اعتراض: وحی کا دوسرا حصہ، جس کی حفاظت کے متعلق آپ اب فرماتے ہیں کہ ’’اس اہتمام کے پیچھے بھی وہی خدائی تدبیر کار فرما ہے، جو قرآن کی حفاظت میں کار فرما رہی ہے اور اس کو جو شخص چیلنج کرتا ہے وہ دراصل قرآن کی صحت کو چیلنج کرنے کا راستہ اِسلام کے دشمنوں کو دکھاتا ہے۔‘‘ اس کی کیفیت کیا ہے؟ اس کے متعلق مجھ سے نہیں، خود اپنے ہی الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ آپ نے رسائل ومسائل ص ۲۷۰ پر لکھا ہے:
قولِ رسول اور وہ روایات جو حدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں، لازمًا ایک ہی چیز نہیں۔ اور نہ ان روایات کو استناد کے لحاظ سے آیات قرآنی کا ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ آیات قرآنی کے منزَّل من اللّٰہ ہونے میں تو کسی شک کی گنجائش ہی نہیں۔ بخلاف اس کے روایات میں اس شک کی گنجائش موجود ہے کہ جس قول یا فعل کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہے وہ واقعی حضور ﷺ کا ہے یا نہیں۔
جواب: ذرا اس دیانت کو ملاحظہ فرمایا جائے کہ اس کے بعد کے فقرے دانستہ چھوڑ دیے گئے ہیں جن اصحاب کے پاس رسائل ومسائل حصہ اول موجود ہو وہ نکال کر دیکھ لیں، اس فقرے کے بعد متصلاً یہ عبارت موجود ہے:
جو سنتیں تواتر کے ساتھ نبی ﷺسے ہم تک منتقل ہوئی ہیں، یا جو روایات محدثین کی مسلمہ شرائط تواتر پر پوری اترتی ہیں، وہ یقینا ناقابل انکار حجت ہیں لیکن غیر متواتر روایات سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا بلکہ ظنِ غالب حاصل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے علمائے اصول میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ غیر متواتر روایات احکام کی مآخذ تو ہو سکتی ہیں لیکن ایمانیات (یعنی جن سے کفر وایمان کا فرق واقع ہوتا ہے) کی مآخذ نہیں ہو سکتیں۔
یہ اخلاقی جسارت واقعی قابلِ داد ہے کہ مجھے خود میری ہی عبارتوں سے دھوکہ دینے کی کوشش کی جائے۔