اس غرض کے لیے قرآن یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ دولت صرف حلال طریقوں سے حاصل کی جائے اور حرام طریقوں سے اجتناب کیا جائے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ۰ۣ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًاo النساء29:4
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو مگر یہ کہ تجارت ہو تمہاری آپس کی رضامندی سے،(یہ بات سورئہ النحل کو آیت ۷۱ سے ۷۶ تک اور سورئہ الروم کو آیت ۲۰ سے ۳۵ تک پڑھنے سے پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ دونوں عبارتوں میں موضوعِ بحث دراصل شرک کا ابطال اور توحید کا اِثبات ہے۔ ان دونوں مقامات کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، صفحات ۵۵۴ تا ۵۵۸۔ جلد سوم، صفحات ۷۴۲ تا ۷۵۶۔) اور اپنے آپ کو (یا ایک دوسرے کو) ہلاک نہ کرو، اللہ تمہارے اوپر رحیم ہے۔‘‘