ایمانیات پر مجموعی نظر
ایمان کے پانچوں شعبوں پر تفصیل کے ساتھ کلام کیا جا چکا ہے، ان میں سے ہر ایک کے متعلق اسلام کا تفصیلی عقیدہ، نقدِ صحیح کے لحاظ سے اس کا عقلی مرتبہ، انسانی سیرت پر اس کے اثرات، اور تہذیب کی تاسیس و تشکیل میں اس کا حصہ آپ معلوم کر چکے ہیں۔ اب ایک مرتبہ مجموعی حیثیت سے ان سب پر نظر ڈال کر دیکھنا چاہیے کہ یہ ایمانیات مل جل کر کس قسم کی تہذیب پیدا کرتے ہیں۔
اس مضمون کے ابتدائی ابواب میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اسلامی تہذیب کا سنگِ بنیاد حیاتِ دنیا کا یہ تصور ہے کہ انسان کی حیثیت اس کرۂ خاکی میں عام موجودات کی سی نہیں ہے، بلکہ وہ خداوندِ عالم کی طرف سے یہاں خلیفہ بنا کر اتارا گیا ہے۔ اس تصور سے بطور ایک عقلی نتیجے کے انسان کی زندگی کا یہ نصب العین قرار پایا کہ وہ اپنے خالق اور اپنے آقا کی خوش نودی حاصل کرے، اور اس نصب العین کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہو گیا کہ:
اوّلاً، وہ خدا کی صحیح معرفت حاصل کرے۔
ثانیاً، وہ صرف خدا کو آمر اور ناہی، حاکم اور مطاع سمجھے اور اپنے اختیار کو احکامِ خداوندی کے تابع کر دے۔
ثالثاً، وہ ان طریقوں کو معلوم کرے جن سے خدا کی خوش نودی حاصل ہو سکتی ہے، اور جب وہ طریقے معلوم ہو جائیں تو انھی کے مطابق زندگی بسر کرے۔
رابعاً، وہ خدا کی خوش نودی کے ثمرات اور اس کی ناخوشی کے نتائج سے واقف ہو، تاکہ حیاتِ دنیا کے مکمل نتائج سے دھوکا نہ کھائے۔
وہ پانچ عقیدے جن کی تفصیل آپ کو اوپر معلوم ہو چکی ہے، اسی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔
خدا کی ذات و صفات کے متعلق جو کچھ قرآن میں بیان کیا گیا ہے وہ سب اس لیے ہے کہ انسان کو اس ہستی کی صحیح معرفت حاصل ہو جس کی طرف سے وہ خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا گیا ہے اور جس کی خوش نودی حاصل کرنا اس کی زندگی کا نصب العین ہے۔ ملائکہ کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے وہ اس لیے ہے کہ انسان، کائنات کی کارکن طاقتوں میں سے کسی کو کار فرما نہ سمجھ بیٹھے، اور کارفرمائی میں خدا کے سوا کسی کو شریک نہ قرار دے۔ اس علم صحیح کے بعد خدا پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح تمام کائنات پر، اور خود انسان کی زندگی کے غیر اختیاری شعبے پر خدا کی حکومت ہے، اسی طرح انسان اپنی زندگی کے اختیاری شعبے میں بھی خدا کی حکومت تسلیم کرے۔ ہر معاملے میں خدا کو واضعِ قانون اور اپنے آپ کو صرف متبعِ قانون سمجھے، اور اپنے اختیارات کو ان حدود کے اندر محدود کر دے جو خدا نے مقرر کیے ہیں۔ یہی ایمان اپنے اندر وہ قوت رکھتا ہے جو انسان کو خدا کی فرماں روائی کے آگے بطوع و رغبت سرِ تسلیم خم کر دینے کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ اس سے مردِ مومن کے اندر ایک خاص نوعیت کا ضمیر پیدا ہوتا ہے اور ایک خاص قسم کی سیرت بنتی ہے جو قانون اور حدود کا مجبوراً نہیں بلکہ رضا کارانہ اتباع کرنے کے لیے ضروری ہے۔
رسالت اور کتاب کا عقیدہ تیسری ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ انھی دونوں کے ذریعے سے انسان کو ان قوانین اور ان طریقوں کا تفصیلی علم ہوتا ہے جن کو خدا نے انسان کے لیے مقرر کیا ہے۔ اور ان حدود کی شناخت میسر ہوتی ہے جن سے خدا نے انسان کے اختیارات کو محدود فرمایا ہے۔ رسولؐ کی تعلیم کو خدا کی تعلیم، اور اس کی پیش کی ہوئی کتاب کو خدا کی کتاب سمجھنا ہی ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتاب ہے، اور اس ایمان ہی سے انسان میں یہ قابلیت پیدا ہوتی ہے کہ یقین و اذعان کے ساتھ ان قوانین اور طریقوں اور حدود کی پابندی کرے جو خدا نے اپنے رسولؐ اور اپنی کتاب کے واسطے سے اس کو بتائے ہیں۔
آخری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے معاد کا علم ہے۔ اس سے انسان کی نظر اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ وہ ظاہرِ حیاتِ دنیا کے پیچھے ایک دوسرے عالم کو دیکھنے لگتا ہے اوراسے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا کی خوش حالی و بدحالی، اور منفعت و مضرت، خدا کی خوش نودی و ناخوشی کا معیار نہیں ہے، اور خدا کی جانب سے اعمال کی جزا و سزا اسی دنیا میں ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ آخری فیصلہ ایک دوسرے عالم میں ہونے والا ہے۔ وہی فیصلہ معتبر ہے اور اس فیصلے میں کام یابی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ اس دنیا میں خدا کے قانون کی صحیح پیروی اور اس کے مقرر کیے ہوئے حدود کی پوری پابندی کی جائے۔ اسی عقیدے پر جزم و یقین کا نام ایمان بالیوم الآخر ہے اور ایمان باللّٰہ کے بعد یہی دوسری زبردست قوت ہے جو انسان کو قوانین اسلامی کے اتباع پر ابھارتی ہے۔ تہذیب اسلامی کے لیے انسان کو ذہنی اعتبار سے مستعد کرنے میں اس اعتقاد کا بڑا حصہ ہے۔
اس بیان سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ اساسی اعتقادات انھی خطوط پر تہذیب کی تاسیس و تشکیل کرتے ہیں جو حیاتِ دنیا کے اس مخصوص تصوّر اور خاص نصب العین نے کھینچ دیے تھے۔ ایسی تہذیب کے لیے عقلاً جس اساسی عقیدے کی ضرورت ہے وہ انھی پانچ امور پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ ان کے سوا کسی دوسرے اعتقاد میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اس مخصوص طرز کی تہذیب کے لیے اساس بن سکے۔ کوئی دوسرا عقیدہ اس خاص تصورِ حیات اور نصب العین کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا۔
تہذیبِ اسلامی کا خاکہ
ایمانیات کی جو تفصیلات اوپر بیان ہوئی ہیں ان پر نظر ڈالنے سے اس تہذیب کا پورا خاکہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے جس کی تاسیس ان کے ذریعے سے کی گئی ہے۔ اس خاکے کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں:
۱۔ اس تہذیب کا نظام ایک سلطنت کا سا نظام ہے۔ اس میں خدا کی حیثیت عام مذہبی تصور کے لحاظ سے محض ایک ’’معبود‘‘ کی سی نہیں ہے، بلکہ دنیوی تصور کے لحاظ سے وہی حاکم مطلق بھی ہے۔ وہ دراصل اس سلطنت کا شہنشاہ ہے، رسولؐ اس کا نمایندہ ہے، قرآن اس کی کتاب آئین ہے، اور ہر وہ شخص جو اس کی شہنشاہی کو تسلیم کرکے اس کے نمایندے کی اطاعت اور اس کی کتاب آئین کا اتباع کرنا قبول کرے، اس سلطنت کی رعیت ہے۔ مسلمان ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس شہنشاہ نے اپنے نمایندے اور اپنی کتابِ آئین کے ذریعے سے جو قوانین مقرر کر دیے ہیں ان کو بے چون و چرا تسلیم کیا جائے، خواہ ان کی علّت و مصلحت سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ جو شخص خدا کا یہ اختیارِ مطلق اور اس کے قانون کا شخصی و اجتماعی آرا سے بالاتر ہونا تسلیم نہیں کرتا، اور اس کے فرمان کو ماننے یا نہ ماننے کا حق اپنے لیے محفوظ رکھتا ہے، اس کے لیے اس سلطنت میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔
۲۔ چوں کہ اس تہذیب کا اصل مقصد انسان کو آخری کام یابی (یعنی آخرت کے فیصلے میں خداوندِ عالم کی خوش نودی سے سرفراز ہونے) کے لیے تیار کرنا ہے، اور اس کام یابی کا حصول اس کے نزدیک موجودہ زندگی میں انسان کے صحیح عمل پر موقوف ہے، اور یہ جاننا کہ آخری نتیجے کے اعتبار سے کون سا عمل مفید ہے اور کون سا مُضِر، انسان کے بس کا کام نہیں ہے، بلکہ وہی خدا اس کو بہتر جانتا ہے جو آخرت میں فیصلہ کرنے والا ہے، اس لیے یہ تہذیب انسان سے مطالبہ کرتی ہے کہ اپنی زندگی کے تمام معاملات میں خدا کے بتائے ہوئے طریقوں کی پیروی کرے اور اپنی آزادیِ عمل کو شریعتِ الٰہی کی قیود سے مقید کر دے۔ اس طرح یہ تہذیب دین اور دنیا دونوں کی جامع ہے۔ اس کو عام محدود معنوں میں ’’مذہب‘‘ کے لفظ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسا وسیع نظام ہے جو انسان کے افکار و خیالات، اس کے شخصی کردار و اخلاق، اس کے انفرادی عمل، اس کے خانگی معاملات، اس کی معاشرت، اس کے تمدن، اس کی سیاست، سب پر حاوی ہے، اور ان تمام معاملات میں جو طریقے اور قوانین خدا نے مقرر کیے ہیں ان کے مجموعے ہی کا نام ’’دین اسلام‘‘ یا ’’تہذیبِ اسلامی‘‘ ہے۔
۳۔ یہ تہذیب کوئی قومی یا ملکی یا نسلی تہذیب نہیں ہے، بلکہ صحیح معنوں میں انسانی تہذیب ہے۔ یہ انسان کو بحیثیت انسان کے خطاب کرتی ہے، اور ہر اس شخص کو اپنے دائرے میں لے لیتی ہے جو توحید، رسالت، کتاب، اور یوم آخر پر ایمان لائے۔ اس طرح اس تہذیب نے ایک ایسی قومیت بنائی ہے جس میں بلا امتیاز رنگ و نسل و زبان ہر انسان داخل ہو سکتا ہے، جس کے اندر تمام رُوئے زمین پر پھیل جانے کی استعداد موجودہے، اور جو تمام بنی آدم کو ایک نظمِ ملت میں پیوستہ کر دینے اور ان سب کو ایک تہذیب کا متبع بنا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن یہ عالم گیر انسانی برادری قائم کرنے سے اس کا اصل مقصد اپنے متبعین کی مردم شماری بڑھانا نہیں ہے، بلکہ تمام انسانوں کو اس علم صحیح اور عملِ صحیح کے فیض میں شریک کرنا ہے جو ان سب کے خدا نے ان سب کی بھلائی کے لیے عطا فرمایا ہے۔ اس لیے وہ اس برادری میں شامل ہونے کے لیے ایمان کی قید لگا کر صرف ان لوگوں کو چن لینا چاہتی ہے جو خدا کی حکومتِ مطلقہ کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے لیے آمادہ ہوں، اور ان حدود اور قوانین کی پابندی قبول کریں جو خدا نے اپنے رسولؐ اور اپنی کتاب کے ذریعے سے مقررکیے ہیں۔ کیوں کہ صرف ایسے ہی لوگ (خواہ وہ کتنے ہی کم ہوں) اس تہذیب کے نظام میں کھپ سکتے ہیں، اور انھی سے ایک صحیح اور مضبوط نظام قائم ہو سکتا ہے۔ منکرین یا منافقین یا ضعیف الایمان لوگوں کا گھس آنا اس نظام کے لیے سبب ِ قوت نہیں بلکہ موجب ِ ضعف ہے۔
۴۔ ہمہ گیری اور آفاقیت کے ساتھ اس تہذیب کی نمایاں خصوصیت اس کا زبردست ڈسپلن اور اس کی طاقت وَر گرفت ہے، جس سے وہ اپنے متبعین کو شخصی و اجتماعی حیثیت سے اپنے آئین کا پابند بناتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قوانین بنانے اورحدود مقرر کرنے سے پہلے قوانین کا اتباع اور حدود کی پابندی کرانے کا بندوبست کرتی ہے۔ حکم دینے سے پہلے وہ اس کا انتظام کرتی ہے کہ اس کا حکم نافذ ہو۔ سب سے پہلے وہ انسان سے خدا کی فرماں روائی تسلیم کراتی ہے۔ پھر اس کو یقین دلاتی ہے کہ رسولؐ اور کتاب کے ذریعے سے جو احکام دیے گئے ہیں، وہ خدا کے احکام ہیں، اور ان کی اطاعت عین خدا کی اطاعت ہے۔ پھر وہ اس کے نفس میں ایک ایسی پولیس مقرر کر دیتی ہے جو ہر وقت اور ہر حال میں اس کو احکام کی اطاعت پر ابھارتی ہے، خلاف ورزی پر سرزنش کرتی ہے، اور عذابِ یومِ عظیم کا خوف دلاتی رہتی ہے۔ اس طرح جب وہ اس قوتِ نافذہ کو ہر شخص کے نفس و ضمیر میں متمکن کرکے اپنے پیروئوں میں یہ صلاحیت پیدا کر دیتی ہے کہ وہ خود اپنی دلی رغبت سے قوانین کے اتباع اور حدود کی پابندی اور اخلاقِ حسنہ سے متخلق ہونے کے لیے آمادہ ہوں، تب وہ ان کے سامنے اپنے قوانین پیش کرتی ہے، ان کو احکام دیتی ہے، ان کے لیے حدود مقرر کرتی ہے، ان کے لیے زندگی بسر کرنے کے طریقے وضع کرتی ہے، اور اپنے مصالح کے لیے ان سے سخت سے سخت قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ ایسا طریقہ ہے جس سے زیادہ حکیمانہ طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس طریقے سے اسلامی تہذیب کو جو زبردست نفوذ واثر حاصل ہوا ہے وہ کسی دوسری تہذیب کو نصیب نہیں ہوا۔
۵۔ دُنیوی نقطۂ نظر سے یہ تہذیب ایک صحیح اجتماعی نظام قائم کرنا اور ایک صالح اور پاکیزہ سوسائٹی وجود میں لانا چاہتی ہے، مگر ایسی سوسائٹی کا وجود میں آنا ممکن نہیں ہے جب تک کہ اس کے افراد اخلاقِ فاضلہ و صفاتِ حسنہ سے متصف نہ ہوں۔ اس غرض کے لیے ضروری ہے کہ افراد کے نفوس کا تزکیہ کیا جائے تاکہ وہ ردّی اور منتشر افکار کی آماج گاہ نہ رہیں۔ صحیح اور پاکیزہ ذہنیت ان کے اندر راسخ کی جائے تاکہ ان میں ایک ایسی مضبوط سیرت پیدا ہو سکے جس سے اعمالِ صالحہ کا صدور بالطبع ہونے لگے۔ اسلام نے اپنی تہذیب میں اس قاعدے کی پوری پوری رعایت ملحوظ رکھی ہے۔ افراد کی تربیت کے لیے وہ سب سے پہلے ان میں ایمان کو راسخ کرتا ہے جو ایک اعلیٰ درجے کی مضبوط سیرت پیدا کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ یہی ایمان ہے جس کے ذریعے سے وہ افراد میں صداقت، امانت، نیک نفسی، احتساب، حق پسندی، ضبطِ نفس، تنظیم، فیاضی، وسعتِ نظر، خود داری، انکسار و فروتنی، فراخ حوصلگی، بلند ہمتی، ایثار و قربانی، فرض شناسی، صبر واستقامت، شجاعت و بسالت، قناعت و استغنا، اطاعتِ امر اور اتباعِ قانون کے عمدہ اوصاف پیدا کرتا ہے اوران کو اس قابل بناتا ہے کہ ان کے اجتماع سے ایک بہترین سوسائٹی وجود میں آئے۔
۶۔ اس تہذیب کے ایمانیات میں ایک طرف وہ تمام قوتیں موجود ہیں جو انسان کے اندر اخلاقِ حسنہ و ملکاتِ فاضلہ پیدا کرنے والی اور ان کی پرورش اور حفاظت کرنے والی ہیں۔ دوسری طرف انھی ایمانیات میں یہ قوت بھی ہے کہ وہ انسان کو دنیوی ترقی کے لیے ابھارتے ہیں اور اس کو اس قابل بناتے ہیں کہ دنیا کے اسباب و وسائل کو بہترین طریقے پر برتے اور ان تمام قوتوں کو اعتدال کے ساتھ استعمال کرے جو خدا نے اسے عطا کی ہیں۔ پھر یہی ایمانیات اس میں وہ تمام عمدہ اوصاف بھی پیدا کرتے ہیں جو دنیا میں حقیقی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ ان میں انسان کی عملی قوتوں کو منظم کرنے اور تنظیم کے ساتھ حرکت دینے کی زبردست طاقت موجود ہے، اور اس کے ساتھ ان میں یہ طاقت بھی ہے کہ اس حرکت کو حد سے تجاوز نہ کرنے دیں، اور ان راستوں سے منحرف نہ ہونے دیں جن سے ہٹ جانا تباہی کا موجب ہوتا ہے۔ اس طرح یہ ایمانیات اپنے اندر وہ تمام خوبیاں مع شیئٍ زائد ٍ رکھتے ہیں جو دوسرے مذہبی اور دنیوی ایمانیات میں جدا جدا پائی جاتی ہیں، اور ان تمام خرابیوں سے پاک ہیں جو مختلف مذہبی اور دنیوی ایمانیات میں موجود ہیں۔
تہذیب اسلامی میں ایمان کی اہمیت
یہ اس تہذیب کا ایک مجمل خاکہ ہے جس کو اسلام نے قائم کیا ہے۔ اگر ہم تمثیل کے پیرایے میں اس کو ایک عمارت فرض کر لیں، تو یہ ایک ایسی عمارت ہے جس کو مستحکم کرنے کے لیے نہایت گہری نیو کھودی گئی، پھر چھانٹ چھانٹ کر پختہ اینٹیں مہیا کی گئیں اور ان کو بہترین چونے سے پیوستہ کردیا گیا، پھر عمارت اس شان کے ساتھ بنائی کہ بلندی میں آسمان تک اٹھتی چلی جائے اور وسعت میں آفاق پر پھیلتی جائے، مگر اس وسعت و رفعت کے باوجود اس کے ارکان میں ذرا تزلزل واقع نہ ہو اور اس کی دیواریں اور اس کے ستون چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں۔ اس عمارت کے دروازے اورروشن دان اس طرز پر بنائے گئے ہیں کہ باہر کی روشنی اور صاف ہوا کو بخوبی داخل ہونے دیتے ہیں، مگر گرد و غبار اور خس و خاشاک اور باد و باراں کو داخل ہونے سے روک دیتے ہیں۔ یہ تمام خوبیاں جو اس عمارت میں پیدا ہوئی ہیں ایک ہی چیز کی بدولت ہیں، اور وہ ایمان ہے۔ وہی اس کی بنیادیں استوار کرتا ہے۔ وہی ردّی اور ناکارہ مواد کو چھانٹ کر عمدہ مواد اخذ کرتا ہے۔ وہی موادِ خام کو پکا کر پختہ اینٹیں تیارکرتا ہے۔ وہی ان اینٹوں کو پیوستہ کرکے ایک بنیانِ مرصوص بناتا ہے۔ اسی پرعمارت کی وسعت و رفعت اور استحکام کا انحصار ہے۔ وہی اس کو پھیلاتا بھی ہے، بلند بھی کرتا ہے، مضبوط بھی کرتا ہے، بیرونی مفسدات سے اس کی حفاظت بھی کرتا ہے اورپاکیزہ چیزوں کو اس میں داخل ہونے کا موقع بھی دیتا ہے۔ پس ایمان اس عمارت کی جان ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو اس کا قائم رہنا کیسا، وجود میں آنا ہی محال ہے۔ اور اگر یہ ضعیف ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ عمارت کی بنیادیں کم زور، اس کی اینٹیں بودی، اس کا چونا خراب، اس کے ارکان متزلزل ہیں، اس کے اجزا میں پیوستگی نہیں، اس میں پھیلنے اور بلند ہونے کی صلاحیت نہیں، اس میں بیرونی مفسدات کو روکنے اور اپنی پاکیزگی و نظافت کو محفوظ رکھنے کی قوت نہیں۔
غرض ایمان کا عدم اسلام کا عدم ہے، ایمان کا ضُعف اس کا ضُعف ہے، اورایمان کی قوت اس کی قوت ۔ پھر چوں کہ اسلام محض ایک مذہب ہی نہیں بلکہ اخلاق، تہذیب، معاشرت، تمدن، سیاست سب کچھ ہے، اس لیے ایمان کی حیثیت اس نظام میں صرف مذہبی عقیدے ہی کی نہیں ہے، بلکہ اسی پر افراد کے اخلاق اور ان کی سیرت کا بھی انحصار ہے۔ وہی ان کے معاملات کی درستی کا بھی ذمے دار ہے۔ وہی ان کو جوڑ کر ایک قوم بھی بناتا ہے۔ وہی ان کی قومیت اور ان کی تہذیب کی محافظت بھی کرتا ہے۔ وہی ان کے تمدن، ان کی معاشرت اور ان کی سیاست کا مایۂ خمیر بھی ہے۔ اس کے بغیر اسلام نہ صرف ایک مذہب کی حیثیت سے قائم نہیں ہو سکتا بلکہ بحیثیت تہذیب و تمدن اور نظامِ سیاسی کے بھی قائم نہیں ہوسکتا۔ ایمان ضعیف ہو تو یہ محض مذہبی عقیدے کا ضُعف نہیں ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے اخلاق خراب ہو جائیں، ان کی سیرتیں کم زور ہو جائیں، ان کے معاملات بگڑ جائیں، ان کی معاشرت اوران کے تمدن کا نظام درہم برہم ہو جائے، ان کے درمیان قومیت کا رشتہ ٹوٹ جائے، اور وہ ایک آزاد اور باعزت اور طاقت وَر قوم کی حیثیت سے زندہ نہ رہ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایمان ہی پر اسلام و کفر کا مدار رکھا گیا ہے اور وہی نظامِ اسلامی میں داخل ہونے کی شرط اوّلین ہے۔ سب سے پہلے انسان کے سامنے ایمان ہی پیش کیا جاتا ہے۔ اگر اس نے ایمان کو قبول کر لیا تو امتِ مسلمہ میں داخل ہو گیا، مسلمانوں میں معاشرت، تمدن، سیاست، سب میں برابر کا شریک ہو گیا، اور تمام احکام، حدود اور قوانین اس سے متعلق ہوگئے۔ لیکن اگر اس نے ایمان کو قبول نہیں کیا تو وہ دائرۂ اسلامی میں کسی حیثیت سے داخل نہیں ہو سکتا، اسلام کا کوئی حکم اور کوئی قانون اس پر نافذ نہ ہو گا، اور مسلمانوں کی جماعت میں وہ کسی طرح شریک نہ ہو سکے گا، کیوں کہ اس نظام میں اس کی کھپت قطعاً محال ہے اور اس کے قوانین و حدود کی پابندی وہ کر ہی نہیں سکتا۔
نفاق کا خطرہ
جو لوگ دعوتِ ایمان کو علانیہ رد کر دیں ان کا معاملہ تو صاف ہے۔ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان کفر و ایمان کی سرحد اتنی واضح اور نمایاں ہے کہ وہ دائرۂ اسلامی میں داخل ہو کر کوئی خلل برپا نہیں کر سکتے۔ مگر وہ لوگ جو مومن نہیں ہیں اور ایمان کا اظہار کرکے مسلمانوں کی جماعت میں گُھس جاتے ہیں، اور وہ جن کے دلوں میں شک کی بیماری ہے، اور وہ جو ضعیف الایمان ہیں، ان کا وجود نظامِ اسلامی کے لیے نہایت خطر ناک ہے۔ کیونکہ وہ اسلام کے دائرے میں تو داخل ہو جاتے ہیں، مگر اسلامی اخلاق اور اسلامی سیرت اختیار نہیں کرتے، اسلامی قوانین کا اتباع اور حدودِ الٰہی کی پابندی نہیں کرتے، اپنے خراب اخلاق و اعمال سے مسلمانوں کے تمدن و تہذیب کو خراب کر دیتے ہیں، اپنے دلوں کے کھوٹ سے مسلمانوں کی قومیت اور سیاسی حُرمت کی جڑیں کھوکھلی کر دیتے ہیں، اور ہر اس فتنے کے اٹھانے اور بھڑکانے میں حصہ لیتے ہیں جو اسلام کے خلاف اندر یا باہر سے برپا ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو منافق کہا گیا ہے، اور وہ تمام خطرات ایک ایک کرکے بیان کیے گئے ہیں جو اسلامی جماعت میں ان کے داخل ہو جانے سے پیدا ہوتے ہیں۔
ان کی صفت یہ ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر حقیقت میں مومن نہیں ہوتے:
مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَo البقرہ 8:2
جو کہتے ہیں کہ ہم اللّٰہ اور یوم آخر پر ایمان لائے، حالاں کہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا۰ۚۖ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِہِمْ۰ۙ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ۰ۙ البقرہ 14:2
جب وہ ایمان لانے والوں سے ملے تو کہا کہ ہم ایمان لے آئے، اور جب اپنے شیاطین کے پاس گئے تو بولے کہ ہم تو تمھارے ساتھ ہیں۔
وہ آیاتِ الٰہی کا مذاق اڑاتے اور ان میں شکوک کا اظہار کرتے ہیں:
اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللہِ يُكْفَرُ بِھَا وَيُسْتَہْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ النسائ 140:4
جب تم سنو کہ اللّٰہ کی آیات کا انکار کیا جاتا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو۔
وہ مذہبی فرائض سے جی چراتے ہیں، اور اگر ادا کرتے بھی ہیں تو مجبوراً محض مسلمانوں کو دکھانے کے لیے، ورنہ حقیقتاً ان کے دل احکام الٰہی کی اطاعت سے منحرف ہوتے ہیں:
وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا o مُّذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ۰ۤۖ لَآ اِلٰى ہٰٓؤُلَاۗءِ وَلَآ اِلٰى ہٰٓؤُلَاۗءِ۰ۭ النسائ 142-143:4
اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بادل نخواستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ محض لوگوں کو دکھاتے ہیں۔ خدا کو یاد نہیں کرتے، اور اگر کرتے بھی ہیں تو کم۔ وہ بیچ میں مذبذب ہیں، نہ پُورے اِدھر ہیں نہ پُورے اُدھر۔
وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَہُمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَہُمْ كٰرِہُوْنَo التوبہ 54:9
وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر بادلِ نخواستہ اور راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے مگر کراہت کے ساتھ۔
وَمِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يَّتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا التوبہ98:9
اور بدوئوں میں سے بعض ایسے ہیں جو کچھ راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں اس کو زبردستی کا جرمانہ سمجھتے ہیں۔
وہ اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اسلامی قوانین کا اتباع نہیں کرتے بلکہ اپنے معاملات میں کفار کے قوانین کی پیروی کرتے ہیں:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَحَاكَمُوْٓا اِلَى الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ يَّكْفُرُوْا بِہٖ۰ۭ النسائ60:4
کیا تو نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے اس کتاب پر جو تیرے اوپر اتاری گئی ہے اور ان پر جو تجھ سے پہلے اتاری گئی تھیں، مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنے معاملات شیطانی حاکم کے پاس لے جائیں، حالاں کہ ان کو حکم دیا چکا ہے کہ اس کا حکم نہ مانیں۔
ان کے اعمال خود خراب ہوتے ہیں اور وہ مسلمانوں کے عقائد اور اعمال بھی خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَہُمْ۰ۭ نَسُوا اللہَ فَنَسِيَہُمْ۰ۭ التوبہ 67:9
وہ برائی کا حکم دیتے اور بھلائی سے روکتے ہیں اوراپنے ہاتھ نیک کاموں سے کھینچے رہتے ہیں۔ وہ خدا کو بھول گئے اس لیے خدا نے بھی ان کو بھلا دیا۔
وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَـمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً النسائ89:4
وہ چاہتے ہیں کہ کاش تم بھی کفر کرو جیسا انھوں نے کفر کیا، تاکہ تم اور وہ برابر ہو جائیں۔
وہ مسلمانوں کے ساتھ اسی وقت تک ہیں جب تک ان کا فائدہ ہے۔ جہاں فائدہ کم ہوا اور انھوں نے قوم کا ساتھ چھوڑا:
وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ۰ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ يُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ يَسْخَطُوْنَo التوبہ 58:9
ان میں سے بعض صدقات کی تقسیم میں تجھ پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اگر ان کو صدقات میں سے دیا گیا تو خوش ہو گئے اور نہ دیا گیا تو بگڑ گئے۔
جب اسلام اور مسلمانوں پرمصیبت کا وقت آتا ہے تو وہ جنگ سے انکار کر دیتے ہیں، کیوں کہ حقیقت میں نہ تو ان کو اسلام سے محبت ہوتی ہے کہ اس کے لیے کوئی قربانی کریں، نہ وہ اس قربانی پر کسی اجر کے قائل ہوتے ہیں، نہ ان کو اسلام کی حقانیت کا یقین ہوتا ہے کہ اس کی تائید میں جانیں لڑانے پر آمادہ ہوں۔ وہ طرح طرح سے اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اگر جنگ میںشریک بھی ہوتے ہیں تو بادلِ نخواستہ، بلکہ ان کی شرکت مسلمانوں کے لیے قوت کے بجائے ضُعف کا سبب بن جاتی ہے۔ ان کی اس کیفیت کو سورہ آل عمران (رکوع۱۲۔۱۷)، سورۂ نساء (رکوع ۱۰۔۱۱۔۱۲۔۲۰)، سورۂ توبہ (رکوع۷۔۱۱۔۱۲)، اور سورۂ احزاب (رکوع:۲) میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
ان کی سب سے زیادہ خطرناک صفت یہ ہے کہ جب مسلمانوں پر مصیبت آتی ہے تو کفار سے مل جاتے ہیں، ان کو خبریں پہنچاتے ہیں، ان سے ہمدردی کرتے ہیں، مسلمانوں کی مصیبت پر خوش ہوتے ہیں، اپنی قوم سے غدّاری کرکے کفار سے اعزاز و مناصب حاصل کرتے ہیں، ہر فتنہ جو اسلام کے خلاف اٹھتا ہے، اس میں سب سے آگے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں، اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ڈالنے کے لیے سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ ان صفات کو بھی آلِ عمران، نساء، توبہ، احزاب، اور منافقون میں مفصلاً بیان کیا گیا ہے۔
اس سے اچھی طرح اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نظامِ اسلامی کے قیام و بقا و استحکام کے لیے صحیح اور خالص ایمان ناگزیر ہے۔ ایمان کی کم زوری اس نظام کو جڑ سے لے کر آخری شاخ تک کھوکھلا کر دیتی ہے اور اس کے خطرناک اثرات سے اخلاق، معاشرت، تمدن، تہذیب، سیاست کوئی چیز نہیں بچ سکتی۔
٭…٭…٭…٭…٭