Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۷۔ اصول اطاعت ووفاداری

مندرجہ بالا تصورِ حاکمیت و خلافت کا فطری اور منطقی تقاضا یہ ہے کہ اطاعت اور وفاداری کا مرجع بھی خالق اور اس کی ہدایات ہوں اور ریاست میں باقی تمام وفاداریاں اسی بنیادی وفاداری کی تابع ہوں۔ اس اصول کی وضاحت قرآن نے اس طرح کی ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۝۰ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَى اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ۝۰ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَاَحْسَنُ تَاْوِيْلًاo
النساء: 59:4
اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں‘ پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو‘ اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
یہ آیت اسلام کے پورے مذہبی‘ تمدنی اور سیاسی نظام کی بنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اولین دفعہ ہے۔ اس میں حسب ذیل اصول مستقل طور پر قائم کر دیے گئے ہیں:
۱۔ اسلامی نظام میں اصل مطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندۂ خدا ہے‘ باقی جو کچھ بھی ہے اس کے بعد ہے۔ مسلمان کی انفرادی زندگی اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام‘ دونوں کا مرکز و محور خدا کی فرماں برداری اور وفاداری ہے۔ دوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مدمقابل نہ ہوں‘ بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں، ورنہ ہر وہ حلقۂ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا جو اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف ہو۔ یہی بات ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ: لَاطَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ(مشکوٰۃ،حدیث ۳۵۲۵)’خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے‘۔
۲۔ اسلامی نظام کی دوسری بنیاد رسول ؑ کی اطاعت ہے۔ یہ کوئی مستقل بالذات اطاعت نہیں ہے بلکہ اللہ کی اطاعت کی واحد عملی صورت ہے۔ رسول ؑ اس لیے مطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقے سے کرسکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں۔ کوئی اطاعت خدا اور رسول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے اور رسول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے: مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ(مشکوٰۃ، حدیث۳۴۹۱ )
جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی‘‘ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آرہی ہے۔
۳۔ مذکورہ بالا دونوں اطاعتوں کے بعد اور ان کے ماتحت تیسری اطاعت جو اسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ ان’اولی الامر‘ کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہوں۔ ’اولی الامر‘ کے مفہوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار ہوں‘ خواہ وہ ذہنی و فکری رہنمائی کرنے والے علما ہوں، یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر‘ یا ملکی انتظام کرنے والے حکام‘ یا عدالتی فیصلے کرنے والے جج یا تمدنی و معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ اور سردار۔ غرض جو جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صاحب امر ہے وہ اطاعت کا مستحق ہے اور اس سے نزاع کرکے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے‘ بشرطیکہ وہ خود مسلمانوں کے گروہ میں سے ہو اور وہ خدا و رسولؐ کا مطیع ہو۔ یہ دونوں شرطیں اس اطاعت کے لیے لازمی شرطیں ہیں اور یہ نہ صرف آیت مذکورۂ صدر میں صاف طور پر درج ہیں، بلکہ حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پوری شرح و بسط کے ساتھ بیان فرما دیا ہے۔ مثلاً حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں:
۱۔ اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ عَلَی الْمَرْئِ الْمُسْلِمِ فِیْ مَا اَحَبَّ وَکَرِہَ مَالَمْ یُؤْمَرْ بِمَعْصِیَۃٍ فَاِذَا اُمِرَ بِمَعْصِیَۃٍ فَلاَ سَمْعَ وَلاَ طَاعَۃَ۔ (بخاری و مسلم)
مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے اولی الامر کی بات سنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند‘ تاوقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سننا چاہیے نہ ماننا چاہیے۔
۲۔ لاَ طَاعَۃَ فِیْ مَعْصِیَۃٍ اِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِی الْمَعْرُوْفِ۔ (بخاری و مسلم)
خدا اور رسول کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت جو کچھ بھی ہے ’معروف‘ میں ہے۔
یَکُوْنُ عَلَیْکُمْ اُمَرَائِ تَعْرِفُوْنَ وَتُنْکِرُوْنَ فَمَنْ اَنْکَرَ فَقَدْ بَرِیَٔ وَمَنْ کَرِہَ فَقَدْ سَلِمَ وَلٰکِنْ مَنْ رَضِیَ وَتَابَعَ فَقَالُوْا اَفَلاَ نُقَاتِلُھُمْ قَالَ لَا مَاصَلُّوْا۔۵۵؎
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم پر ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کی بعض باتوں کو تم معروف پائو گے اور بعض کو منکر۔ تو جس نے ان کے منکرات پر اظہار ناراضی کیا وہ بری الذمہ ہوا، اور جس نے ان کو ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا، مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیروی کرنے لگا وہ ماخوذ ہوگا۔ صحابہؓ نے پوچھا: پھر جب ایسے حکام کا دور آئے تو کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپؐ نے فرمایا :نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔(یعنی ترک نماز وہ علامت ہوگی جس سے صریح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ وہ اللہ اور رسول کی اطاعت سے باہر ہوگئے ہیں اور پھر ان کے خلاف جدوجہد کرنا درست ہوگا۔)
۴۔ شِرَار اَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تَبْغُضُوْنَھُمْ وَیَبْغُضُوْنَکُمْ وَتَلْعَنُوْنَھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ قُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلاَ نُنَابِذُھُمْ عِنْدَذٰلِکَ قَالَ لَامَا اَقَامُوْا فِیْکُمُ الصَّلوٰۃَ لَامَا اَقَامُوْا فِیْکُمُ الصَّلٰوۃَ۔
(مسلم۔ مشکوۃ۳۵۰۰)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمھارے بدترین سردار وہ ہیں جو تمھارے لیے مبغوض ہوں اور تم ان کے لیے مبغوض ہو۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:یارسولؐ اللہ! جب یہ صورت ہو تو کیا ہم ان کے مقابلے پر نہ اٹھیں؟ فرمایا:’نہیں‘ جب تک وہ تمھارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں‘ نہیں‘ جب تک وہ تمھارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔
اس حدیث میں اوپر والی شرط کو واضح کر دیا گیا ہے۔ اوپر کی حدیث سے گمان ہوسکتا تھا کہ اگر وہ اپنی انفرادی زندگی میں نماز کے پابند ہوں تو ان کے خلاف بغاوت نہیں کی جاسکتی، لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ نماز پڑھنے سے مراد دراصل مسلمانوں کی جماعتی زندگی میں نماز کا نظام قائم کرنا ہے۔ یعنی صرف یہی کافی نہیں ہے کہ وہ لوگ خود پابند نماز ہوں‘ بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے تحت جو نظامِ حکومت چل رہا ہو وہ کم از کم اقامت ِ صلوٰۃ کا انتظام کرے۔ یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ ان کی حکومت اپنی اصلی نوعیت کے اعتبار سے ایک اسلامی حکومت ہے ورنہ اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ حکومت اسلام سے منحرف ہو چکی ہے اور اسے الٹ پھینکنے کی سعی مسلمانوں کے لیے جائز ہو جائے گی۔ اسی بات کو ایک اور روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے من جملہ اور باتوں کے ایک اس امر کا عہد بھی لیا کہ:
اَنْ لاَّ نُنَازِعَ الْاَمْرَ اَھْلَہ‘ اِلاَّ اَنْ تَرَوْا کُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ فِیْہِ بُرْھَانٌ۔
(بخاری، مسلم۔ مشکوٰۃ ۳۴۹۶)
یعنی یہ کہ ہم اپنے سرداروں اور حکام سے نزاع نہ کریں گے‘ الایہ کہ ہم ان کے کاموں میں کھلا کفر دیکھیں جس کی موجودگی میں ان کے خلاف ہمارے پاس خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے دلیل موجود ہو۔
۴۔ چوتھی بات جو آیت زیر بحث میں ایک مستقل اور قطعی اصول کے طور پر طے کر دی گئی ہے یہ ہے کہ اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند (final authority)کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلے میں بھی نزاع واقع ہوگی اُس میں فیصلے کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہوگا اس کے سامنے سب سرِتسلیم خم کردیں گے۔ اس طرح تمام مسائل زندگی میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سند اور مرجع اور حرفِ آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصوصیت ہے جو اسے کافرانہ نظامِ زندگی سے ممیز کرتی ہے۔ جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین ایک غیر اسلامی نظام ہے۔
اس موقع پر بعض لوگ یہ شُبہ پیش کرتے ہیں کہ تمام مسائل زندگی کے فیصلے کے لیے کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیسے رجوع کیا جاسکتا ہے جب کہ میونسپلٹی اور ریلوے اور ڈاک خانے کے قواعد و ضوابط اور ایسے ہی بے شمار معاملات کے احکام سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ شُبہ اصول دین کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ مسلمان کو جو چیز کافر سے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کافر مطلق آزادی کا مدعی ہے اور مسلمان فی الاصل بندہ ہونے کے بعد صرف اس دائرے میں آزادی سے متمتع ہوتا ہے جو اس کے رب نے اسے دی ہے۔ کافر اپنے سارے معاملات کا فیصلہ خود اپنے بنائے ہوئے اصول اور قوانین و ضوابط کے مطابق کرتا ہے اور سرے سے کسی خدائی سند کا اپنے آپ کو حاجت مند سمجھتا ہی نہیں۔ اس کے برعکس مسلمان پر ہر معاملے میں سب سے پہلے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتا ہے‘ پھر اگر وہاں سے کوئی حکم ملے تو وہ اس کی پیروی کرتا ہے اور اگر کوئی حکم نہ ملے تو وہ صرف اسی صورت میں آزادیِ عمل برتتا ہے اور اس کی یہ آزادی عمل اس حجت پر مبنی ہوتی ہے کہ اس معاملے میں شارع کا حکم نہ دینا اس کی طرف سے آزادی عمل عطا کیے جانے کی دلیل ہے۔
۵۔ پھر اس آیت کی رُو سے مسلمان اپنے اولی الامر سے نزاع کا حق رکھتے ہیں اور نزاع کی صورت میں فیصلہ جس چیز پر چھوڑا جائے گا وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہوگی۔ یہ آخری سند جس کے حق میں بھی فیصلہ دے اسے ماننا پڑے گا خواہ فیصلہ اولی الامر کے حق میں ہو، یا رعایا کے حق میں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اس حکم کا تقاضا پورا کرنے کے لیے کوئی ادارہ ایسا ہونا چاہیے جس کے پاس نزاع لے جائی جائے اور جس کاکام یہ ہو کہ کتاب اللہ و سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اس نزاع کا فیصلہ کرے۔ یہ ادارہ خواہ کوئی مجلسِ علما ہو، یا سپریم کورٹ یا کوئی اور‘ اس کے تعین کی کسی خاص شکل پر شریعت نے ہمیں مجبور نہیں کر دیا ہے، مگر بہرحال ایسا کوئی ادارہ مملکت میں ہونا چاہیے اور اس کی یہ حیثیت خاص ہونی چاہیے کہ انتظامیہ اور مقننہ اور عدلیہ کے احکام اور فیصلوں کے خلاف ____ اس کے پاس مرافعہ کیا جاسکے اور اس کا بنیادی اصول یہ ہونا چاہیے کہ کتاب و سنت کی ہدایات کے مطابق وہ حق اور باطل کا فیصلہ کرے۔
مزید برآں قرآنِ مجید چونکہ محض کتابِ آئین ہی نہیں ہے، بلکہ کتاب تعلیم و تلقین اور صحیفۂ وعظ و ارشاد بھی ہے‘ اس لیے پہلے فقرے میں جو قانونی اصول بیان کیے گئے تھے‘ اب اس دوسرے فقرے میں ان کی حکمت و مصلحت سمجھائی جارہی ہے۔ اس میں دوباتیں ارشاد ہوئی ہیں:
٭ ایک یہ کہ مذکورہ بالا چاروں اصولوں کی پیروی کرنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ اور ان اصولوں سے انحراف‘ یہ دونوں چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں۔
٭ دوسرے یہ کہ ان اصولوں پر اپنے نظام زندگی کو تعمیر کرنے ہی میں مسلمانوں کی بہتری بھی ہے۔
صرف یہی ایک چیز ان کو دنیا میں صراط مستقیم پر قائم رکھ سکتی ہے اور اسی سے ان کی عاقبت بھی درست ہوسکتی ہے۔ یہ نصیحت ٹھیک اس تقریر کے خاتمے پر ارشاد ہوئی ہے جس میں یہودیوں کی اخلاقی و دینی حالت پر تبصرہ کیا جارہا تھا۔ اس طرح ایک نہایت لطیف طریقے سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تمھاری پیش رَو امت دین کے ان بنیادی اصولوں سے منحرف ہو کر جس پستی میں گر چکی ہے اس سے عبرت حاصل کرو۔ جب کوئی گروہ خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی ہدایت کو پسِ پُشت ڈال دیتا ہے‘ اور ایسے سرداروں اور رہنمائوں کے پیچھے لگ جاتا ہے جو خدا اور رسول کے مطیع فرمان نہ ہوں اور اپنے مذہبی پیشوائوں اور سیاسی حاکموں سے کتاب و سنت کی سند پوچھے بغیر ان کی اطاعت کرنے لگتا ہے تو وہ ان خرابیوں میں مبتلا ہونے سے کسی طرح بچ نہیں سکتا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوئے۔ (تفہیم القرآن، ج ا، ص ۳۶۳۔۳۶۷)

شیئر کریں