Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں

اب شہریت کے مسئلے کو لیجیے۔ اسلام چونکہ ایک نظام فکر و عمل ہے اور اسی نظام کی بنیاد پر وہ ایک ریاست قائم کرتا ہے‘ اس لیے وہ اپنی ریاست میں شہریت کی دو قسمیں قرار دیتا ہے۔ پھر چونکہ راست بازی و حق گوئی اسلام کی اصل روح ہے‘ اس لیے وہ بغیر کسی مکرو فریب کے صاف صاف شہریت کی اس تقسیم کو بیان بھی کر دیتا ہے‘ دنیا کو دھوکا دینے کے لیے یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا، کہ زبان سے اپنے سب شہریوں کو یکساں قرار دے اور عمل میں ان کے درمیان نہ صرف تمیز کرے، بلکہ ان کے ایک عنصر کو انسانی حقوق تک دینے میں بے انصافی سے کام لے‘ جیسا کہ امریکہ میں حبشیوں کا اور روس میں غیر اشتراکیوں کا اور تمام دنیا کی لادینی جمہوریتوں میں قومی اقلیتوں کا حال ہے۔
شہریت کی دو قسمیں جو اسلام نے کی ہیں‘ یہ ہیں:
ایک:مسلم،دوسرے: ذِمّی
۱۔ مسلم شہریوں کے باب میں قرآن کہتا ہے کہ:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُہَاجِرُوْا۝۰ۚ الانفال72:8
جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اپنی جان و مال سے راہ خدا میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو جگہ دی اور ان کی مدد کی‘ وہ ایک دوسرے کے ولی ہیں اور جو لوگ ایمان لائے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام میں) نہ آئے‘ تمھارے لیے ان کی ولایت میں سے کچھ نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں۔
اس آیت میں شہریت کی دو بنیادیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک: ایمان‘ دوسرے: دارالاسلام کی رعایا ہونا یا بن جانا۔ اگر کوئی شخص ایمان رکھتا ہو‘ مگر دارالکفر کی تابعیت ترک کرکے (جسے لفظ ہجرت سے تعبیر کیا گیا ہے) دارالاسلام میں نہ آبسے‘ تو وہ دارالاسلام کا شہری نہیں ہے۔ اس کے برعکس تمام ایسے اہل ایمان جو دارالاسلام کے باشندے ہوں‘ قطع نظر اس سے کہ وہ دارالاسلام ہی میں پیدا ہوئے ہوں، یا کسی دارالکفر سے ہجرت کرکے آئے ہوں۔۱۰۶؎ دارالاسلام کے یکساں شہری اور ایک دوسرے کے ولی (حامی و مددگار) ہیں۔
ان مسلم شہریوں پر اسلام نے اپنے پورے نظام کے اٹھانے کی ذمے داری ڈالی ہے‘ کیونکہ وہی اصولاً اس نظام کو حق مانتے ہیں۔ ان پر وہ اپنا پورا قانون نافذ کرتا ہے۔ ان کو اپنے تمام مذہبی‘ اخلاقی‘ تمدنی اور سیاسی احکام کا پابند کرتا ہے۔ ان کے ذمے اپنے سارے واجبات و فرائض عائد کرتا ہے۔ ان سے اپنی ریاست کی مدافعت کے لیے ہر قربانی کا مطالبہ کرتا ہے، اور پھر انھی کو یہ حق بھی دیتا ہے کہ اس ریاست کے اولی الامر کا انتخاب کریں‘ اس کو چلانے والی پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) میں شریک ہوں‘ اور اس کے کلیدی مناصب پر مقرر کیے جائیں، تاکہ اس اصولی ریاست کی پالیسی ٹھیک اس کے بنیادی اصولوں کے مطابق چل سکے۔ اس قاعدے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عہدِ نبویؐ اور عہدِ خلافتِ راشدہ میں ایک مثال بھی اس امر کی نہیں مل سکتی کہ کسی ذمی کو مجلس شوریٰ کا رکن‘ یا کسی علاقے کا گورنر یا کہیں کا قاضی یا کسی شعبۂ حکومت کا وزیر، یا ناظم یا فوج کا کمانڈر بنایا گیا ہو یا خلیفہ کے انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا ہو۔ حالانکہ ذمی خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں موجود تھے اور خلافتِ راشدہ کے دور میں تو ان کی آبادی کروڑوں تک پہنچی ہوئی تھی۔ اگر فی الواقع ان امور میں حصہ لینا ان کا حق ہوتا تو ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اللہ کا نبی ان کی حق تلفی کیسے کرسکتا تھا اور نبی کے براہ راست تربیت یافتہ لوگ مسلسل ۳۰ برس، اس حق کو ادا کرنے سے کس طرح باز رہ سکتے تھے۔
۲۔ذمی شہریوں سے مراد وہ تمام غیر مسلم ہیں جو اسلامی ریاست کے حدود میں رہ کر اس کی اطاعت و وفاداری کا اقرار کریں‘ قطع نظر اس سے کہ وہ دار الاسلام میں پیدا ہوئے ہوں، یا باہر سے آکر ذمی بننے کی درخواست کریں۔ اس طرح کے شہریوں کو اسلام ان کے مذہب اور کلچر اور پرسنل لا کے تحفظ اور جان و مال و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے‘ ان پر صرف اپنے ملکی قوانین نافذ کرتا ہے‘ ان کو ملکی قوانین میں مسلمانوں کے ساتھ برابر کے حقوق دیتا ہے‘ ان کے لیے کلیدی مناصب کے سوا ہر قسم کی ملازمتوں کے دروازے کھلے رکھتا ہے‘ ان کو شہری آزادیوں میں مسلمانوں کے ساتھ برابر کا شریک کرتا ہے‘ ان کے ساتھ معاشی معاملات میں مسلمانوں سے الگ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھتا اور مملکت کے دفاع کی ذمے داری سے انھیں مستثنیٰ کرکے اس کا پورا بار صرف مسلمانوں پر ڈالتا ہے۔
ان دو قسم کی شہریتوں پر اور ان کی الگ الگ حیثیتوں پر اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ پہلے اس سلوک پر ایک نگاہ ڈال لے جو دنیا کی دوسری اصولی ریاستیں اپنے اصول کے نہ ماننے والوں سے اور قومی ریاستیں اپنے حدود میں رہنے والی قومی اقلیتوں سے کر رہی ہیں۔ درحقیقت یہ بات پورے چیلنج کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ایک ریاست کے اندر اس کی بنیادوں سے مختلف بنیادِ وجود رکھنے والوں کی موجودگی جو پیچیدگی پیدا کرتی ہے اس کو اسلام سے زیادہ انصاف‘ رواداری اورفیاضی کے ساتھ کسی دوسرے نظام نے حل نہیں کیا ہے۔ دوسروں نے اس پیچیدگی کو زیادہ تر دو ہی طریقوں سے حل کیا ہے، یا تو انھیں مٹا دینے کی کوشش کی ہے یا شودر بنا کر رکھا ہے۔ اسلام اس کے بجائے یہ طریقہ اختیار کرتا ہے کہ انصاف کے ساتھ اپنے اصول کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان ایک حد قائم کر دیتا ہے۔ جو ماننے والے ہیں ان کو پوری طرح اپنے اصولوں کا پابند کرتا ہے اور ان اصولوں کے مطابق ریاست کانظام چلانے کی ذمے داری ان پر ڈال دیتا ہے اور جو ان اصولوں کو قبول نہیں کرتے ان کو صرف اسی حد تک پابند کرتا ہے جو ملک کے نظم کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے اور انھیں ریاست کا نظام چلانے کی ذمے داری سے سبکدوش کرنے کے بعد، ان کے تمام تمدنی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔

شیئر کریں