دولت حاصل کرنے کے غلط طریقوں کو حرام کرنے کے ساتھ قرآن مجید جائز طریقوں سے حاصل شدہ دولت کو بھی جمع کر کے روک رکھنے کی سخت مذمت کرتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ بخل ایک بہت بڑی برائی ہے:
وَيْلٌ لِّكُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۨo الَّذِيْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗoۙ يَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗٓ اَخْلَدَہٗoۚ كَلَّا لَيُنْۢبَذَنَّ فِي الْحُطَمَۃِo الہمزہ 1-4:104
بڑی خرابی ہے ہر اس شخص کے لیے جو عیب چین اور بدگو ہے، جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا، وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا، ہر گز نہیں، وہ پھینکا جائے گا توڑ ڈالنے والی آگ میں۔
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا يُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۙ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍo التوبہ 34:9
اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں درد ناک سزا کی خبر دے دو۔
وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo التغابن 16:64
اور جو دل کی تنگی (یا نفس کی بخیلی) سے محفوظ رہے، ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَخَيْرًا لَّھُمْ۰ۭ بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْ۰ۭ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۰ۭ آل عمران180:3
اور جولوگ اللہ کے دیے ہوئے فضل کے معاملے میں بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ یہ ان کے لیے اچھا ہے ۔ بلکہ یہ ان کے لیے بہت برا ہے۔ جس ما ل میں انہوں نے بخل کیا ہے اس کا طوق قیامت کے روز ان کے گلے میں ڈالا جائے گا۔( تجارت سے مراد ہے اشیاء اور خدمات کا تبادلہ بالعوض (الجصّاص، احکام القرآن، ج ۲ ص ۲۱۰، مطبعۃ البھیّہ، مصر ، ۱۳۴۷ھ۔ ابن العربی، احکام القرآن، ج۱، ص ۱۷۰، مطبع السعادۃ، مصر، ۱۳۳۱ھ)۔ آپس کی رضا مندی کی شرط خود بخود یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس تبادلہ میں کسی نوعیت کا دبائو نہ ہو، اور نہ کوئی دھوکا یا ایسی چال ہو جو اگر دوسرے فریق کے علم میں آجائے تو وہ اس پر راضی نہ ہو۔
)