Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
تصریح
دیباچہ
باب اوّل: سُنّت کی آئینی حیثیت
ڈاکٹر صاحب کا پہلا خط
جواب
ڈاکٹر صاحب کا دوسرا خط
جواب
سُنّت کیا چیز ہے؟
سُنّت کس شکل میں موجود ہے؟
کیا سُنّت متفق علیہ ہے؟ اور اس کی تحقیق کا ذریعہ کیا ہے؟
چار بنیادی حقیقتیں
دوسرے خط کا جواب
چار نکات
نکتۂ اُولیٰ
رسول اللّٰہa کے کام کی نوعیت
حضور a کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت کا فرق
قرآن سے زائد ہونا اور قرآن کے خلاف ہونا ہم معنی نہیں ہے
کیا سُنّت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے؟
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
احادیث کو پرکھنے میں روایت اور درایت کا استعمال
نکتۂ چہارم
اشاعت کا مطالبہ
باب دوم: منصبِ نبوت
ڈاکٹر صاحب کا خط
جواب
۱۔ منصب ِنبوّت اور اس کے فرائض
۲۔ رسول پاکﷺ کے تشریعی اختیارات
۳۔ سُنّت اور اتباع سُنّت کا مفہوم
۴۔رسولﷺ پاک کس وحی کے اتباع پر مامور تھے، اور ہم کس کے اتباع پر مامور ہیں؟
۵۔ مرکزِ ملّت
۶۔ کیا حضورﷺ صرف قرآن پہنچانے کی حد تک نبی تھے؟
۷۔ حضورﷺ کی اجتہادی لغزشوں سے غلط استدلال
۸۔ موہوم خطرات
۹۔ خلفائے راشدین پر بہتان
۱۰۔ کیا حضورﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟
سُنّت کے متعلق چند مزید سوالات
جواب
وحی پر ایمان کی وجہ
مَااَنْزَلَ اللّٰہُ سے کیا چیز مراد ہے؟
سُنّت کہاں ہے؟
وحی سے مراد کیا چیز ہے؟
محض تکرارِ سوال
ایمان وکفر کا مدار
کیا احکامِ سُنّت میں رد وبدل ہو سکتا ہے؟
باب سوم : اعتراضات اور جوابات
۱۔ بزمِ طلوع اِسلام سے تعلق؟
۲۔ کیا گشتی سوال نامے کا مقصد علمی تحقیق تھا؟
۳۔ رسولﷺ کی حیثیت ِ شخصی و حیثیتِ نبویﷺ
۴۔ تعلیماتِ سنّت میں فرقِ مراتب
۵۔ علمی تحقیق یا جھگڑالو پن؟
۶۔ رسولﷺ کی دونوں حیثیتوں میں امتیاز کا اصول اور طریقہ
۷۔ قرآن کی طرح احادیث بھی کیوں نہ لکھوائی گئیں؟
۸۔ دجل وفریب کا ایک نمونہ
۹۔ حدیث میں کیا چیز مشکوک ہے اور کیا مشکوک نہیں ہے
۱۰۔ ایک اور فریب
۱۱۔ کیا امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے؟
۱۲۔ سُنّت نے اختلافات کم کیے ہیں یا بڑھائے ہیں؟
۱۳۔ منکرینِ سُنّت اور منکرینِ ختم نبوت میں مماثلت کے وجوہ
۱۴۔ کیا آئین کی بنیاد وہی چیز ہو سکتی ہے جس میں اختلاف ممکن نہ ہو؟
۱۵۔ قرآن اور سُنّت دونوں کے معاملے میں رفعِ اختلاف کی صورت ایک ہی ہے
۱۶۔ ایک دل چسپ مغالطہ
۱۷۔ شخصی قانون اور ملکی قانون میں تفریق کیوں؟
۱۸۔ حیثیت ِرسول ﷺ کے بارے میں فیصلہ کن بات سے گریز
۱۹۔ کیا کسی غیر نبی کو نبی کی تمام حیثیات حاصل ہو سکتی ہیں
۲۰۔ اِسلامی نظام کے امیر اور منکرینِ حدیث کے مرکزِ ملت میں عظیم فرق
۲۱۔ عہد رسالت میں مشاورت کے حدود کیا تھے؟
۲۲۔ اذان کا طریقہ مشورے سے طے ہوا تھا یا الہام سے؟
۲۳۔ حضورﷺ کے عدالتی فیصلے سند وحجت ہیں یا نہیں؟
۲۴۔ کج بحثی کا ایک عجیب نمونہ
۲۵۔ کیا اللہ تعالیٰ بھی غلطی کرسکتا ہے؟
۲۶۔حضورﷺ کے ذاتی خیال اور بربنائے وحی کہی ہوئی بات میں واضح امتیاز تھا
۲۷۔ کیا صحابہؓ اس بات کے قائل تھے کہ حضورﷺ کے فیصلے بدلے جا سکتے ہیں؟
۲۸۔ مسئلہ طلاق ثلاثہ میں حضرت عمرؓ کے فیصلے کی اصل نوعیت
۲۹۔ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں حضرت عمرؓ کے استدلال کی نوعیت
۳۰۔ کیا مفتوحہ اراضی کے بارے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ حکم رسولﷺ کے خلاف تھا؟
۳۱۔ وظائف کی تقسیم کے معاملے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ
۳۲۔ کیا قرآن کے معاشی احکام عبوری دور کے لیے ہیں؟
۳۳۔ ’’عبوری دور‘‘ کا غلط مفہوم
۳۴۔ حضورﷺکیا صرف شارح قرآن ہی ہیں یا شارع بھی؟
۳۵۔ بصیرت رسولﷺ کے خداداد ہونے کا مفہوم
۳۶۔ وحی کی اقسام ازروئے قرآن
۳۷۔ وحی غیرمتلو پر ایمان، ایمان بالرسول کا جُز ہے
۳۸۔ کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟
۳۹۔ کتاب اور حکمت ایک ہی چیز یا الگ الگ
۴۰۔ لفظ تلاوت کے معنی
۴۱۔ کتاب کے ساتھ میزان کے نزول کا مطلب
۴۲۔ ایک اور کج بحثی
۴۳۔ تحویلِ قبلہ والی آیت میں کون سا قبلہ مراد ہے؟
۴۴۔ قبلے کے معاملے میں رسولﷺ کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہوتا تھا؟
۴۵۔ نبی پر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام
۴۶۔ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا کا مطلب
۴۷۔ کیا وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے؟
۴۸۔ بے معنی اعتراضات اور الزامات
۴۹۔ کیا آنحضورﷺ نے صحابہؓ کو دھوکا دیا تھا؟
۵۰۔ کیا آنحضورﷺ اپنے خواب سے متعلق متردد تھے؟
۵۱۔دروغ گویم بر رُوئے تو
۵۲۔ رُو در رُو بہتان
۵۳۔ نَبَّأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ کا مطلب

سنت کی آئینی حیثیت

انکار سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ سنت حائل تھی جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا، اور اس کی راہ میں حضور کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں خوارج کے انتہا پسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر اُنھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دو گونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، اُنھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح اُنھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ اُنھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر عقل کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کی عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے وہ ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو جائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے اُنھوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھیرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کیا۔ اس کتاب میں مولانا مودودیؒ نے مخالفانہ دلائل کو ایک ایک کرکے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سید مودودیؒ کتاب کے آخر میں رقم طراز ہیں: ”ہم نے ایک ایک دلیل کا تفصیلی جائزہ لے کر جو بحث کی ہے اسے پڑھ کر ہر صاحب علم آدمی خود یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ ان دلائل میں کتنا وزن ہے اور ان کے مقابلے میں سنت کے ماخذ قانون اور احادیث کے قابل استناد ہونے پر جو دلیلیں ہم نے قائم کی ہیں وہ کس حد تک وزنی ہیں۔ ہم خاص طور پر خود فاضل جج سے اور مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے رفقا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پورے غور کے ساتھ ہماری اس تنقید کو ملاحظہ فرمائیں اور اگر ان کی بے لاگ رائے میں، جیسی کہ ایک عدالت عالیہ کے فاضل ججوں کے رائے بے لاک ہونی چاہیے، یہ تنقید فی الواقع مضبوط دلائل پر مبنی ہو تو وہ قانون کے مطابق کوئی ایسی تدبیر عمل میں لائیں جس سے یہ فیصلہ آئیندہ کے لیے نظیر نہ بن سکے۔ عدالتوں کا وقار ہر ملک کے نظام عدل و انصاف کی جان ہوتا ہے اور بہت بڑی حد تک اسی پر ایک مملکت کے استحکام کا انحصار ہوتا ہے۔ اس وقار کے لیے کوئی چیز اس سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں ہے کہ ملک کی بلند ترین عدالتوں کے فیصلے علمی حیثیت سے کمزور دلائل اور ناکافی معلومات پر مشتمل ہوں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب ایمان دارانہ تنقید سے ایسی کسی غلطی کی نشان دہی ہو جائے تو اولین فرصت میں خود حاکمان عدالت ہی اس کی تلافی کی طرف توجہ فرمائیں۔“ حدیث کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کرنے والے افراد کے لیے اس کتاب کو پڑھنا بہت اہم ہے۔

۹۔ خلفائے راشدین پر بہتان

آ پ کا نکتہ نمبر ۹ یہ ہے:
حضرات خلفائے کرام اچھی طرح سمجھتے تھے کہ وحی الکتاب کے اندر محفوظ ہے اور اس کے بعد حضور ﷺ جو کچھ کرتے تھے، باہمی مشاورت سے کرتے تھے۔ اس لیے حضور ﷺ کی وفات کے بعد نظام میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ سلطنت کی وسعت کے ساتھ تقاضے بڑھتے گئے اس لیے آئے دن نئے نئے امور سامنے آتے تھے جن کے تصفیے کے لیے اگرکوئی پہلا فیصلہ مل جاتا جس میں تبدیلی کی ضرورت نہ ہوتی تو اسے علیٰ حالہٖ قائم رکھتے تھے۔ اگر اس میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی تو باہمی مشاورت سے تبدیلی کر لیتے اور اگر نئے فیصلے کی ضرورت ہوتی تو باہمی مشاورت سے نیا فیصلہ کر لیتے۔ یہ سب کچھ قرآن کی روشنی میں ہوتا تھا۔ یہی طریقہ رسول اللّٰہﷺ کا تھا، اور اسی کو حضور ﷺ کے جانشینوں نے قائم رکھا۔ اسی کا نام اتباع رسولﷺ تھا۔
اس عبارت میں آپ نے پے درپے متعدد غلط باتیں فرمائی ہیں۔ آپ کی پہلی غلط بیانی یہ ہے کہ رسول اللّٰہﷺ جوکچھ کرتے تھے، باہمی مشاورت سے کرتے تھے، حالانکہ مشاورت حضورﷺ نے صرف تدابیر کے معاملے میں کی ہے اور وہ بھی ان تدابیر کے معاملے میں جن کے اختیار کرنے کا حکم آپ کو وحی سے نہیں ملا ہے۔ قرآن کی تعبیر وتفسیر، اور اس کے کسی لفظ یا فقرے کا منشا مشخص کرنے میں حضور ﷺ نے کبھی کسی سے مشورہ نہیں لیا۔ اس معاملے میں آپ کی اپنی ہی شرح قطعی ناطق تھی۔ اسی طرح آپﷺ کے پورے عہد ِرسالت میں کبھی یہ طے کرنے کے لیے کوئی مشاورت نہیں ہوئی کہ لوگوں کے لیے کس چیز کو فرض وواجب، کس چیز کو حلال وجائز اور کس چیز کو ممنوع وحرام ٹھہرایا جائے اور معاشرے میں کیا قاعدے اور ضابطے مقرر کیے جائیں۔ حضور ﷺ کی حیات طیبہ میں تنہا آپﷺ کی زبان اور آپ کی عملی زندگی ہی لیجسلیچر(legislature) تھی۔کوئی مومن یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ان معاملات میں وہ حضور ﷺ کے سامنے زبان کھولنے کا مجاز ہے۔ کیا آپ کوئی مثال ایسی پیش کر سکتے ہیں کہ عہدِ رسالت میں قرآن کے کسی حکم کی تعبیر مشورے سے کی گئی ہو، یا کوئی قانون مشورے سے بنایا گیا ہو؟ بہت سی نہیں، صرف ایک مثال ہی آپ پیش فرما دیں۔
دوسری خلافِ واقعہ بات آپ یہ فرما رہے ہیں کہ خلفائے راشدین صرف قرآن کو منبع ہدایت سمجھتے تھے اور رسول اللّٰہ ﷺ کے قول وعمل کو واجب الاتباع مآخذ قانون نہیں سمجھتے تھے۔ یہ ان بزرگوں پر آپ کا سخت بہتان ہے جس کے ثبوت میں نہ آپ اُن کا کوئی قول پیش کر سکتے ہیں، نہ عمل۔ اگر اس کا کوئی ثبوت آپ کے پاس ہے تو وہ سامنے لائیے۔ ان کے طرز عمل کی جو شہادتیں ان کے زمانے سے متصل لوگوں نے دی ہیں وہ تو یہ ہیں:
اتباعِ سنت اور خلفائے راشدین
۱۔ ابن سیرین (۳۳ھ۔ ۱۱۰ھ) کہتے ہیں کہ:
ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے سامنے جب کوئی معاملہ پیش ہوتا اور وہ نہ کتاب اللّٰہ میں سے اس کے لیے کوئی حکم پاتے، نہ سُنّت میں اس کی کوئی نظیر ملتی تب وہ اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرتے اور فرماتے یہ میری رائے ہے، اگر صحیح ہے تو اللّٰہ کا فضل ہے۔
(ابن القیم، اعلام الموقعین، ج۱، ص ۵۴)
۲۔میمون بن مہران کہتے ہیں:
ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ اگر کسی معاملے کا فیصلہ انھیں کرنا ہوتا تو پہلے کتاب اللّٰہ میں دیکھتے، اگر وہاں اس کا حکم نہ ملتا تو سُنّتِ رسول اللّٰہ ﷺ میں تلاش کرتے۔ اگر وہاں حکم مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اور اگر انھیں اس مسئلے میں سُنّت کا علم نہ ہوتا تو لوگوں سے پوچھتے تھے کہ کیا تم میں سے کسی کو معلوم ہے کہ اس طرح کے کسی معاملے میں رسول اللّٰہ ﷺ نے کوئی فیصلہ فرمایا ہے۔
(کتاب مذکور، ص ۶۲)
۳۔ علامہ ابن قیم ؒنے پوری تحقیق کے بعد اپنا نتیجہ ٔتحقیق یہ بیان کیا ہے کہ لَایُحْفَظُ لِلصَّدِیّقِ خِلاَفَ نَصٍّ وَاحِدٍ اَبَدًا۔’’ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں نص کی خلاف ورزی کی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ (کتاب مذکور، ج۴، ص ۱۲۰)
۴۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک دادی اپنے پوتے کی میراث کا مطالبہ لے کر آئی جس کی ماں مر چکی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں کتاب اللّٰہ میں کوئی حکم نہیں پاتا جس کی رو سے تجھ کو ماں کا حصہ پہنچتا ہو۔ پھر انھوں نے لوگوں سے پوچھا کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے تو اس معاملے میں کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ اس پر مغیرہ ؓبن شعبہ اور محمد بن مسلمہؓ نے اٹھ کر شہادت دی کہ حضور ﷺ نے دادی کو چھٹا حصہ (یعنی حصہ مادری) دلوایا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓنے اسی کے مطابق فیصلہ کر دیا۔ (بخاری ومسلم)
۵۔ مؤطا میں یہ واقعہ مذکور ہے حضرت ابوبکرؓ نے اپنی صاحب زادی حضرت عائشہؓ کو اپنی زندگی میں کچھ مال دینے کے لیے کہا تھا، مگر انھیں یہ یاد نہیں تھا کہ یہ مال ان کے حوالے کر دیا گیا تھا یا نہیں۔ وفات کے وقت آپ نے ان سے فرمایا کہ اگر وہ مال تم لے چکی ہو، تب تو وہ تمھارے پاس رہے گا (کیوں کہ وہ ہبہ ہو گیا)، لیکن اگر ابھی تک تم نے اسے قبضے میں نہیں لیا ہے تو اب و ہ میرے سب وارثوں میں تقسیم ہو گا (کیوں کہ اس کی حیثیت ہبہ کی نہیں بلکہ وصیت کی ہے اور حدیث لَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ کی رو سے وارث کے حق میں کوئی وصیت میت کے ترکے میں نافذ نہیں ہو سکتی تھی)۔ اس طرح کی بکثرت مثالیں خلیفۂ اول کی زندگی میں ملتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ رسول اللّٰہ ﷺ کے طریقے سے بال برابر ہٹنا بھی جائز نہ رکھتے تھے۔
۶۔ کون نہیں جانتا کہ خلیفہ ہونے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کا اولین اعلان یہ تھا کہ اَطِیْعُوْ نِیْ مَااَطَعْتُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ‘ فَاِنْ عَصَیْتُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ‘ فَلاَ طَاعَۃَ لِیْ عَلَیْکُمْ’’میری اطاعت کرو جب تک میں اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتا رہوں،({ FR 6815 }) لیکن اگر میں اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے۔‘‘ کس کو معلوم نہیں کہ انھوں نے حضورﷺ کی وفات کے بعد جیشِ اُسامہؓ کو صرف اس لیے بھیجنے پر اصرار کیا کہ جس کام کا فیصلہ حضور ﷺ اپنی زندگی میں کر چکے تھے، اسے بدل دینے کا وہ اپنے آپ کو مجاز نہ سمجھتے تھے۔ صحابہ کرام نے جب ان خطرات کی طرف توجہ دلائی جن کا طوفان عرب میں اٹھتا نظر آ رہا تھا اور اس حالت میں شام کی طرف فوج بھیج دینے کو نامناسب قرار دیا، تو حضرت ابوبکرؓ کا جواب یہ تھا کہ لَوْ خَطَفَتْنِیْ الْکِلَابُ وَالذِّئَابُ لَمْ اَرُدَّقضائً قَضٰی بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔’’اگر کتے اور بھیڑئیے بھی مجھے اچک لے جائیں تو میں اس فیصلہ کو نہ بدلوں گا جو رسول اللّٰہ ﷺ نے کر دیا تھا۔‘‘ حضرت عمرؓ نے خواہش ظاہر کی کہ کم از کم اسامہؓ ہی کو اس لشکر کی قیادت سے ہٹا دیں کیوں کہ بڑے بڑے صحابہ اس نوجوان لڑکے کی ماتحتی میں رہنے سے خوش نہیں ہیں تو حضرت ابوبکرؓ نے ان کی ڈاڑھی پکڑ کر فرمایا:
ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ وَعَدَمَتْکَ یَاابْنَ الْخَطَّابِ اِسْتَعْمَلَہ‘ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَأْ مُرُ نِیْ اَنْ اُنَزِّعَہ‘۔
خطاب کے بیٹے! تیری ماں تجھے روئے اور تجھے کھودے، رسول اللّٰہ ﷺ نے اس کو مقرر کیا اور تو مجھ سے کہتا ہے کہ میں اسے ہٹا دوں۔
اس موقع پر لشکر کو روانہ کرتے ہوئے جو تقریر انھوں نے کی اس میں فرمایا:
اِنَّمَا اَنَامُتَّبِعٌ لَسْتُ بِمُبْتَدِعٍ۔
میں تو پیروی کرنے والا ہوں۔ نیا راستہ نکالنے والا نہیں ہوں۔
۷۔ پھر کس سے یہ واقعہ پوشیدہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ کے مطالبہ میراث کو ابوبکر صدیق ؓ نے حدیث رسول اللّٰہﷺ ہی کی بنیاد پر قبول کرنے سے انکار کیا تھا اور اس ’’قصور‘‘ پر وہ آج تک گالیاں کھا رہے ہیں۔
۸۔ مانعین زکوٰۃ کے خلاف جب وہ جہاد کا فیصلہ کر رہے تھے تو حضرت عمرؓ جیسے شخص کو اس کی صحت میں اس لیے تامل تھا کہ جو لوگ کلمہ لاالٰہ الا اللّٰہ کے قائل ہیں ان کے خلاف تلوار کیسے اُٹھائی جا سکتی ہے، مگر اس کا جو جواب انھوں نے دیا، وہ یہ تھا کہ وَاللّٰہِ لَوْمَنَعُوْنِیْ عِقَالاً کَانُوْا یُؤَدُّوْنَہ‘ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُھُمْ عَلٰی مَنْعِہٖ۔’’خدا کی قسم! اگر وہ اونٹ باندھنے کی ایک رسی بھی اس زکوٰۃ میں سے روکیں گے جو وہ رسول اللّٰہ ﷺ کے زمانے میں دیتے تھے تو میں اس پر ان سے لڑوں گا۔‘‘ یہ قول اور یہ عمل تھا اس شخص کا جس نے حضور ﷺ کے بعد سب سے پہلے زمام کار سنبھالی تھی اور آپ کہتے ہیں کہ خلفائے کرام اپنے آپ کو رسول اللّٰہ ﷺ کے فیصلے بدلنے کا مجاز سمجھتے تھے۔
۸۔حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ کا مسلک اس معاملے میں جو کچھ تھا، اسے وہ خود قاضی شریح کے نام اپنے خط میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:
اگر تم کوئی حکم کتاب اللّٰہ میں پائو تو اس کے مطابق فیصلہ کر دو اور اس کی موجودگی میں کسی دوسری چیز کی طرف توجہ نہ کرو اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جس کا حکم کتاب اللّٰہ میں نہ ہو تو رسول اللّٰہﷺ کی سُنّت میں جو حکم ملے اس پر فیصلہ کرو، اور اگر معاملہ ایسا ہو جس کا حکم نہ کتاب اللّٰہ میں ہو اور نہ سُنّت رسول اللّٰہﷺ میں، تو اس کا فیصلہ اس قانون کے مطابق کرو جس پر اجماع ہو چکا ہو لیکن اگر کسی معاملے میں کتاب اللّٰہ اور سُنّت رسول اللّٰہﷺ دونوں خاموش ہوں اور تم سے پہلے اس کے متعلق کوئی اجماعی فیصلہ بھی نہ ہوا ہو تو تمھیں اختیار ہے کہ یا تو پیش قدمی کرکے اپنی اجتہادی رائے سے فیصلہ کر دو، یا پھر ٹھہر کر انتظار کرو({ FR 6816 }) اور میرے نزدیک تمھارا انتظار کرنا زیادہ بہتر ہے۔ (اعلام الموقّعین، ج۱، ص ۶۱۔۶۲)
یہ حضرت عمرؓ کا اپنا لکھا ہوا سرکاری ہدایت نامہ ہے، جو انھوں نے خلیفۂ وقت کی حیثیت سے ضابطۂ عدالت کے متعلق کوفہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھیجا تھا۔ اس کے بعد کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ان کے مسلک کی کوئی دوسری ترجمانی کرے۔
۹۔(حضرت({ FR 6817 }) عمرؓ کے بعد تیسرے خلیفہ حضرت عثمانؓ ہیں۔ بیعت کے بعد اولین خطبہ جو انھوں نے دیا، اس میں وہ علی الاعلان تمام مسلمانوں کومخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
خبردار رہو! میں پیروی کرنے والا ہوں، نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں۔ میرے اوپر کتاب اللّٰہ اور سُنّت نبی ﷺ کی پابندی کے بعد تمھارے تین حق ہیں جن کی میں ذمہ داری لیتا ہوں۔ ایک یہ کہ میرے پیش رو خلفا کے زمانے میں تمھارے اتفاق واجتماع سے جو فیصلے اور طریقے طے ہو چکے ہیں، ان کی پیروی کروں گا۔ دوسرے یہ کہ جو امور اب اہلِ خیر کے اجتماع واتفاق سے طے ہوں گے ان پر عمل درآمد کروں گا۔ تیسرے یہ کہ تمھارے اوپر دست درازی کرنے سے باز رہوں گا جب تک کہ تم ازروئے قانون مواخذے کے مستوجب نہ ہو جائو۔ (تاریخ طبری، ج۳، ص ۴۴۶)
۱۰۔ چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ ہیں۔ انھوں نے خلیفہ ہونے کے بعد اہل مصر سے بیعت لینے کے لیے، اپنے گورنر حضرت قیس بن سعد بن عبادہ کے ہاتھ جو سرکاری فرمان بھیجا تھا اُس میں وہ فرماتے ہیں:
خبردار رہو! ہمارے اوپر تمھارا یہ حق ہے کہ ہم اللّٰہ عزوجل کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سُنّت کے مطابق عمل کریں اور تم پر وہ حق قائم کریں جو کتاب وسُنّت کی رو سے حق ہو، اور رسول اللّٰہ ﷺ کی سُنّت کو جاری کریں اور تمھاری بے خبری کی حالت میں بھی تمھارے ساتھ خیر خواہی کرتے رہیں۔‘‘ (تاریخ طبری، ج۳، ص ۵۵۰)
یہ چاروں خلفا راشدین کے اپنے بیانات ہیں۔ آپ کن ’’حضرات خلفا کرام‘‘ کا ذکر فرما رہے ہیں جو اپنے آپ کو سُنّت رسول اللّٰہﷺ کی پابندی سے آزاد سمجھتے تھے؟ اور ان کا یہ مسلک آپ کو کن ذرائع سے معلوم ہوا ہے؟)
آپ کا یہ خیال بھی محض ایک دعوٰی بلا ثبوت ہے کہ خلفائے راشدین قرآن مجید کے احکام کو تو قطعی واجب الاطاعت مانتے تھے، مگر رسول اللّٰہ ﷺ کے فیصلوں میں جن کو وہ باقی رکھنا مناسب سمجھتے تھے، انھیں باقی رکھتے تھے اور جنھیں بدلنے کی ضرورت سمجھتے تھے انھیں بدل کر باہمی مشاورت سے نئے فیصلے کر لیتے تھے۔ آپ اس کی کوئی نظیر پیش فرمائیں کہ خلافتِ راشدہ کے پورے دور میں نبی ﷺ کا کوئی فیصلہ بدلا گیا ہو، یا کسی خلیفہؓ یا صحابی ؓنے یہ خیال ظاہر کیا ہو کہ ہم حضور ﷺ کے فیصلے حسبِ ضرورت بدل لینے کے مجاز ہیں۔

شیئر کریں