ان حقوق کے مقابلے میں شہریوں پر ریاست کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں سے پہلا حق اطاعت کا ہے جس کے لیے اسلام میں سمع و طاعت کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ نبیﷺ نے اس کے متعلق یہ صراحت فرمائی ہے کہ السمع والطاعۃ فی العسر والیسر والمنشط والمکرہ (سننا اور ماننا پڑے گا، تنگی اور فراخی اور خوشگواری اورناخوشگواری میں)یعنی خواہ کوئی حکم آدمی کو گوارا ہو یا ناگوار اورخواہ کوئی شخص اس کو بآسانی بجا لا سکے یا دشواری سے‘ بہرحال اسے اطاعت کرنی پڑے گی۔ اسلامی حکومت کا دوسرا اہم حق اس کے شہریوں پر یہ ہے کہ وہ اس کے وفادار اور خیر خواہ رہیں۔ قرآن اور حدیث میں اس کے لیے نصح کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس کا مفہوم عربی زبان میں(Loyalty) اور (Allegiance) سے زیادہ وسیع ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک آدمی سچے دل سے اپنی حکومت کی بھلائی چاہے۔ اس کو نقصان پہنچانے والی کسی چیز کو گوارا نہ کرے اور اس کی فلاح و بہبود سے قلبی وابستگی رکھے۔
یہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسلام میں شہریوں پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ وہ اسلامی حکومت کے ساتھ پورا تعاون کریں اور اس کے لیے کسی جانی و مالی قربانی سے دریغ نہ کریں، حتیٰ کہ اگر دارالاسلام کو کوئی خطرہ پیش آ جائے تو قرآن مجید صاف الفاظ میں اس شخص کو منافق قرار دیتا ہے جو قدرت رکھنے کے باوجود دارلاسلام کی مدافعت میں جان ومال کی قربانی سے دریغ کرے۔
حضرات، یہ ہیں اس حکومت کے خدوخال جس کو ہم اسلامی حکومت کہتے ہیں۔ اس طرز کی حکومت کو آپ موجودہ زمانے کی اصطلاحوں میں سے جس نام سے چاہیں یاد کریں۔ آپ کا جی چاہے اسے سیکولر کہیے، ڈیموکریٹک کہیے یا تھیوکریٹک۔ ہمیں کسی اصطلاح پر اصرار نہیں ہے۔ ہمیں جس چیز پر اصرار ہے وہ صرف یہ ہے کہ جس اسلام کے ماننے کا ہم دعویٰ کرتے ہیں۔ ہمارا نظامِ زندگی اور نظامِ حکومت اسی کے بتائے ہوئے اور مقرر کیے ہوئے اصولوں پر قائم ہو۔