نظریات سے ہر ہر نقطہ متصادم ہوتے ہیں۔
آپ کسی انگریزی تعلیم یافتہ شخص سے کسی مذہبی مسئلے پر گفتگو کیجیے اور اس کی ذہنی کیفیت کا امتحان لینے کے لیے اس سے مسلمان ہونے کا اقرار کرا لیجیے‘ پھر اس کے سامنے مجرد حکم شریعت بیان کرکے سند پیش کیجیے۔ وہ فوراً اپنے شانے ہلائے گا اور بڑے عقل پرستانہ انداز میں کہے گا کہ یہ ملائیت ہے‘ میرے سامنے عقلی دلیل لائو‘ اگر تمھارے پاس معقولات نہیں صرف منقولات ہی منقولات ہیں تو میں تمھاری بات نہیں مان سکتا۔ بس انھی چند فقروں سے یہ راز فاش ہو جائے گا کہ اس شخص کو عقلیت کی ہوا بھی چھو کر نہیں گزری ہے‘ اس غریب کو برسوں کی تعلیم و تربیت علمی کے بعد اتنا بھی معلوم نہ ہوسکا کہ طلب حجت کے عقلی لوازم کیا ہیں اور طالب حجت کی صحیح پوزیشن کیا ہوتی ہے۔ اسلام کی نسبت سے عقلاً انسان کی دوہی حیثیتیں ہو سکتی ہیں‘ یا تو وہ مسلمان ہوگا، یا کافرہوگا۔ اگر مسلمان ہے تو مسلمان ہونے کی معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسولؐ تسلیم کر چکا ہے اوریہ بھی اقرار کرچکا ہے کہ خدا کی طرف سے اس کا رسولؐ جو کچھ حکم پہنچائے گا اُس کی اطاعت وہ بے چون و چرا کرے گا۔ اب فرداً فرداً ایک ایک حکم پر حجت عقلی طلب کرنے کا اسے حق ہی نہیں رہا۔ مسلم ہونے کی حیثیت سے اس کاکام صرف یہ تحقیق کرنا ہے کہ کوئی خاص حکم رسول خداؐ نے دیا ہے یا نہیں۔ جب حجت نقلی سے یہ حکم ثابت کر دیا گیا تو اس کو فوراً اطاعت کرنی چاہیے۔ وہ اپنے اطمینان قلب اور حصول بصیرت کے لیے حجت عقلی دریافت کرسکتا ہے مگر اس وقت جب کہ وہ اطاعت حکم کے لیے سرجھکا چکا ہو، اطاعت کے لیے حجت عقلی کو شرط قرار دینا، اور حجت نہ ملنے یا اطمینانِ قلب نہ ہونے پر اطاعت سے انکار کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ دراصل رسولؐ خدا کی حاکمیت (اتھارٹی) کا انکار کر رہا ہے اور یہ انکار مستلزم({ FR 1097 }) کفر ہے‘ حالانکہ ابتدا میں اس نے خود مسلم ہونے کا اقرار کیا تھا۔ اب اگر وہ کافر کی حیثیت اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے صحیح جائے قیام دائرۂ اسلام کے اندر نہیں بلکہ اس کے باہر ہے۔ سب سے پہلے اس میں اتنی اخلاقی جرأت ہونی چاہیے کہ جس مذہب پر در حقیقت وہ ایمان نہیں رکھتا اس سے نکل جائے۔ اس کے بعد وہ اس لائق سمجھا جائے گا کہ حجتِ عقلی طلب کرے اور اس کی طلب کا جواب دیا جائے۔
یہ قاعدہ عقلِ سلیم کے مقتضیات میں سے ہے اور دنیا میں کوئی نظم اور کوئی ضابطہ اس کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا۔ کوئی حکومت ایک لمحے کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتی جس کی رعایا کا ہر فرد اس کے حکم پر حجت عقلی کا مطالبہ کرے اور حجت کے بغیر اطاعتِ امر سے انکار کردے۔ کوئی فوج درحقیقت ایک فوج ہی نہیں بن سکتی اگر اُس کا ہر سپاہی جنرل کے حکم کی وجہ دریافت کرے اور ہر معاملے میںاپنے اطمینان قلب کو اطاعت کے لیے شرط قرار دے۔ کوئی مدرسہ‘ کوئی کالج، کوئی انجمن غرض کوئی اجتماعی نظام اس اصول پر نہیں بن سکتا کہ ہر ہر فرد کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے‘ اور جب تک ایک ایک شخص کو اطمینان حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک کسی حکم کی اطاعت نہ کی جائے۔ انسان جس نظام میں داخل ہوتا ہے اس ابتدائی اور بنیادی مفروضے کے ساتھ داخل ہوتا ہے کہ وہ اس نظام کے اقتدارِ اعلیٰ پر کلی حیثیت سے اعتقاد رکھتا ہے اور اس کی حکمرانی کو تسلیم کرتا ہے۔ اب جس وقت تک وہ اس نظام کا جز ہے اس کا فرض ہے کہ اقتدار اعلیٰ کی اطاعت کرے‘ خواہ کسی جزئی حکم پر اس کو اطمینان ہو یا نہ ہو۔ مجرمانہ حیثیت سے کسی حکم کی خلاف ورزی کرنا امر دیگر ہے۔ ایک شخص جزئیات میں نافرمانی کرکے بھی ایک نظام میں شامل رہ سکتا ہے، لیکن اگرکوئی شخص کسی چھوٹے سے چھوٹے جزئیے میں بھی اپنے ذاتی اطمینان کو اطاعت کے لیے شرط قرار دیتا ہے تو دراصل وہ اقتدار اعلیٰ کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے، اور یہ صریح بغاوت ہے۔ حکومت میں یہ طرز عمل اختیار کیا جائے گا تو اس پر بغاوت کا مقدمہ قائم کر دیا جائے گا‘ فوج میں اس کا کورٹ مارشل ہوگا‘ مدرسے اورکالج میں فوری اخراج کی کارروائی کی جائے گی‘ مذہب میں اس پر کفر کا حکم جاری ہوگا۔ اس لیے کہ اس نوع کے طلب حجت کا حق کسی نظام کے اندر رہ کر کسی شخص کو نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے طالبِ حجت کا صحیح مقام اندر نہیں‘ باہر ہے۔ پہلے وہ باہر نکل جائے پھر جو چاہے اعتراض کرے۔
اسلام کی تعلیم میں یہ قاعدہ اصل اور اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ پہلے احکام نہیں دیتا بلکہ سب سے پہلے اللہ اور رسولﷺ پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ جتنی حجتیں ہیں سب اسی ایک چیز پر تمام کی گئی ہیں۔ ہر عقلی دلیل اور فطری شہادت سے انسان کو اس امر پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ خدائے واحد ہی اس کا الٰہ ہے‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسولؐ ہیں۔ آپ جس قدر عقلی جانچ پڑتال کرنا چاہتے ہیں، اس بنیادی مسئلے پر کر لیجیے۔ اگر کسی دلیل اور کسی حجت سے آپ کا دل اس پر مطمئن نہ ہو تو آپ کو داخل اسلام ہونے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور نہ احکام اسلام میں سے کوئی حکم آپ پر جاری ہوگا۔ لیکن جب آپ نے اس کو قبول کرلیا تو آپ کی حیثیت ایک مُسلم‘ کی ہوگئی اور مسلم کے معنی ہی مطیع کے ہیں۔ اب یہ ضروری نہیں کہ اسلام کے ہر ہر حکم پر آپ کے سامنے دلیل و حجت پیش کی جائے اور احکام کی اطاعت کرنے کا انحصار آپ کے اطمینان قلب پر ہو۔ مسلم بن جانے کے بعد آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ جو حکم آپ کو خدا اور رسول کی طرف سے پہنچے بے چون و چرا اس کی اطاعت میں سر جھکا دیں:
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا النور24:51
ایمان لانے والوں کاکام تو یہ ہے کہ جب ان کو اللہ اور رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ رسول ان کے درمیان حکم کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔
ایمان‘ اور ایسی طلبِ حجت جو تسلیم و اطاعت کے لیے شرط ہو‘ باہم متناقض ہیں‘ اور ان دونوں کا اجتماع صریح عقل سلیم کے خلاف ہے۔ جو مومن ہے وہ اس حیثیت سے طالب حجت نہیں ہوسکتا‘ اور جو ایسا طالبِ حجت ہے وہ مومن نہیں ہوسکتا:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَى اللہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ۰ۭ الاحزاب33:36
کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی امر کا فیصلہ کر دے تو ان کو اپنے معاملے میں خود کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔
اسلام نے اصلاح اور تنظیم کا جو عظیم الشان کام انجام دیا ہے وہ سب اسی قاعدے کی وجہ سے ہے۔ دلوں میں ایمان بٹھا دینے کے بعد جس چیز سے روکا گیا تمام اہلِ ایمان اس سے رک گئے، اور جس چیز کا حکم دیا گیا وہ ایک اشارے پر لاکھوں کروڑوں انسانوں میں رائج ہوگئی۔ اگر ایک ایک چیز کے لیے عقلی حجتیں پیش کرنا ضروری ہوتا اورہر امر و نہی کی حکمتیں اور مصلحتیں سمجھانے پراطاعت احکام موقوف ہوتی تو قیامت تک انسانی اخلاق کی وہ اصلاح اور اعمال کی تنظیم نہ ہوسکتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۳ سال کی مختصر مدت میں انجام دے دی۔
اس کے یہ معنی نہیں کہ اسلام کے احکام خلاف عقل ہیں، یا اس کا کوئی جزئی حکم بھی حکمت و مصلحت سے خالی ہے۔ اس کے معنی یہ بھی نہیں کہ اسلام اپنے پیروئوں سے اندھوں کی سی تقلید چاہتا ہے اور احکام کی عقلی و فطری بنیادوں کو تلاش کرنے اور ان کے مصالح و حکم({ FR 1098 }) کو سمجھنے سے روکتا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسلام کی صحیح پیروی کے لیے تفقہ(۲) اور تدبر ضروری ہے۔ جو شخص احکام کی حکمتوں اور مصلحتوں کو جتنا زیادہ سمجھے گا وہ اتنا ہی صحیح اتباع کرسکے گا۔ ایسے فہم اور ایسی بصیرت سے اسلام روکتا نہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، لیکن زمین و آسمان کا فرق ہے اس عقلی تجسس میں جو اطاعت کے بعد ہو‘ اور اُس عقلی امتحان میں جو اطاعت سے پہلے اوراطاعت کے لیے شرط ہو۔ مسلم سب سے پہلے غیر مشروط اطاعت کرتا ہے‘ پھر احکام کی مصلحتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے‘ اور یہ ضروری نہیں کہ ہر حکم کی مصلحت اس کی سمجھ میں آجائے۔ اس کو تو دراصل خدا کی خدائی اور رسولﷺ کی رسالت پر اطمینان کلی حاصل ہے۔ اس کے بعد وہ بصیرتِ تامہ حاصل کرنے کے لیے جزئیات پر مزید اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ اطمینان بھی حاصل ہو جائے تو خدا کا شکر ادا کرتا ہے لیکن اگر حاصل نہ ہو تو اطمینان کلی کی بنا پر جو اسے خدا اور رسولؐ پر ہے‘ بلا تامل احکام کی اطاعت کیے چلا جاتا ہے۔ اس قسم کی طلبِ حجت کو اس طلبِ حجت سے کیا نسبت جو ہر قدم پر پیش کی جائے اور اس داعیے کے ساتھ پیش کی جائے کہ اگر میرا اطمینان کرتے ہو تو قدم اٹھاتا ہوں ورنہ پیچھے پلٹا جاتا ہوں۔
حال میں ایک تحریر ہماری نظر سے گزری جو ایک مسلم جماعت کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ یہ جماعت اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مذہب سے منحرف بھی نہیں بلکہ اپنی دانست میں بڑی مذہبی خدمت انجام دے رہی ہے۔ مذہبی ’اصلاح‘ کے نام سے جن امور کی تبلیغ وہ کرتی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر سال بقر عید کے موقع پر مسلمانوں کو قربانی سے روکا جاتا ہے اور انھیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ جو روپیہ وہ جانوروں کو ذبح کرنے پر صَرف کرتے ہیں اسے قومی ادارات کی اعانت، یتیموں اور بیوائوں کی پرورش اور بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے میں صَرف کریں۔ اس تبلیغ پر کسی مسلمان نے اعتراض کیا جس کی پوری عبارت ہم تک نہیں پہنچی ہے مگر اس اعتراض کے جواب میں جو کچھ کہا گیا وہ یہ ہے:
سوائے نقل و تقلید کے آج تک کسی صاحب نے قربانی کے عقلی و تجربی فوائد پر روشنی نہیں ڈالی …… اگر کوئی صاحب اس سے پہلے ہم کو اپنے عقیدۂ قربانی کے عقلی پہلو سے آگاہ فرمائیں تو ہمارے شکریے کے مستحق ہوں گے۔
یہ تحریر نمونہ ہے ان لوگوں کی دماغی حالت کا جو اپنے آپ کو’تعلیم یافتہ‘ کہتے ہیں۔ ایک طرف ’عقلیت‘ کا اس قدر زبردست دعویٰ ہے اور دوسری طرف ’’غیر عقلیت‘‘ کا ایسا شدید مظاہرہ ہے۔ صرف یہی دو فقرے جو قلم مبارک سے نکلے ہیں اس امر کی شہادت دے رہے ہیں کہ آپ نے اپنی صحیح حیثیت ہی متعین نہیں کی۔ اگر آپ مسلم کی حیثیت سے بول رہے ہیں تو آپ کو سب سے پہلے ’نقل‘ کے آگے سر جھکانا چاہیے۔ پھر عقلی حجت کا مطالبہ کرنے کا حق آپ کو ہوگا‘ اور وہ بھی شرط اطاعت کے طورپر نہیں بلکہ محض اطمینان قلب کے لیے، اور اگر آپ اطاعت سے پہلے حجت عقلی کے طالب ہیں اور یہ شرط اطاعت ہے تو آپ کو مسلم کی حیثیت سے بولنے کا ہی حق نہیں ہے۔ اس نوع کے طالب حجت کو پہلے ایک غیر مسلم کی حیثیت اختیار کرنی چاہیے۔ پھر اس کو یہ حق تو حاصل ہوگا کہ جس مسئلے پر چاہے اعتراض کرے‘ مگر یہ حق نہ ہوگا کہ مسلمانوں کے کسی امردینی میں مفتی اسلام بن کر فتویٰ صادر کرے۔ آپ ایک ہی وقت میں ان دونوں متضاد حیثیتوں کو اختیار کرتے ہیں اور ایک حیثیت کے بھی عقلی لوازم پورے نہیں کرتے۔ ایک طرف آپ نہ صرف ’مسلم‘ بلکہ مفتیِ اسلام بنتے ہیں، دوسری طرف آپ کا حال یہ ہے کہ ’نقل‘ کو آپ ہیچ سمجھتے ہیں۔ حکم کا حکم ہونا آپ کو نقل کے ذریعے سے ثابت کیا جاتا ہے تو آپ اس کی اطاعت سے انکار کر دیتے ہیں اور یہ شرط پیش فرماتے ہیں کہ پہلے اس حکم کے عقلی و تجربی فوائد پر روشنی ڈالی جائے۔ بالفاظ دیگر آپ کسی حکم کو محض حکم خدا اور رسولؐ ہونے کی حیثیت سے نہیں مانیں گے بلکہ اس کے عقلی و تجربی فوائد کی بنا پر مانیں گے۔ اگر ایسے فوائد معلوم نہ ہوسکیں، یا آپ کے معیار پر وہ فوائد ثابت نہ ہوں تو آپ حکم کو رد کردیں گے‘ اس کے خلاف پراپیگنڈا کریں گے‘ اس کو بے محل، بے معنی’ فضول‘ بلکہ مضر اور مسرفانہ({ FR 1099 }) رسم‘ قرار دیں گے اور مسلمانوں کو اس کے اتباع سے روکنے میں اپنی پوری قوت صَرف کریں گے۔ کون سی عقل ہے جو اس متناقض(۲) طرز عمل اور متضاد حیثیات کے اختلاط کو جائز رکھتی ہے؟ حجت عقلی کا مطالبہ بجا و درست ہے‘ مگر پہلے یہ تو ثابت کیجیے کہ آپ ذوی العقول(۳) میں سے ہیں۔
’عقلی‘ اور تجربی فائدہ کسی ایک مخصوص اور مُعیّن چیز کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک نسبتی و اضافی چیز ہے۔ ایک شخص کی عقل ایک چیز کو مفید سمجھتی ہے۔ دوسرے کی عقل اس کے خلاف حکم لگاتی ہے۔ تیسرا شخص اس میں کسی نوع کا فائدہ تسلیم کرتا ہے مگر اس کو اہمیت نہیں دیتا اور ایک دوسری چیز کو اس سے زیادہ مفید ٹھہراتا ہے۔ تجربی فوائد میں اس سے بھی زیادہ اختلاف کی گنجائش ہے۔فائدے کے متعلق ہر شخص کا نظریہ الگ ہے‘ اور اسی نظریے کے لحاظ سے وہ اپنے یا دوسروں کے تجربات کو مرتب کرکے مفید یا غیر مفید ہونے کا حکم لگاتا ہے۔ ایک شخص نفع عاجل({ FR 1101 }) کا طالب ہے‘ اور صرف ضرر(۲) عاجل کو قابل حذر سمجھتا ہے۔ اس کا انتخاب ایسے شخص کے انتخاب سے یقیناً مختلف ہوگا جس کی نظر مآلِ کار(۳) پر ہو۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن میں ایک نوع کا فائدہ اور دوسری نوع کی مضرت ہے۔ ایک شخص ان کو اس لیے اختیار کرتا ہے کہ وہ فائدے کی خاطر مضرت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ دوسرا شخص ان سے اجتناب کرتا ہے کیونکہ اس کی رائے میں ان کی مضرت ان کے فائدے سے زیادہ ہے۔ پھر عقلی اور تجربی فوائد میں بھی بسا اوقات تخالف(۴) پایا جاتا ہے۔ ایک چیز تجربی حیثیت سے مضر ہے مگرعقل فیصلہ کرتی ہے کہ کسی بڑے عقلی فائدے کے لیے اس مضرت کو برداشت کرنا چاہیے۔ ایک دوسری چیز ہے جو تجربی حیثیت سے مفید ہے مگر عقل یہ فتویٰ دیتی ہے کہ کسی عقلی مضرت سے بچنے کے لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ایسے اختلافات کی موجودگی میں کسی چیز کے ’عقلی‘ اور ’تجربی‘ فوائد پر کوئی ایسی روشنی ڈالنی ممکن ہی نہیں جس سے تمام لوگ اس کے مفید ہونے پر متفق ہو جائیں‘ اور انکارکی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ محض ایک قربانی پر کیا موقوف ہے، نماز‘ روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور اوامر و نواہی شریعت میں سے کون سی چیز ایسی ہے جس کے عقلی اور تجربی فوائد پر ایسی روشنی ڈال دی گئی ہو کہ وہ کالشمس فی النہار(۵) نظر آنے لگے ہوں اور تمام لوگوں نے ان کو تسلیم کرکے ان کی پابندی اختیار کرلی ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو آج ایک شخص بھی دنیا میں تارک صوم و صلوٰۃ اور منکر حج و زکوٰۃ نہ ہوتا۔ اسی لیے اسلام نے احکام کو ہر شخص کی عقل اور تجربے کے فتوے پر موقوف نہیں رکھا بلکہ ایمان اور اطاعت کو اساس بنایا ہے۔
مسلم‘ عقلی اور تجربی فوائد پر ایمان نہیں لاتا، بلکہ خدا اور رسولؐ پر ایمان لاتا ہے۔ اس کا مذہب یہ نہیں ہے کہ کسی چیز کافائدہ عقل و تجربے سے ثابت ہو جائے تب وہ اس کو قبول کرے‘ اور کسی چیز کی مضرت عقلی و تجربی حیثیت سے مبرہن({ FR 1102 }) ہو جائے تب وہ اس سے اجتناب کرے، بلکہ اس کا مذہب یہ ہے کہ جو حکم خدا اور رسولؐ سے ثابت ہو جائے وہ واجب الاتباع ہے اور جو ثابت نہ ہو وہ قابلِ اتباع نہیں۔
پس یہاں اصلی سوال یہی ہے کہ آپ کا ایمان عقل اور تجربے پر ہے، یا خدا اور اس کے رسولؐ پر؟ اگر پہلی بات ہے تو آپ کو اسلام سے کچھ واسطہ نہیں۔ پھر آپ کو مسلمان بن کر گفتگو کرنے اور مسلمانوں کو ’’ارض غیر ذی ذرع کی نام نہاد سنت‘‘ سے اجتناب کا مشورہ دینے کا کیا حق ہے اور اگر دوسری بات ہے تو مدار بحث عقلی و تجربی فوائد نہ ہونے چاہییں بلکہ یہ سوال ہونا چاہیے کہ آیا قربانی محض ایک رسم ہے جس کو مسلمانوں نے گھڑ لیا ہے، یا ایک عبادت ہے جس کو اللہ نے پسند فرمایا ہے اور اللہ کے رسولؐ نے اپنی امت میں جاری کیا ہے؟
(ترجمان القرآن، ربیع الاول ۱۳۵۵ھ۔ جون ۱۹۳۶ء)