Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ
کچھ جدید اڈیشن کے بارے میں
۱۔ نوعیتِ مسئلہ
۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں
۳ ۔دَورِ جدید کا مسلمان
۴۔ نظریات
۵ ۔نتائج
۶ ۔چند اور مثالیں
۷۔ فیصلہ کن سوال
۸ ۔قوانینِ فطرت
۹ ۔انسانی کوتاہیاں
۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت
۱۱ ۔پردہ کے احکام
۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین
۱۳۔ خاتمہ

پردہ

  مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔

”پردہ “ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔

عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،”پردہ “ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔

۷۔ فیصلہ کن سوال

ہمارے ملک میں اور اسی طرح دوسرے مشرقی ممالک میں بھی جو لوگ پردے کی مخالفت کرتے ہیں ان کے سامنے دراصل زندگی کا یہی نقشہ ہے۔ اسی زندگی کے تاب ناک مظاہر نے ان کے حواس کو متاثر کیا ہے۔ یہی نظریات، یہی اَخلاقی اصول، اور یہی مادّی و حسی فوائد و لذائذ ہیں جن کے روشن پہلو نے ان کے دل و دماغ کو اپیل کیا ہے۔ پردہ سے ان کی نفرت اِسی بِنا پر ہے کہ اس کا بنیادی فلسفہ اَخلاق اس مغربی فلسفہ اَخلاق کی ضد ہے جس پر یہ ایمان لائے ہیں۔ اور عملًا ان فائدوں اور لذتوں کے حصول میں مانع ہے جنھیں ان حضرات نے مقصود بنایا ہے۔ اب یہ سوال کہ اس نقشہ زندگی کے تاریک پہلو، یعنی اس کے عملی نتائج کو بھی یہ لوگ قبول کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں، تو اس بات میں ان کے درمیان اتفاق نہیں ہے۔
ایک گروہ ان نتائج کو جانتا ہے اور انھیں قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ درحقیقت اس کے نزدیک یہ بھی مغربی زندگی کا روشن پہلو ہی ہے نہ کہ تاریک۔
دوسرا گروہ اس پہلو کو تاریک سمجھتا ہے، ان نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، مگر ان فائدوں پر بُری طرح فریفتہ ہے جو اس طرزِ زندگی کے ساتھ وابستہ ہیں۔
تیسرا گروہ نہ تو نظریات ہی کو سمجھتا ہے، نہ ان کے نتائج سے واقف ہے، اور نہ اس بات پر غورو فکر کی زحمت اُٹھانا چاہتا ہے کہ ان نظریات اور ان نتائج کے درمیان کیا تعلق ہے۔ اسے تو بس وہ کام کرنا ہے جو دنیا میں ہو رہا ہے۔
یہ تینوں گروہ باہم کچھ اس طرح مخلوط ہو گئے ہیں کہ گفتگو کرتے وقت بسا اوقات یہ تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہمارا مخاطب دراصل کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی اختلاط کی وجہ سے عمومًا سخت خلطِ مبحث پیش آتا ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ انھیں چھانٹ کر ایک دُوسرے سے الگ کیا جائے اور ہر ایک سے اس کی حیثیت کے مطابق بات کی جائے۔
۱۔ مشرقی مستغربین
پہلے گروہ کے لوگ اس فلسفے اور ان نظریات پر، اور ان تمدنی اُصولوں پر علیٰ وجہ البصیرت ایمان لائے ہیں جن پر مغربی تہذیب و تمدن کی بِنا رکھی گئی ہے وہ اسی دماغ سے سوچتے ہیں اور اسی نظر سے زندگی کے مسائل کو دیکھتے ہیں جس سے جدید یورپ کے معماروں نے دیکھا اور سوچا تھا اور وہ خود اپنے اپنے ملکوں کی تمدنی زندگی کو بھی اسی مغربی نقشہ پر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ عورت کی تعلیم کا منتہائے مقصود ان کے نزدیک واقعی یہی ہے کہ وہ کمانے کی قابلیت بہم پہنچائے اوراس کے ساتھ دل لبھانے کے فنون سے بھی کماحقہٗ واقف ہو۔ خاندان میں عورت کی صحیح حیثیت ان کے نزدیک دَرحقیقت یہی ہے کہ وہ مرد کی طرح خاندان کا کمانے والا رکن بنے اور مشترک بجٹ میں اپنا حصہ پورا ادا کرے۔ سوسائٹی میں عورت کا اصل مقام ان کی رائے میں یہی ہے کہ وہ اپنے حُسن، اپنی آرائش اور اپنی ادائوں سے اجتماعی زندگی میں ایک عنصرِ لطیف کا اضافہ کرے، اپنی خوش گفتاری سے دلوں میں حرارت پیدا کرے، اپنی موسیقی سے کانوں میں رس بھر دے، اپنے رقص سے رُوحوں کو وجد میں لائے اور تھرک تھرک کر اپنے جسم کی ساری خوبیاں آدم کے بیٹوں کو دکھائے تاکہ ان کے دل خوش ہوں، ان کی نگاہیں لذت یاب ہوں، اور ان کے ٹھنڈے خون میں تھوڑی سی گرمی آ جائے۔ حیات قومی میں عورت کا کام ان کے خیال میں فی الواقع اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ سوشل ورک کرتی پھرے، میونسپلٹیوں اور کونسلوں میں جائے، کانفرنسوں اور کانگریسوں میں شریک ہو، سیاسی، تمدنی اور معاشرتی مسائل کو سلجھانے میں اپنا وقت اور دماغ صرف کرے۔ ورزشوں اور کھیلوں میں حصہ لے، تیراکی، دوڑ اور کود پھاند اور لمبی لمبی اُڑانوں میں ریکارڈ توڑے، غرض وہ سب کچھ کرے جو گھر سے باہر ہے اور اس سے کچھ غرض نہ رکھے جو گھر کے اندر ہے۔ اس زندگی کو وہ آئیڈیل زندگی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک دنیوی ترقی کا یہی راستہ ہے اور اس راستہ پر جانے میں جتنے پرانے اَخلاقی نظریات مانع ہیں وہ سب کے سب محض لغو اور سراسر باطل ہیں۔ نئی زندگی کے لیے پُرانی اَخلاقی قدروں (moral values)کو انھوں نے اسی طرح نئی قدروں سے بدل لیا ہے جس طرح یورپ نے بدلا ہے۔ مالی فوائد اور جسمانی لذتیں ان کی نگاہ میں زیادہ بلکہ اصلی قدر و قیمت رکھتی ہیں، اور ان کے مقابلہ میں حیا، عصمت، طہارت اخلاق، ازدواجی زندگی کی وفاداری، نسب کی حفاظت اور اسی قبیل کی دوسری تمام چیزیں نہ صرف یہ کہ بے قدر ہیں، بلکہ دقیانوسی، تاریک خیالی کے ڈھکوسلے ہیں جنھیں ختم کیے بغیر ترقی کا قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔
یہ لوگ دراصل دین مغربی کے سچے مومن ہیں اور جس نظریہ پر ایمان لائے ہیں اسے ان تمام تدبیروں سے، جو یورپ میں اس سے پہلے اختیار کی جا چکی ہیں، مشرقی ممالک میں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
۲۔ نیا ادب
سب سے پہلے ان کے لٹریچر کو لیجیے جو دماغوں کو تیار کرنے والی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اس نام نہاد ادب… دراصل بے ادبی… میں پوری کوشش اس امر کی، کی جا رہی ہے کہ نئی نسلوں کے سامنے اس نئے اَخلاقی فلسفے کو مزین بنا کر پیش کیا جائے اور پُرانی اَخلاقی قدروں کو دل اور دماغ کے ایک ایک ریشہ سے کھینچ کر نکال ڈالا جائے۔ مثال کے طور پر میں یہاں اُردو کے نئے ادب سے چند نمونے پیش کروں گا۔
ایک مشہور ماہ نامے میں، جسے ادبی حیثیت سے اس ملک میں کافی وقعت حاصل ہے، ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’’شیریں کا سبق‘‘۔ صاحبِ مضمون ایک ایسے صاحب ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، ادبی حلقوں میں مشہوراور ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک نوجوان صاحب زادی اپنے استاذ سے سبق پڑھنے بیٹھی ہیں اوردرس کے دوران میں اپنے ایک نوجوا ن دوست کا نامہ محبت استاد کے سامنے بغرض مطالعہ و مشورہ پیش فرماتی ہیں۔ اس ’’دوست‘‘ سے ان کی ملاقات کسی ’’چائے پارٹی‘‘ میں ہو گئی تھی۔ وہاں ’’کسی لیڈی نے تعارف کی رسم ادا کر دی، اس دن سے میل جول اور مراسلت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب صاحب زادی یہ چاہتی ہیں کہ استاد جی اُسے اس کے دوست کے محبت ناموں کا ’’اخلاقی جواب‘‘ لکھنا سکھا دیں۔ استاد کوشش کرتا ہے کہ لڑکی کو ان بے ہودگیوں سے ہٹا کر پڑھنے کی طرف راغب کرے۔ لڑکی جواب دیتی ہے کہ:
پڑھنا تو مَیں چاہتی ہوں مگر ایسا پڑھنا جو میرے جاگتے کے خوابوں کی آرزوئوں میں کام یاب ہونے میں مدد دے۔ نہ ایسا پڑھنا جو مجھے ابھی سے بڑھیا بنا دے۔
اُستاد پوچھتا ہے:
کیا ان حضرات کے علاوہ تمھارے اور بھی کچھ نوجوان دوست ہیں؟‘‘
لائق شاگرد جواب دیتی ہے:
کئی ہیں۔ مگر اس نوجوان میں یہ خصوصیت ہے کہ بڑے مزے سے جھڑک دیتا ہے۔
استاد کہتا ہے کہ:
اگر تمھارے ابا کو تمھاری اس خط و کتابت کا پتا چل جائے تو کیا ہو؟
صاحب زادی جواب دیتی ہے:
کیا ابا نے شباب میں اس قسم کے خط نہ لکھے ہوں گے؟ اچھے خاصے فیشن ایبل ہیں۔ کیا تعجب ہے اب بھی لکھتے ہوں۔ خدا نخواستہ بوڑھے تو نہیں ہو گئے ہیں۔
استاد کہتا ہے کہ
اب سے پچاس برس پہلے تو یہ خیال بھی ناممکن تھا کہ کسی شریف زادی کو محبت کا خط لکھا جائے۔
شریف زادی صاحبہ جواب میں فرماتی ہیں:
تو کیا اُس زمانہ کے لوگ صرف بد ذاتوں ہی سے محبت کرتے تھے۔ بڑے مزے میں تھے اس زمانہ کے بد ذات اور بڑے بدمعاش تھے اس زمانہ کے شریف۔
’’شیریں‘‘ کے آخری الفاظ، جن پر مضمون نگار نے گویا اپنے ادیبانہ تفلسف کی تان توڑی ہے، یہ ہیں:
ہم لوگوں (یعنی نوجوانوں) کی دوہری ذمہ داری ہے۔ وہ مسرتیں جو ہمارے بزرگ کھو چکے ہیں، زندہ کریں، اور وہ غصہ اور جھوٹ کی عادتیں جو زندہ ہیں، انھیں دفن کر دیں۔
ایک اور نام وَر ادبی رسالہ میں اب سے ڈیڑھ سال پہلے ایک مختصر افسانہ ’’پشیمانی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس کا خلاصہ سیدھے سادے الفاظ میں یہ تھا کہ ایک شریف خاندان کی بِن بیاہی لڑکی ایک شخص سے آنکھ لڑاتی ہے، اپنے باپ کی غیر موجودگی، اور ماں کی لاعلمی میں اسے چپکے سے بلا لیتی ہے۔ ناجائز تعلقات کے نتیجہ میں حمل قرار پا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے اس ناپاک فعل کو حق بجانب ٹھہرانے کے لیے دل ہی دل میں یوں استدلال کرتی ہے:
مَیں پریشان کیوں ہوں؟ میرا دل دھڑکتا کیوں ہے؟… کیا میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا ہے؟ کیا میں اپنی کم زوری پر نادم ہوں؟ شاید ہاں۔ لیکن اس رومانی چاندنی رات کی داستان تو میری کتابِ زندگی میں سنہری الفاظ سے لکھی ہوئی ہے۔ شباب کے مست لمحات کی اس یاد کو تو اب بھی میں اپنا سب سے زیادہ عزیز خزانہ سمجھتی ہوں۔ کیا میں ان لمحات کو واپس لانے کے لیے اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار نہیں؟
پھر کیوں میرا دل دھڑکتا ہے؟ کیا گناہ کے خوف سے؟ کیا میںنے گناہ کیا؟ نہیں میں نے گناہ نہیں کیا۔ مَیں نے کس کا گناہ کیا؟ میرے گناہ سے کس کو نقصان پہنچا؟ مَیں نے تو قربانی کی۔ قربانی اس کے لیے۔ کاش کہ میں اس کے لیے اور بھی قربانی کرتی! گناہ سے میں نہیں ڈرتی۔ لیکن، ہاں شاید میں اس چڑیل سوسائٹی سے ڈرتی ہوں۔ اس کی کیسی کیسی معنی خیز اشتباہ آمیز نظریں مجھ پر پڑتی ہیں…
آخر میں اس سے کیوں ڈرتی ہوں؟ اپنے گناہ کے باعث؟لیکن میرا گناہ ہی کیا ہے؟ کیا جیسا مَیں نے کیا، ایسا ہی سوسائٹی کی کوئی اور لڑکی نہ کرتی؟ وہ سہانی رات اور وہ تنہائی۔ وہ کتنا خوب صورت تھا۔ اس نے کیسے میرے منہ پر اپنا منہ رکھ دیا اور اپنی آغوش میں مجھے کھینچ لیا، بھینچ لیا۔ اُف اس کے گرم اور خوش بو دار سینے سے میں کس اطمینان کے ساتھ چمٹ گئی۔ میں نے ساری دنیا ٹھکرا دی اور اپنا سب کچھ ان لمحات عیش پر تج دیا۔ پھر کیا ہوا؟ کوئی اور کیا کرتا؟ کیا دنیا کی کوئی عورت اس وقت اسے ٹھکرا سکتی تھی…؟
گناہ؟ مَیں نے ہرگز گناہ نہیں کیا۔ مَیں ہرگز نادم نہیں ہوں۔ میں پھر وہی کرنے کو تیار ہوں… عصمت؟ عصمت ہے کیا؟ صرف کنوار پن؟ یا خیالات کی پاکیزگی؟ میں کنواری نہیں رہی، لیکن کیا میں نے اپنی عصمت کھو دی…؟
فسادی چڑیل سوسائٹی کو جو کچھ کرنا ہو کر لے۔ وہ میرا کیا کر سکتی ہے؟ کچھ نہیں۔ میں اس کی پرحماقت انگشت نمائی سے کیوں جھینپوں؟ مَیں اس کی کانا پھوسی سے کیوں ڈروں؟ کیوں اپنا چہرہ زرد کر لوں؟ میں اس کے بے معنی تمسخر سے کیوں منہ چھپائوں؟ میرا دل کہتا ہے کہ مَیں نے ٹھیک کیا، اچھا کیا، خوب کیا، پھر مَیں کیوں چور بنوں؟ کیوں نہ ببانگ دہل اعلان کر دوں کہ مَیں نے ایسا کیا اور خوب کیا۔
یہ طرزِ استدلال اور یہ طرزِ فکر ہے جو ہمارے زمانے کا نیا ادیب ہر لڑکی … شاید خود اپنی بہن اور اپنی بیٹی کو بھی سکھانا چاہتا ہے۔ اس کی تعلیم یہ ہے کہ ایک جوان لڑکی کو چاندنی رات میں جو گرم سینہ بھی مل جائے اس سے اُسے چمٹ جانا چاہیے کیوں کہ اس صورتِ حال میں یہی ایک طریقِ کار ممکن ہے اور جو عورت بھی ایسی حالت میں ہو، وہ اس کے سوا کچھ کر ہی نہیں سکتی۔ یہ فعل گناہ نہیں بلکہ قربانی ہے اور اس سے عصمت پر بھی کوئی حرف نہیں آتا۔ بھلا خیالات کی پاکیزگی کے ساتھ کنوار پن قربان کر دینے سے بھی کہیں عصمت جاتی ہو گی! اس سے تو عصمت میں اور اضافہ ہوتا ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسا شان دار کارنامہ ہے کہ ایک عورت کی زندگی میں سنہری الفاظ سے لکھا جانا چاہیے اور اس کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس کی ساری کتابِ زندگی ایسے ہی سنہرے الفاظ میں لکھی ہوئی ہو۔ رہی سوسائٹی، تو وہ اگر ایسی عصمت ماب خواتین پر حرف رکھتی ہے تو و ہ فسادی اور چڑیل ہے۔ قصور وار وہ خود ہے کہ ایسی ایثار پیشہ لڑکیوں پر حرف رکھتی ہے، نہ کہ وہ صاحب زادی جو ایک رومانی رات میں کسی کھلی ہوئی آغوش کے اندر بھینچے جانے سے انکار نہ فرمائیں۔ ایسی ظالم سوسائٹی جو اتنے اچھے کام کو بُرا کہتی ہے، ہرگز اس کی مستحق نہیں کہ اس سے ڈرا جائے، اور یہ کارِ خیر انجام دے کر اس سے منہ چھپایا جائے۔ نہیں، ہر لڑکی کو علانیہ اور بے باکانہ اس فضیلت اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور خود شرمندہ ہونے کی بجائے، ہو سکے تو الٹا سوسائٹی کو شرمندہ کرنا چاہیے۔ یہ جرأت و جسارت کبھی بازار میں بیٹھنے والی بیسوائوں کو بھی نصیب نہ تھی، کیوں کہ ان بدنصیبوں کے پاس ایسا فلسفہ اخلا ق نہ تھا جو گناہ کو ثواب اور ثواب کو گناہ کر دیتا۔ اس وقت کی بیسوا عصمت تو بیچتی تھی مگر اپنے آپ کو خود ذلیل اور گناہ گار سمجھتی تھی… مگر اب نیا ادب ہر گھر کی بہو اور بیٹی کو پہلے زمانہ کی بیسوائوں سے بھی دس قدم آگے پہنچا دینا چاہتا ہے کیوں کہ یہ بدمعاشی و فحش کاری کی پشتی بانی کے لیے ایک نیا فلسفہ اَخلاق پیدا کر رہا ہے۔
ایک اور رسالہ میں، جسے ہمارے ملک کے ادبی حلقوں میں کافی مقبولیت حاصل ہے، ایک افسانہ ’’دیور‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ مصنف ایک ایسے صاحب ہیں جن کے والد مرحوم کو عورتوں کے لیے بہترین اَخلاقی لٹریچر پیدا کرنے کا شرف حاصل تھا، اور اسی خدمت کی وجہ سے غالبًا وہ ہندوستان کی اردو خواں عورتوں میں مقبول ترین بزرگ تھے… اس افسانہ میں نوجوان ادیب صاحب ایک ایسی لڑکی کے کیریکٹر کو خوش نمابنا کر اپنی بہنوں کے لیے نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں جو شادی سے پہلے ہی اپنے ’’دیور کی بھرپور جوانی اور شباب کے ہنگاموں کا خیال کرکے‘‘ اپنے جسم میں تھرتھری پیدا کر لیا کرتی تھی، اور کنوارپنے ہی میں جس کا مستقل نظریہ یہ تھا کہ ’’جو جوانی خاموش اور پرسکون گزر جائے، اس میں اور ضعیفی میں کوئی فرق نہیں۔ میرے نزدیک تو جوانی کے ہنگامے ضروری ہیں جن کا ماخذ کش مکش حسن و عشق ہے۔‘‘ اس نظریہ اور ان ارادوں کو لیے ہوئے جب یہ صاحب زادی بیاہی گئیں تو اپنے ڈاڑھی والے شوہر کو دیکھ کر ان کے جذبات پر اوس پڑ گئی‘‘ اور انھوں نے پہلے سے سوچے ہوئے نقشے کے مطابق فیصلہ کر لیا کہ اپنے شوہر کے حقیقی بھائی سے دل لگائیں گی۔ چنانچہ بہت جلد ہی اس کا موقع آ گیا۔ شوہر صاحب حصولِ تعلیم کے لیے ولایت چلے گئے اور ان کے پیچھے بیوی نے شوہر کی اور بھائی نے بھائی کی خوب دل کھول کر اور مزے لے لے کر خیانت کی۔ مصنف نے اس کارنامے کو خود اس مجرمہ کے قلم سے لکھا ہے۔ وہ اپنی ایک سہیلی کو، جس کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے، اپنے تمام کرتوت آپ اپنے قلم سے لکھ کر بھیجتی ہے، اور وہ تمام مراحل پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے جن سے گزر کر دیور اور بھاوج کی آشنائی آخری مرحلے تک پہنچی۔ قلب اور جسم کی جتنی کیفیات صنفی اختلاط کی حالت میں واقع ہو سکتی ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی بیان کرنے سے وہ نہیں چوکتی۔ بس اتنی کسر رہ گئی ہے کہ فعلِ مباشرت کی تصویر نہیں کھینچی گئی۔ شاید اس کوتاہی میں یہ بات مد نظر ہو گی کہ ناظرین و ناظرات کا تخیل تھوڑی سی زحمت اٹھا کر خود ہی اس کی خانہ پُری کر لے۔
اس نئے ادب کا اگر فرانس کے اس ادب سے مقابلہ کیا جائے جس کے چند نمونے ہم نے اس سے پہلے پیش کیے ہیں تو صاف نظر آئے گا کہ یہ قافلہ اسی راستے سے اسی منزل کی طرف جا رہا ہے، اسی نظامِ زندگی کے لیے ذہنوں کو نظری اور اَخلاقی حیثیت سے تیار کیا جا رہا ہے اور عنانِ توجہ خاص طور پر عورتوں کی طرف منعطف ہے تاکہ ان کے اندر حیا کی ایک رمق بھی نہ چھوڑی جائے۔
۳۔ تمدّنِ جدید
یہ فلسفہ اَخلاق اور یہ نظریہ زندگی میدان میں اکیلا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظامِ تمدن اور مغربی جمہوریت کے اصول بھی برسرکار آ گئے ہیں، اور یہ تینوں طاقتیں مل جل کر زندگی کا وہی نقشہ بنا رہی ہیں جو مغرب میں بن چکا ہے۔ صنفیات پر بدترین قسم کا فحش لٹریچر شائع کیا جا رہا ہے جو مدرسوں اور کالجوں کے طالبین و طالبات تک کثرت سے پہنچتا ہے۔ عریاں تصویریں اور آبروباختہ عورتوں کی شبیہیں ہر اخبار، ہر رسالے، ہر گھر اور ہر دکان کی زینت بن رہی ہیں۔ گھر گھر اور بازار بازار گراموفون کے وہ ریکارڈ بج رہے ہیں جن میں نہایت رکیک اور گندے گیت بھرے جاتے ہیں۔ سینما کا سارا کاروبار جذبات شہوانی کی انگیخت پر چل رہا ہے، اور پردۂ سیمیں پر فحش کاری و بے حیائی کو ہر شام اتنا مزین بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کی نگاہ میں ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی زندگی اسوۂ حسنہ بن کر رہ جاتی ہے۔ ان شوق پرور اور تمنا آفرین کھیلوں کو دیکھ کر دونوں صنفوں کے نوجوان جب تماشا گاہ سے نکلتے ہیں تو ان کے بے چین ولولے ہر طرف عشق اور رومان کے مواقع ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی کی بدولت بڑے شہروں میں وہ حالات بڑی تیزی کے ساتھ پیدا ہوتے چلے جا رہے ہیں جن میں عورتوں کے لیے اپنی روزی آپ کمانا ناگزیر ہو جاتا ہے اور اسی ظالمانہ نظام کی مدد پر مانع حمل کا پروپیگنڈا اپنی دوائوں اور اپنے آلات کے ساتھ میدان میں آ گیا ہے۔
جدید جمہوری نظام نے، جس کی برکات زیادہ تر انگلستان اور فرانس کے توسط سے مشرقی ممالک تک پہنچی ہیں، ایک طرف عورتوں کے لیے سیاسی اور اجتماعی سرگرمیوں کے راستے کھول دیے ہیں، دوسری طرف ایسے ادارات قائم کیے ہیں جن میں عورتوں اور مردوں کے خلط ملط ہونے کی صورتیں لازمًا پیدا ہوتی ہیں، اور تیسری طرف قانون کی بندشیں اتنی ڈھیلی کر دی ہیں کہ فواحش کا اظہار ہی نہیں بلکہ عملی ارتکاب اکثر و بیش تر حالات میں جرم نہیں ہے۔
ان حالات میں جو لوگ پورے انشراحِ قلب کے ساتھ زندگی کے اس راستے پر جانے کا فیصلہ کر چکے ہیں، ان کے اخلاقیات اور ان کی معاشرت میں قریب قریب مکمل انقلاب واقع ہو گیا ہے۔ ان کی خواتین اب ایسے لباسوں میں نکل رہی ہیں کہ ہر عورت پر فلم ایکٹریس کا دھوکا ہوتا ہے۔ ان کے اندر پوری بے باکی پائی جاتی ہے، بلکہ لباس کی عریانی، رنگوں کی شوخی، بنائو سنگار کے اہتمام اور ایک ایک ادا سے معلوم ہوتا ہے کہ صنفی مقناطیس بننے کے سوا کوئی دوسرا مقصد ان خواتین کے پیشِ نظر نہیں ہے۔ حیا کا یہ عالم ہے کہ غسل کا لباس پہن کر مردوں کے ساتھ نہانا، حتّٰی کہ اس حالت میں اپنے فوٹو کھنچوانا اور اخبارات میں شائع کرا دینا بھی اس طبقہ کی کسی شریف خاتون کے لیے موجبِ شرم نہیں ہے، بلکہ شرم کا سوال وہاں سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ جدید اخلاقی تصورات کے لحاظ سے انسانی جسم کے سب حصے یکساں ہیں۔ اگر ہاتھ کی ہتھیلی اور پائوں کے تلوے کو کھولا جا سکتا ہے تو آخر کنج ران اور بن پستان ہی کو کھول دینے میں کیا مضایقہ ہے؟ زندگی کا لطف جس کے مظاہر کا مجموعی نام آرٹ ہے، ان لوگوں کے نزدیک ہر اخلاقی قید سے بالاتر، بلکہ بجائے خود معیارِ اخلاق ہے، اسی بنا پر باپ اوربھائی اس وقت فخر و مسرت کے مارے پھولے نہیں سماتے۔ جب ان کی آنکھوں کے سامنے کنواری بیٹی اور بہن اسٹیج پر موسیقی، رقص اور معشوقانہ اداکاری کے کمالات دکھا کر سیکڑوں پرجوش ناظرین و سامعین سے دادِ تحسین حاصل کرتی ہے۔ مادی کام یابی جس کا دوسرا نام مقصدِ زندگی ہے ان کی رائے میں ہر اس ممکن چیز سے زیادہ قیمتی ہے جسے قربان کرکے یہ شے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ جس لڑکی نے اس گوہر مقصود کے حصول کی قابلیت اور سوسائٹی میں مقبول ہونے کی لیاقت بہم پہنچا لی، اس نے اگر عصمت کھو دی تو گویا کچھ بھی نہ کھویا، بلکہ سب کچھ پا لیا۔ اسی بِنا پر یہ بات کسی طرح ان کی سمجھ میں آتی ہی نہیں کہ کسی لڑکی کا لڑکوں کے ساتھ مدرسے یا کالج میں پڑھنا، یا عالمِ جوانی میں تنہا حصولِ تعلیم کے لیے یورپ جانا آخر کیوں قابلِ اعتراض ہو۔
۴۔ مستغربین سے فیصلہ
یہ ہیں وہ لوگ جو پردے پر سب سے زیادہ اعتراض کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ پردہ ایک ایسی حقیر بلکہ بدیہی البطلان چیز ہے کہ اس کی تضحیک کر دینا اور اس پر پھبتیاں کس دینا ہی اس کی تردید کے لیے کافی دلیل ہے۔ لیکن یہ رویہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص انسانی چہرے پر سرے سے ناک کی ضرورت ہی کا قائل نہ ہو اور اُس بِنا پر وہ ہر اس شخص کا مذاق اُڑانا شروع کر دے جس کے چہرے پر اسے ناک نظر آئے۔ اس قسم کی جاہلانہ باتوں سے صرف جاہل ہی مرعوب ہو سکتے ہیں۔ انھیں، ’’اگر ان کے اندر کوئی معقولیت موجود ہے‘‘ یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے اور ان کے درمیان دراصل قدروں کا بنیادی اختلاف ہے۔ جن چیزوں کو ہم قیمتی سمجھتے ہیں وہ ان کے نزدیک بے قیمت ہیں۔ لہٰذا اپنے معیار قدر کے لحاظ سے جس طرزِ عمل کو ہم ضروری سمجھتے ہیں وہ لامحالہ ان کی نگاہ میں قطعًا غیر ضروری بلکہ مہمل ٹھہرنا ہی چاہیے۔ مگر ایسے بنیادی اختلاف کی صورت میں وہ صرف ایک خفیف العقل آدمی ہی ہو سکتا ہے جو اصل بنائے اختلاف پر گفتگو کرنے کی بجائے فروع پر حملہ شروع کردے۔ انسانی قدروں کے تعین میں فیصلہ کن چیز اگر کوئی ہے تو وہ قوانینِ فطرت ہیں۔ قوانینِ فطرت کے لحاظ سے انسان کی ساخت جس چیز کی مقتضی ہو، اور جس چیز میں انسان کی صلاح وفلاح ہو، وہی دراصل قدر کی مستحق ہے۔ آئو اس معیار پر جانچ کر دیکھ لیں کہ قدروں کے اختلاف میں ہم راستی پر ہیں یا تم ہو۔ علمی دلائل جو کچھ تمھارے پاس ہیں انھیں لے آئو، اور جو دلائل ہم رکھتے ہیں انھیں ہم پیش کرتے ہیں۔ پھر راست باز اور ذی عقل انسانوں کی طرح دیکھو کہ وزن کس طرف ہے۔ اس طریقہ سے اگر ہم اپنے معیارِ قدر کو صحیح ثابت کر دیں تو تمھیں اختیار ہے، چاہے ان قدروں کو قبول کرو جو خالص علم اور عقل پرمبنی ہیں،چاہے انھی قدروں کے پیچھے پڑے رہو، جنھیں مجرد نفسانی رجحان کی بِنا پر تم نے پسند کیا ہے۔ مگر اس دوسری صورت میں تمھاری اپنی پوزیشن اس قدر کم زور ہو جائے گی کہ ہمارے طرزِ عمل کی تضحیک کرنے کی بجائے تم خود تضحیک کے مستحق بن کر رہ جائو گے۔
۵۔ دُوسرا گروہ
اس کے بعد ہمارے سامنے دوسرا گروہ آتا ہے۔ پہلے گروہ میں تو غیرمسلم اور نام نہاد مسلمان، دونوں قسم کے لوگ شامل ہیں۔ مگر یہ دوسرا گروہ تمام تر مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان لوگوں میں آج کل حجاب اور نیم بے حجابی کی ایک عجیب معجوب مرکب استعمال کی جا رہی ہے۔ یہ مُّذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ۝۰ۤۖ لَآ اِلٰى ہٰٓؤُلَاۗءِ وَلَآ اِلٰى ہٰٓؤُلَاۗءِ۝۰ۭ النسائ 143:4 کے صحیح مصداق ہیں۔ ایک طرف تو یہ اپنے اندر اسلامی جذبات رکھتے ہیں۔ اخلاق، تہذیب، شرافت اور حسنِ سیرت کے ان معیاروں کو مانتے ہیں جنھیں اسلام نے پیش کیا ہے۔ اپنی عورتوں کو حیا اور عصمت کے زیوروں سے آراستہ اور اپنے گھروں کو اَخلاقی نجاستوں سے پاک رکھنے کے خواہش مند ہیں اور ان نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو مغربی تمدن اور معاشرت کے اصولوں کی پیروی سے رونما ہوئے ہیں اور ہونے چاہییں۔ مگر دوسری طرف اسلامی نظم معاشرت کے اصول و قوانین کو توڑ کر کچھ رکتے کچھ جھجکتے اسی راستہ کی طرف اپنی بیویوں، بہنوں اور بیٹیوں کو لیے جا رہے ہیں جو مغربی تہذیب کا راستہ ہے۔ یہ لوگ اس غلط فہمی میں ہیں کہ آدھے مغرب اور آدھے اسلامی طریقوں کو جمع کرکے یہ دونوں تہذیبوں کے فوائد و منافع اکٹھے کر لیں گے، یعنی ان کے گھروں میں اسلامی اَخلاق بھی محفوظ رہیں گے، ان کی خاندانی زندگی کا نظم بھی برقرار رہے گا، اور اس کے ساتھ ان کی معاشرت اپنے اندر مغربی معاشرت کی برائیاں نہیں، بلکہ صرف اس کی دل فریبیاں اس کی لذتیں اور ان کی مادّی منفعتیں جمع کرے گی لیکن اول تو دو مختلف الاصل اور مختلف المقصد تہذیبوں کی آدھی آدھی شاخیں کاٹ کر پیوند لگانا ہی درست نہیں۔ کیوں کہ اس طرح کے بے جوڑ امتزاج سے دونوں کے فوائد جمع ہونے کی بجائے دونوں کے نقصانات جمع ہو جانا زیادہ قریب از قیاس ہے۔ دوسرے یہ بھی خلافِ عقل اور خلافِ فطرت ہے کہ ایک مرتبہ اسلام کے مضبوط اَخلاقی نظام کی بندشیں ڈھیلی کرنے اور نفوس کو قانون شکنی سے لذت آشنا کر دینے کے بعد آپ اس سلسلہ کو اس حد پر روک رکھیں گے جسے آپ نے خالی از مضرت سمجھ رکھا ہے۔ یہ نیم عریاں لباسوں کا رواج، یہ زینت و آرائش کا شوق، یہ دوستوں کی محفلوں میں بے باکی کے ابتدائی سبق، یہ سینما اور برہنہ تصویروں اور عشقی افسانوں سے بڑھتی ہوئی دل چسپی، یہ مغربی ڈھنگ پر لڑکیوں کی تعلیم، بہت ممکن ہے کہ اپنا فوری اثر نہ دکھائے، لیکن بہت ممکن ہے کہ موجودہ نسل اس کی مضرتوں سے محفوظ رہ جائے، لیکن یہ سمجھنا کہ آیندہ نسلیں بھی اس سے محفوظ رہیں گی، ایک صریح نادانی ہے۔ تمدن اور معاشرت میں ہر غلط طریقے کی ابتدا بہت معصوم ہوتی ہے۔ مگر ایک نسل سے دوسری نسل اور دوسری سے تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے وہی چھوٹی سی ابتدا ایک خوف ناک غلطی بن جاتی ہے۔ خود یورپ اور امریکا میں بھی جن غلط بنیادوں پر معاشرت کی تنظیم جدید کی گئی تھی اس کے نتائج فورًا ظاہر نہیں ہو گئے تھے بلکہ اس کے پورے پورے نتائج اب تیسری اور چوتھی پشت میں ظاہر ہوئے ہیں۔ پس یہ مغربی اور اسلامی طریقوں کا امتزاج اور یہ نیم بے حجابی دراصل کوئی مستقل اور پائدار چیز نہیں ہے۔ اصل میں اس کا فطری رجحان انتہائی مغربیت کی طرف ہے اور جو لوگ اس طریقے پر چل رہے ہیں انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ انھوں نے فی الحال اس سفرکی ابتدا کی ہے جس کی آخری منزلوں تک اگر وہ نہیں تو ان کی اولاد اوراولاد کی اولاد پہنچ کر رہے گی۔
۶۔ فیصلہ کن سوال
ایسی حالت میں قدم آگے بڑھانے سے پہلے ان لوگوں کو خوب غور و خوض کرکے ایک بنیادی سوال کا فیصلہ کر لینا چاہیے جو مختصرًا حسبِ ذیل ہے:
کیا آ پ مغربی معاشرت کے اُن نتائج کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہیں جو یورپ اور امریکا میں رونما ہو چکے ہیں اورجو اس طرزِ معاشرت کے طبعی اور یقینی نتائج ہیں؟ کیا آپ اسے پسند کرتے ہیں کہ آپ کی سوسائٹی میں بھی وہی ہیجان انگیزاور شہوانی ماحول پیدا ہو؟ آپ کی قوم میں بھی اس طرح بے حیائی، بے عصمتی اور فواحش کی کثرت ہو؟ امراضِ خبیثہ کی وبائیں پھیلیں؟ خاندان اور گھر کا نظام درہم برہم ہو جائے؟ طلاق اور تفریق کا زور ہو؟ نوجوان مرد اور عورتیں آزاد شہوت رانی کی خوگر ہو جائیں؟ مانع حمل، اسقاطِ حمل اور قتلِ اولاد سے نسلیں منقطع کی جائیں؟ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں حدِ اعتدال سے بڑھی ہوئی شہوانیت میں اپنی بہترین عملی قوتوں کو ضائع اور اپنی صحتوں کو برباد کریں؟حتّٰی کہ کم سن بچوں تک میں قبل از وقت صنفی میلانات پیدا ہونے لگیں اور اس سے ان کی دماغی و جسمانی نشوونما میں ابتدا ہی سے فتور برپا ہو جایا کرے؟
اگر مادی منفعتوں اور حسی لذتوں کی خاطر آپ ان سب چیزوں کو گوارا کرنے کے لیے تیار ہیں، تو بلا تامل مغربی راستے پر تشریف لے جائیے اور اسلام کا نام بھی زبان پر نہ لائیے۔ اس راستے پر جانے سے پہلے آپ کو اسلام سے قطع تعلق کا اعلان کرنا پڑے گا تاکہ آپ بعد میں اس نام کو استعمال کرکے کسی کو دھوکا نہ دے سکیں، اور آپ کی رسوائیاں اسلام اور مسلمانوں کے لیے موجبِ ننگ و عار نہ بن سکیں۔
لیکن اگر آپ ان نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اگر آپ کو ایک ایسے صالح اور پاکیزہ تمدن کی ضرورت ہے جس میں اخلاقِ فاضلہ اور ملکات شریفہ پرورش پا سکیں، جس میں انسان کو اپنی عقلی، روحانی اور مادّی ترقی کے لیے ایک پُرسکون ماحول مل سکے جس میں عورت اور مرد بہیمی جذبات کی خلل اندازی سے محفوظ رہ کر اپنی بہترین استعداد کے مطابق اپنے اپنے تمدنی فرائض انجام دے سکیں، جس میں تمدن کا سنگِ بنیاد یعنی خاندان پورے استحکام کے ساتھ قائم ہو، جس میں نسلیں محفوظ رہیں اور اختلافِ انساب کا فتنہ برپا نہ ہو، جس میں انسان کی خانگی زندگی اس کے لیے سکون و راحت کی جنت اور اس کی اولاد کے لیے مشفقانہ تربیت کا گہوارہ اور خاندان کے تمام افراد کے لیے اشتراکِ عمل اور امداد باہمی کی انجمن ہو، تو ان مقاصد کے لیے آپ کو مغربی راستہ کا رخ بھی نہ کرنا چاہیے کیوں کہ وہ بالکل مخالف سمت کو جا رہا ہے اور مغرب کی طرف چل کر مشرق کو پہنچ جانا عقلًا محال ہے۔ اگر فی الحقیقت آپ کے مقاصد یہی ہیں تو آپ کو اسلام کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
مگر اس راستہ پر قدم رکھنے سے پہلے آپ کو غیر معتدل مادّی منفعتوں اور حسی لذتوں کی طلب اپنے دل سے نکالنا ہو گی جو مغربی تمدن کے دل فریب مظاہر کو دیکھ کر پیدا ہو گئی ہے۔ ان نظریات اور تخیلات سے بھی اپنے دماغ کو خالی کرنا ہو گا جو یورپ سے اس نے مستعار لے رکھے ہیں۔ ان تمام اصولوں اور مقصدوں کو بھی طلاق دینا پڑے گی جو مغربی تمدن و معاشرت سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اسلام اپنے الگ اصول اورمقاصد رکھتا ہے۔ اس کے اپنے مستقل عمرانی نظریات ہیں۔ اس نے ویسا ہی ایک نظامِ معاشرت وضع کیا ہے جیسا کہ اس کے مقاصد اور اس کے اُصول اور اس کے عمرانی نظریات کا طبعی اقتضا ہے۔ پھر اس نظامِ معاشرت کا تحفظ وہ ایک خاص ڈسپلن اور ایک خاص ضابطے کے ذریعہ سے کرتا ہے جس کے مقرر کرنے میں غایت درجہ کی حکمت اور نفسیاتِ انسانی کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے، جس کے بغیر یہ نظامِ معاشرت اختلال و برہمی سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ یہ افلاطون کی جمہوریت کی طرح کوئی خیالی اور وہمی نظام (utopia)نہیں ہے، بلکہ ساڑھے تیرہ صدیوں کے زبردست امتحان میں پورا اتر چکا ہے اور اس طویل مدت میں کسی ملک اور کسی قوم کے اندر بھی اس کے اثر سے ان خرابیوں کا عشرِ عشیر بھی رونما نہیں ہوا ہے جو مغربی تمدن کے اثر سے صرف ایک صدی کے اندر پیدا ہو چکی ہیں، پس اگر اس محکم اور آزمودہ نظامِ معاشرت سے آپ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو آپ کو اس کے ضابطہ اور اس کے ڈسپلن کی پوری پوری پابندی کرنا ہو گی اور یہ حق آپ کو ہرگز حاصل نہ ہو گا کہ اپنی عقل سے نکالے ہوئے یا دوسروں سے سیکھے ہوئے نیم پختہ خیالات اور غیر آزمودہ طریقوں کو، جو اس نظامِ معاشرت کی طبیعت اور اس کے مزاج کے بالکل خلاف ہوں، خواہ مخواہ اس میں ٹھونسنے کی کوشش کریں۔
تیسرا گروہ چوں کہ سفہا اور مغفلین پر مشتمل ہے، جن میں خود سوچنے، سمجھنے اور رائے قائم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، لہٰذا وہ کسی توجہ کا مستحق نہیں بہتر یہی ہے کہ ہم اسے نظر انداز کرکے آگے بڑھیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں