Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ
کچھ جدید اڈیشن کے بارے میں
۱۔ نوعیتِ مسئلہ
۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں
۳ ۔دَورِ جدید کا مسلمان
۴۔ نظریات
۵ ۔نتائج
۶ ۔چند اور مثالیں
۷۔ فیصلہ کن سوال
۸ ۔قوانینِ فطرت
۹ ۔انسانی کوتاہیاں
۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت
۱۱ ۔پردہ کے احکام
۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین
۱۳۔ خاتمہ

پردہ

  مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔

”پردہ “ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔

عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،”پردہ “ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔

۶ ۔چند اور مثالیں

۱۔امریکا
ہم نے محض تاریخی بیان کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے فرانس کے نظریات اور فرانس ہی کے نتائج بیان کیے ہیں۔ لیکن یہ گمان کرنا صحیح نہیں ہو گا کہ فرانس اس معاملہ میں منفرد ہے۔ فی الحقیقت آج اُن تمام ممالک کی کم و بیش یہی کیفیت ہے جنھوں نے وہ اَخلاقی نظریات اور معاشرے کے وہ غیر متوازن اصول اختیار کیے ہیں جن کا ذکر پچھلے ابواب میں کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ممالک متحدہ امریکا کو لیجیے جہاں یہ نظامِ معاشرت اس وقت اپنے پورے شباب پر ہے۔
بچوں پر شہوانی ماحول کے اثرات
جج بن لنڈسے (Ben Lindsey) جسے ڈنور (Denver) کی عدالت جرائمِ اطفال (juvenile court) کا صدر ہونے کی حیثیت سے امریکا کے نوجوانوں کی اَخلاقی حالت سے واقف ہونے کا بہت زیادہ موقع ملا ہے۔ اپنی کتاب “Revolf of Modern Youth” میں لکھتا ہے کہ امریکا میں بچے قبل از وقت بالغ ہونے لگے ہیں اور بہت کچی عمر میں ان کے اندر صنفی احساسات بیدار ہو جاتے ہیں۔ اس نے نمونہ کے طور پر ۳۱۲ لڑکیوں کے حالات کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان میں ۲۵۵ ایسی تھیں جو گیارہ اور تیرہ برس کے درمیان عمر میں بالغ ہو چکی تھیں اور ان کے اندر ایسی صنفی خواہشات اور ایسے جسمانی مطالبات کے آثار پائے جاتے تھے جو ایک ۱۸برس اور اس سے بھی زیادہ عمر کی لڑکی میں ہونے چاہییں۔ (صفحہ ۸۲ تا ۸۶)
ڈاکٹر ایڈتھ ہو کر (Edith Hooker) اپنی کتاب “Laws of Sex” میں لکھتی ہے کہ ’’نہایت مہذب اور دولت مند طبقوں میں بھی یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ سات آٹھ برس کی لڑکیاں اپنے ہم عمر لڑکوں سے عشق و محبت کے تعلقات رکھتی ہیں، جن کے ساتھ بسا اوقات مباشرت بھی ہو جاتی ہے۔‘‘
اس کا بیان ہے:
ایک سات برس کی چھوٹی سی لڑکی جو ایک نہایت شریف خاندان کی چشم و چراغ تھی خود اپنے بڑے بھائی اور اس کے چند دوستوں سے ملوث ہوئی۔ ایک دوسرا واقعہ یہ ہے کہ پانچ بچوں کا ایک گروہ جو دو لڑکیوں اور تین لڑکوں پر مشتمل تھا اور جن کے گھر پاس پاس واقع ہوئے تھے باہم شہوانی تعلقات میں وابستہ پائے گئے اور انھوں نے دوسرے ہم سن بچوں کو بھی اس کی ترغیب دی۔ ان میں سب سے بڑے بچے کی عمر صرف دس سال کی تھی۔ ایک اور واقعہ ایک ۹ سال کی بچی کا ہے جو بظاہر بہت حفاظت سے رکھی جاتی تھی۔ اس بچی کو متعدد ’’عشاق‘‘ کی منظورِ نظر ہونے کا فخر حاصل تھا۔‘‘ (صفحہ ۳۲۸)
بالٹی مور (baltimore) کے ایک ڈاکٹر کی رپورٹ ہے کہ ایک سال کے اندر اس کے شہر میں ایک ہزار سے زیادہ ایسے مقدمات پیش ہوئے جن میں بارہ برس سے کم عمر کی لڑکیوں کے ساتھ مباشرت کی گئی تھی۔ (صفحہ:۱۷۷)
یہ پہلا ثمرہ ہے اس ہیجان انگیز ماحول کا جس میں ہر طرف جذبات کو برانگیختہ کرنے والے اسباب فراہم ہو گئے ہوں۔ امریکا کا ایک مصنف لکھتا ہے کہ ہماری آبادی کا اکثر و بیش تر حصہ آج کل جن حالات میں زندگی بسر کر رہا ہے وہ اس قدر غیر فطری ہیں کہ لڑکے اور لڑکیوں کو دس پندرہ برس کی عمر ہی میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ عشق رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ نہایت افسوس ناک ہے۔ اس قسم کی قبل از وقت صنفی دل چسپیوں سے بہت بُرے نتائج رونما ہو سکتے ہیں اور ہوا کرتے ہیں۔ ان کا کم از کم نتیجہ یہ ہے کہ نو عمر لڑکیاں اپنے دوستوں کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں یا کم سنی میں شادیاں کر لیتی ہیں اور اگر محبت میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے تو خود کشی کر لیتی ہیں۔

(۲)تعلیم کا مرحلہ
اس طرح جن بچوں میں قبل از وقت صنفی احساسات بیدار ہو جاتے ہیں ان کے لیے پہلی تجربہ گاہ مدارس ہیں۔ مدرسے دو قسم کے ہیں۔ ایک قسم ان مدرسوں کی ہے جن میں ایک ہی صنف کے بچے داخل ہوتے ہیں۔ دوسری قسم اُن مدرسوں کی ہے جن میں تعلیم مخلوط ہے۔
پہلی قسم کے مدرسوں میں ’’صحبت ہم جنس‘‘ (homo-sexuality) اور خود کاری (masturbation) کی وبا پھیل رہی ہے، کیوں کہ جن جذبات کو بچپن ہی میں بھڑکایا جا چکا ہے اور جنھیں مشتعل کرنے کے سامان فضا میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں، وہ اپنی تسکین کے لیے کوئی نہ کوئی صورت نکالنے پرمجبور ہیں۔ ڈاکٹر ہوکر لکھتی ہے کہ اس قسم کی تعلیم گاہوں، کالجوں، نرسوں کے ٹریننگ سکولوں اور مذہبی مدرسوں میں ہمیشہ اس قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن میں ایک ہی صنف کے دو فرد آپس میں شہوانی تعلق رکھتے ہیں اور صنف مقابل سے ان کی دل چسپی فنا ہو چکی ہے۔
اس سلسلہ میں اس نے بکثرت واقعات ایسے بیان کیے ہیں جن میں لڑکیاں لڑکیوں کے ساتھ اور لڑکے لڑکوں کے ساتھ ملوث ہوئے اور دردناک انجام سے دوچار ہوئے۔ بعض دوسری کتابوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ’’صحبت ہم جنس‘‘ کی وبا کس قدر کثرت سے پھیلی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر لوری (Dr. Lowry) اپنی کتاب Hereself میں لکھتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر نے چالیس خاندانوں کو خفیہ اطلاع دی کہ ان کے لڑکے اب مدرسہ میں نہیں رکھے جا سکتے۔ کیوں کہ ان میں ’’بداخلاقی کی ایک خوف ناک حالت‘‘ کا پتا چلا ہے۔ (صفحہ:۱۷۹)
اب دوسری قسم کے مدارس کو لیجیے جن میں لڑکیاں اور لڑکے ساتھ مل کر پڑھتے ہیں۔ یہاں اشتعال کے اسباب بھی موجود ہیں اور اسے تسکین دینے کے اسباب بھی۔ جس ہیجان جذبات کی ابتدا بچپن میں ہوئی تھی، یہاں پہنچ کر اس کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ بدترین فحش لٹریچر لڑکوں اور لڑکیوں کے زیر مطالعہ رہتا ہے۔ عشقیہ افسانے، نام نہاد ’’آرٹ‘‘ کے رسالے صنفی مسائل پر نہایت گندی کتابیں اور مانع حمل کی معلومات فراہم کرنے والے مضامین ہیں۔ یہ ہیں وہ چیزیں جو عنفوانِ شباب میں مدرسوں اور کالجوں کے طالبین اور طالبات کے لیے سب سے زیادہ جاذبِ نظر ہوتی ہیں۔ مشہور امریکن مصنف ہینڈ رچ فان لون (Hendrich Von Loain)کہتا ہے کہ:
یہ لٹریچر جس کی سب سے زیادہ مانگ امریکن یونی ورسٹیوں میں ہے، گندگی، فحش اور بے ہودگی کا بدترین مجموعہ ہے جو کسی زمانہ میں اس قدر آزادی کے ساتھ پبلک میں پیش نہیں کیا گیا۔
اس لٹریچر سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، دونوں صنفوں کے جوان افراد ان پر نہایت آزادی اور بے باکی سے مباحثے کرتے ہیں اور اس کے بعد عملی تجربات کی طرف قدم بڑھایا جاتا ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں مل کر (petting parties) کے لیے نکلتے ہیں جن میں شراب اور سگریٹ کا استعمال خوب آزادی سے ہوتا ہے اور ناچ رنگ سے پورا لطف اٹھایا جاتا ہے۔{ FR 6804 }
لنڈسے کا اندازہ ہے کہ ہائی سکول کی کم از کم ۴۵ فی صدی لڑکیاں مدرسہ چھوڑنے سے پہلے خراب ہو چکتی ہیں اور بعد کے تعلیمی مدارج میں اوسط اس سے بہت زیادہ ہے۔ وہ لکھتا ہے:
ہائی سکول کا لڑکا بمقابلہ ہائی سکول کی لڑکی کے جذبات کی شدت میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ عمومًا لڑکی ہی کسی نہ کسی طرح پیش قدمی کرتی ہے اور لڑکا اس کے اشاروں پر ناچتا ہے۔
(۲) تین زبردست محرکات
مدرسے اور کالج میں پھر بھی ایک قسم کا ڈسپلن ہوتا ہے جو کسی حد تک آزادی عمل میں رکاوٹ پیدا کر دیتا ہے لیکن یہ نوجوان جب تعلیم گاہوں سے مشتعل جذبات اور بگڑی ہوئی عادات لیے ہوئے زندگی کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ان کی شورش تمام حدود و قیود سے آزاد ہو جاتی ہے۔ یہاں ان کے جذبات کوبھڑکانے کے لیے ایک پورا آتش خانہ موجود رہتا ہے اور ان کے بھڑکتے ہوئے جذبات کی تسکین کے لیے ہرقسم کا سامان بھی کسی دقت کے بغیر فراہم ہو جاتا ہے۔
ایک امریکن رسالہ میں ان اسباب کو ’’جن کی وجہ سے وہاں بداخلاقی کی غیرمعمولی اشاعت ہو رہی ہے‘‘ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
تین شیطانی قوتیں ہیں جن کی تثلیت آج ہماری دنیا پر چھا گئی ہے۔ اور یہ تینوں ایک جہنم تیارکرنے میں مشغول ہیں۔ فحش لٹریچر، جو جنگِ عظیم کے بعد حیرت انگیز رفتار کے ساتھ اپنی بے شرمی اور کثرتِ اشاعت میں بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ متحرک تصویریں جو شہوانی محبت کے جذبات کو نہ صرف بھڑکاتی ہیں بلکہ عملی سبق بھی دیتی ہیں۔ عورتوں کا گرا ہوا اخلاقی معیار جو ان کے لباس اور بسا اوقات ان کی برہنگی اور سگریٹ کے روزافزوں استعمال، اور مردوں کے ساتھ ان کے ہر قید و امتیاز سے ناآشنا اختلاط کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تین چیزیں ہمارے ہاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں اور ان کا نتیجہ مسیحی تہذیب و معاشرت کا زوال اور آخر کار تباہی ہے۔ اگر انھیں نہ روکا گیا تو ہماری تاریخ بھی روم اور ان دوسری قوموں کے مماثل ہو گی جنھیں یہی نفس پرستی اور شہوانیت ان کی شراب، عورتوں اور ناچ رنگ سمیت فنا کے گھاٹ اُتار چکی ہے۔
یہ تین اسباب جو تمدن و معاشرت کی پوری فضا پر چھائے ہوئے ہیں ہر اُس جوان مرد اور جوان عورت کے جذبات میں ایک دائمی تحریک پیدا کرتے رہتے ہیں جس کے جسم میں تھوڑا سا بھی گرم خون موجود ہے۔ فواحش کی کثرت اس تحریک کا لازمی نتیجہ ہے۔

(۳) فواحش کی کثرت
امریکا میں جن عورتوں نے زنا کاری کو مستقل پیشہ بنا لیا ہے ان کی تعداد کا کم از کم اندازہ چارپانچ لاکھ کے درمیان ہے{ FR 6807 }۔ مگر امریکا کی بیسوا کو ہندوستان کی بیسوا پر قیاس نہ کر لیجیے۔ وہ خاندانی بیسوا نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسی عورت ہے جو کل تک کوئی آزاد پیشہ کرتی تھی۔ بُری صحبت میں خراب ہو گئی اور قحبہ خانے میں آ بیٹھی۔ چند سال یہاں گزارے گی۔ پھر اس کام کو چھوڑ کر کسی دفتر یا کارخانہ میں ملازم ہو جائے گی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ امریکا کی ۵۰ فی صد بیسوائیں خانگی ملازموں domestic servant میں سے بھرتی ہوتی ہیں اور باقی ۵۰ فی صد ہسپتالوں، دفتروں اور دکانوں کی ملازمتیں چھوڑ کر آتی ہیں۔ عمومًا پندرہ اور بیس سال کی عمر میں یہ پیشہ شروع کیا جاتا ہے اور پچیس تیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد وہ عورت جو کل بیسوا تھی قحبہ خانے سے منتقل ہو کر کسی دوسرے آزاد پیشے میں چلی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکا میں چار پانچ لاکھ بیسوائوں کی موجودگی درحقیقت کیا معنی رکھتی ہے۔ جیسا کہ پچھلے باب میں بیان کیا جا چکا ہے، مغربی ممالک میں فاحشہ گری ایک منظم بین الاقوامی کاروبار کی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکا میں نیویارک، ریوڈی جینر اور بیونس آئرس اس کاروبار کی بڑی منڈیاں ہیں۔ نیو یارک کی دو سب سے بڑی ’’تجارتی کوٹھیوں‘‘ میں سے ہر ایک کی ایک ایک انتظامی کونسل ہے جس کے صدر اور سیکرٹری باقاعدہ انتخاب کیے جاتے ہیں۔ ہر ایک نے قانونی مشیر مقرر کر رکھے ہیں تاکہ کسی عدالتی قضیہ میں پھنس جانے کی صورت میں ان کے مفاد کی حفاظت کریں۔ جوان لڑکیوں کو بہکانے اور اڑا کر لانے کے لیے ہزارہا دلال مقرر ہیں جو ہر جگہ شکار کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں۔ ان شکاریوں کی دست برد کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ شکاگو آنے والے مہاجرین کی لیگ کے صدر نے ایک مرتبہ ۱۵ مہینوں کے اعداد و شمار جمع کیے تھے تو معلوم ہوا کہ اس مدت میں ۷۲۰۰ لڑکیوں کے خطوط لیگ کے دفتر کو موصول ہوئے جن میں لکھا تھا کہ وہ شکاگو پہنچنے والی ہیں مگر ان میں سے صرف (۱۷۰۰) اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ سکیں۔ باقی کا کچھ پتا نہ چل سکا کہ کہاں گئیں۔
قحبہ خانوں کے علاوہ بکثرت ملاقات خانے (assignation houses) اور (call houses) ہیں جو اس غرض کے لیے آراستہ رکھے جاتے ہیں کہ ’’شریف‘‘ اصحاب اور خواتین جب باہم ملاقات فرمانا چاہیں تو وہاں ان کی ملاقات کا انتظام کر دیا جائے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ایک شہر میں ایسے ۷۸ مکان تھے۔ ایک دُوسرے شہر میں ۴۳۔ ایک اور شہر میں ۱۳،{ FR 6810 } ان مکانوں میں صرف بن بیاہی خواتین ہی نہیں جاتیں بلکہ بہت سی بیاہی ہوئی خواتین کا بھی وہاں سے گزر ہوتا رہتا ہے۔{ FR 6811 }
ایک مشہور ریفارمر کا بیان ہے کہ:
نیو یارک کی شادی شدہ آبادی کا پورا ایک تہائی حصہ ایسا ہے جو اخلاقی اورجسمانی حیثیت سے اپنی ازدواجی ذمہ داریوں میں وفادار نہیں ہے اور نیویارک کی حالت ملک کے دوسرے حصوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔
امریکا کے مصلحینِ اَخلاق کی ایک مجلس (committee of fourteen) کے نام سے مشہور ہے۔ اس مجلس کی طرف سے بداخلاقی کے مرکزوں کی تلاش اور ملک کی اَخلاقی حالت کی تحقیقات اور اِصلاحِ اَخلاق کی عملی تدابیر کا کام بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ اس کی رپورٹوں میں بیان کیا گیا ہے کہ امریکا کے جتنے رقص خانے، نائٹ کلب، حسن گاہیں (beauty saloons)ہاتھوں کو خوب صورت بنانے کی دکانیں (manicure shops)، مالش کدے (massage rooms)، اور بال سنوارنے کی دکانیں (hair dressings) ہیں قریب قریب سب باقاعدہ قحبہ خانے بن چکے ہیں، بلکہ ان سے بھی بدتر، کیوں کہ وہاں ناقابلِ بیان افعال کا اِرتکاب کیا جاتا ہے۔
(۴) امراضِ خبیثہ
فواحش کی اس کثرت کا لازمی نتیجہ امراضِ خبیثہ کی کثرت ہے۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ امریکا کی قریب قریب ۹۰ فی صد آبادی ان امراض سے متاثر ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کے سرکاری دواخانوں میں اوسطًا ہر سال آتشک کے دو لاکھ اور سوزاک کے ایک لاکھ ۶۰ہزار مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ ۶۵ دواخانے صرف انھی امراض کے لیے مخصوص ہیں۔ مگر سرکاری دوا خانوں سے زیادہ مرجوعہ پرائیویٹ ڈاکٹروں کا ہے جن کے پاس آتشک کے ۶۱ فی صد اور سوزاک کے ۶۹ فی صدی مریض جاتے ہیں۔ (جلد ۲۳۔ صفحہ۴۵)
تیس اور چالیس ہزار کے درمیاں بچوں کی اموات صرف موروثی آتشک کی بدولت ہوتی ہیں۔ دق کے سوا باقی تمام امراض سے جتنی موتیں واقع ہوتی ہیں ان سب سے زیادہ تعداد ان اموات کی ہے، جو صرف آتشک کی بدولت ہوتی ہیں۔ سوزاک کے ماہرین کا کم از کم تخمینہ ہے کہ ۶۰ فی صد جو ان اشخاص اس مرض میں مبتلا ہیں، جن میں شادی شدہ بھی ہیں اور غیر شادی شدہ بھی۔ امراضِ نسواں کے ماہرین کا متفقہ بیان ہے کہ شادی شدہ عورتوں کے اعضائے جنسی پر جتنے آپریش کیے جاتے ہیں، ان میں سے ۷۵ فی صدی ایسی نکلتی ہیں جن میں سوزاک کا اثر پایا جاتا ہے۔{ FR 6813 }
(۵) طلاق اورتفریق
ایسے حالات میں ظاہر ہے کہ خاندان کا نظم اور ازدواج کا مقدس رابطہ کہاں قائم رہ سکتا ہے۔ آزادی کے ساتھ اپنی روزی کمانے والی عورتیں جنھیں شہوانی ضروریات کے سوا اپنی زندگی کے کسی شعبہ میں بھی مرد کی ضرورت نہیں ہے اور جنھیں شادی کے بغیر آسانی کے ساتھ مرد بھی مل سکتے ہیں، شادی کو ایک فضول چیز سمجھتی ہیں۔ جدید فلسفہ اور مادّہ پرستانہ خیالات نے ان کے وجدان سے یہ احساس بھی دور کر دیا ہے کہ شادی کے بغیر کسی شخص سے تعلقات رکھنا کوئی عیب یا گناہ ہے۔ سوسائٹی کو بھی اس ماحول نے اس قدر بے حس بنا دیا ہے کہ وہ ایسی عورتوں کو قابلِ نفرت یا قابلِ ملامت نہیں سمجھتی۔ جج لنڈسے امریکا کی عام لڑکیوں کے خیالات کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتا ہے:
مَیں شادی کیوں کروں؟ میرے ساتھ کی جن لڑکیوں نے گزشتہ دو سال میں شادیاں کی ہیں، ہر دس میں سے پانچ کی شادی کا انجام طلاق پر ہوا۔ میں سمجھتی ہوں کہ اس زمانہ کی ہر لڑکی محبت کے معاملہ میں آزادی عمل کا فطری حق رکھتی ہے۔ ہمیں مانع حمل کی کافی تدبیریں معلوم ہیں۔ اس ذریعہ سے یہ خطرہ بھی دور کیا جا سکتا ہے کہ ایک حرامی بچہ کی پیدائش کوئی پیچیدہ صورتِ حال پیدا کر دے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ روایتی طریقوں کو اس جدید طریقہ سے بدل دینا عقل کا مقتضا ہے۔
ان خیالات کی بے شرم عورتوں کو اگر کوئی چیز شادی پر آمادہ کرتی ہے تو وہ صرف جذبۂ محبت ہے لیکن اکثر یہ جذبہ بھی دل اور روح کی گہرائی میں نہیں ہوتا، بلکہ محض ایک عارضی کشش کا نتیجہ ہوتا ہے۔ خواہشات کا نشہ اتر جانے کے بعد زوجین میں کوئی الفت باقی نہیں رہتی۔ مزاج اور عادات کی ادنیٰ ناموافقت ان کے درمیان منافرت پیدا کر دیتی ہے۔ آخر کار عدالت میں طلاق یا تفریق کا دعوٰی پیش ہو جاتا ہے۔ لنڈسے لکھتا ہے:
۱۹۲۲ء میں ڈنور میں ہر شادی کے ساتھ ایک واقعہ تفریق کا پیش آیا، اور دو شادیوں کے مقابلہ میں ایک مقدمہ طلاق کا پیش ہوا۔ یہ حالت محض ڈنور ہی کی نہیں ہے۔ امریکا کے تقریباً تمام شہروں کی قریب قریب یہی حالت ہے۔
پھر لکھتا ہے:
طلاق اور تفریق کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور اگر یہی حالت رہی جیسی کہ امید ہے تو غالبًا ملک کے اکثر حصوں میں جتنے شادی کے لائسنس دیے جائیں گے اتنے ہی طلاق کے مقدمے پیش ہوں گے۔
کچھ عرصہ ہوا کہ ڈیٹرائے (Detroit) کے اخبار ’’فری پریس‘‘ میں ان حالات پر ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا ایک پیرا یہ ہے:
نکاحوں کی کمی، طلاقوں کی زیادتی اور نکاح کے بغیر مستقل یا عارضی ناجائز تعلقات کی کثرت یہ معنی رکھتی ہے کہ ہم حیوانیت کی طرف واپس جا رہے ہیں۔ بچے پیدا کرنے کی فطری خواہش مٹ رہی ہے، پیدا شدہ بچوں سے غفلت برتی جا رہی ہے اور اس امر کا احساس رخصت ہو رہا ہے کہ خاندان اور گھر کی تعمیر، تہذیب اور آزاد حکومت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اس کے برعکس تہذیب اور حکومت کے انجام سے ایک بے دردانہ بے اعتنائی پیدا ہو رہی ہے۔
طلاق اور تفریق کی اس کثرت کا علاج اب یہ نکالا گیا ہے کہ (commissionate marriage) یعنی ’’آزمائشی نکاح‘‘ کو رواج دیا جائے۔ مگر یہ علاج اصل مرض سے بھی بدتر ہے۔ آزمائشی نکاح کے معنی یہ ہیں کہ مرد اور عورت ’’پرانے فیشن کی شادی‘‘ کیے بغیر کچھ عرصہ تک باہم مل کر رہیں۔ اگر اس یک جائی میں دل سے دل مل جائے تو شادی کر لیں ورنہ دونوں الگ ہو کرکہیں اور قسمت آزمائی کریں۔ دورانِ آزمائش میں دونوں کو اولاد پیدا کرنے سے پرہیز کرنا لازمی ہے، کیوں کہ بچے کی پیدائش کے بعد انھیں باضابطہ نکاح کرنا پڑے گا۔ یہ وہی چیز ہے جس کا نام روس میں آزاد محبت (free love) ہے۔
(۶) قومی خود کشی
نفس پرستی، ازدواجی ذمہ داریوں سے نفرت، خاندانی زندگی سے بے زاری اور ازدواجی تعلقات کی ناپائداری نے عورت کے اس فطری جذبہ مادری کو قریب قریب فنا کر دیا ہے جو نسوانی جذبات میں سب سے زیادہ اشرف و اعلیٰ روحانی جذبہ ہے، اور جس کی بقا پر نہ صرف تمدن و تہذیب، بلکہ انسانیت کی بقا کا انحصار ہے۔ مانع حمل، اسقاطِ حمل، اور قتلِ اطفال اسی جذبہ کی موت سے پیدا ہوئے ہیں۔ مانع حمل کی معلومات ہر قسم کی قانونی پابندیوں کے باوجود ممالک متحدہ امریکا میں ہر جوان لڑکی اور لڑکے کو حاصل ہیں۔ مانع حمل دوائیں اور آلات بھی آزادی کے ساتھ دکانوں پر فروخت ہوتے ہیں۔ عام آزاد عورتیں تو درکنار مدرسوں اور کالجوں کی لڑکیاں بھی اس سامان کو ہمیشہ اپنے پاس رکھتی ہیں، تاکہ اگر ان کا دوست اتفاقًا اپنا سامان بھول آئے تو ایک پرلطف شام ضائع نہ ہونے پائے۔
ہائی اسکول کی کم عمر والی ۴۹۵لڑکیاں جنھوں نے خود مجھ سے اقرار کیا کہ انھیں لڑکوں کے صنفی تعلقات کا تجربہ ہو چکا ہے۔ ان میں سے صرف ۲۵ ایسی تھیں جنھیں حمل ٹھہر گیا تھا۔ باقی میں سے بعض تو اتفاقًا بچ گئی تھیں لیکن اکثر کو مانع حمل کی مؤثر تدابیرکا کافی علم تھا۔ یہ واقفیت ان میں اتنی عام ہو چکی ہے کہ لوگوں کو اس کا صحیح اندازہ نہیں ہے۔
کنواری لڑکیاں ان تدابیر کو اس لیے استعمال کرتی ہیں کہ ان کی آزادی میں فرق نہ آئے۔ شادی شدہ عورتیں اس لیے ان سے استفادہ کرتی ہیں کہ بچہ کی پیدائش سے نہ صرف ان پر تربیت اور تعلیم کا بار پڑ جاتا ہے، بلکہ شوہر کو طلاق دینے کی آزادی میں بھی رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے اور تمام عورتیں اس لیے ماں بننے سے نفرت کرنے لگی ہیں کہ زندگی کا پورا پورا لطف اٹھانے کے لیے انھیں اس جنجال سے بچنے کی ضرورت ہے۔ نیز اس لیے بھی کہ ان کے نزدیک بچے جننے سے ان کے حسن میں فرق آ جاتا ہے۔{ FR 6815 }
بہرحال اسباب خواہ کچھ بھی ہوں، ۹۵ فی صد تعلقات مرد و زن ایسے ہیں جن میں اس تعلق کے فطری نتیجہ کو مانع حمل کی تدبیروں سے روک دیا جاتا ہے۔ باقی ماندہ پانچ فی صد حوادث جن میں اتفاقًا حمل قرار پا جاتا ہے، ان کے لیے اسقاط اور قتل اطفال کی تدبیریں موجود ہیں۔ لنڈسے کا بیان ہے کہ امریکا میں ہر سال کم از کم ۱۵ لاکھ حمل ساقط کیے جاتے ہیں اور ہزارہا بچے پیدا ہوتے ہی قتل کر دیے جاتے ہیں۔ (صفحہ ۲۲۰)
۲۔ انگلستان کی حالت
مَیں ان افسوس ناک تفصیلات کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتا۔ مگر نامناسب ہے کہ اس حصۂ بحث کو جارج رائیلی اسکاٹ کی تاریخ الفحشا”A history of prostitution” کے چند اقتباسات نقل کیے بغیر ختم کر دیا جائے۔ اس کتاب کا مصنف ایک انگریز ہے اور اس نے زیادہ تر اپنے ہی ملک کی اخلاقی حالت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:
جن عورتوں کی بسر اوقات کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ اپنے جسم کو کرایہ پر چلا کر روزی کمائیں۔ ان کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد ان عورتوں کی بھی ہے (اور وہ روز بروز زیادہ ہو رہی ہے) جو اپنی ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لیے دوسرے ذرائع رکھتی ہیں اور ضمنی طور پر اس کے ساتھ فاحشہ گری بھی کرتی ہیں تاکہ آمدنی میں کچھ اور اضافہ ہو جائے۔ یہ پیشہ ور فاحشات سے کچھ بھی مختلف نہیں ہیں، مگر اس نام کا اطلاق ان پر نہیں کیا جاتا۔ ہم انھیں غیر پیشہ ور فاحشات (amateur prostitutes) کہہ سکتے ہیں۔
ان شوقین یا غیر پیشہ ور فاحشات کی کثرت آج کل جتنی ہے اتنی کبھی نہ تھی۔ سوسائٹی کے نیچے سے لے کر اوپر تک ہر طبقہ میں یہ پائی جاتی ہیں۔ اگر ان معزز خواتین کو کہیں اشارے کنایے میں بھی ’’فاحشہ‘‘ کہہ دیا جائے تو یہ آگ بگولا ہو جائیں گی۔ مگر ان کی ناراضی سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ ان میں اور پکاڈلی کی کسی بڑی سے بڑی بے شرم بیسوا میں بھی اَخلاقی حیثیت سے کوئی وجہ امتیاز نہیں ہے… اب جوان لڑکی کے لیے بد چلنی اور بے باکی، بلکہ سوقیانہ اطوار تک فیشن میں داخل ہو گئے ہیں اور سگریٹ پینا، تلخ شرابیں استعمال کرنا، ہونٹوں پر سرخی لگانا، صنفیات اور مانع حمل کے متعلق اپنی واقفیت کا اظہار کرنا، فحش لٹریچر پر گفتگو کرنا، یہ سب چیزیں بھی ان کے لیے فیشن بنی ہوئی ہیں … ایسی لڑکیوں اور عورتوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جو شادی سے پہلے صنفی تعلقات بلاتکلف قائم کر لیتی ہیں اور وہ لڑکیاں اب شاذ کے حکم میں ہیں جو کلیسا کی قربان گاہ کے سامنے نکاح کا پیمانِ وفا باندھتے وقت صحیح معنوں میں دوشیزہ ہوتی ہیں۔
آگے چل کر یہ مصنف ان اسباب کا تجزیہ کرتا ہے جو حالات کو اس حد تک پہنچا دینے کا موجب ہوئے ہیں اور مناسب تو یہ ہے کہ اس تجزیہ کو بھی اسی کے الفاظ میں نقل کیا جائے:
سب سے پہلے اس شوقِ آرائش کو لیجیے جس کی وجہ سے ہر لڑکی میں نئے فیشن کے قیمتی لباسوں اور حسن افزائی کے مختلف النوع سامانوں کی بے پناہ حرص پیدا ہو گئی ہے۔ یہ اس بے ضابطہ فاحشہ گری کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے۔ ہر شخص جو دیکھنے والی آنکھیں رکھتا ہے اس بات کو بآسانی دیکھ سکتا ہے کہ وہ سیکڑوں ہزاروں لڑکیاں جو اس کے سامنے روزانہ گزرتی ہیں عمومًا اتنے قیمتی کپڑے پہنے ہوئے ہوتی ہیں کہ ان کی جائز کمائی کسی طرح بھی ایسے لباسوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا آج بھی یہ کہنا اتنا ہی صحیح ہے جتنا نصف صدی پہلے صحیح تھا کہ مرد ہی ان کے لیے کپڑے خریدتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے جو مرد ان کے لیے کپڑے خریدتے تھے وہ ان کے شوہر یا باپ بھائی ہوتے تھے اور اب ان کی بجائے کچھ دوسرے لوگ ہوتے ہیں۔
عورتوں کی آزادی کا بھی ان حالات کی پیدائش میں بہت کچھ دخل ہے۔ گزشتہ چند سالوںمیں لڑکیوں پر سے والدین کی حفاظت و نگرانی اس حد تک کم ہو گئی ہے کہ تیس چالیس سال قبل لڑکوں کو بھی اتنی آزادی حاصل نہ تھی جتنی اب لڑکیوں کو حاصل ہے۔
ایک اور اہم سبب، جو سوسائٹی میں وسیع پیمانہ پر صنفی آوارگی پھیلنے کا موجب ہوا، یہ ہے کہ عورتیں روز افزوں تعداد میں تجارتی کاروبار، دفتری ملازمتوں اور مختلف پیشوں میں داخل ہو رہی ہیں جہاں شب و روز انھیں مردوں کے ساتھ خلط ملط ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس چیز نے عورتوں اور مردوں کے اَخلاقی معیار کو بہت گرا دیا ہے۔ مردانہ اقدامات کے مقابلہ میں عورتوں کی قوتِ مزاحمت کو بہت کم کر دیا ہے، اور دونوں صنفوں کے شہوانی تعلق کو تمام اخلاقی بندشوں سے آزاد کر کے رکھ دیا ہے۔ اب جوان لڑکیوں کے ذہن میں شادی اور باعصمت زندگی کا خیال آتا ہی نہیں۔ آزادانہ ’’خوش وقتی‘‘ جسے پہلے کبھی آوارہ قسم کے مرد ڈھونڈتے پھرتے تھے، آج ہر لڑکی اس کی جستجو کرتی پھرتی ہے۔ دوشیزگی اور بکارت کو ایک دقیانوسی چیز سمجھا جاتا ہے اور دورِ جدید کی لڑکی اسے ایک مصیبت خیال کرتی ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کا لطف یہ ہے کہ عہدِ شباب میں لذاتِ نفس کا جام خوب جی بھر کے پیا جائے۔ اسی چیز کی تلاش میں وہ رقص خانوں، نائٹ کلبوں، ہوٹلوں اور قہوہ خانوں کے چکر لگاتی ہے اور اسی کی جستجو میں وہ بالکل اجنبی مردوں کے ساتھ موٹر کی سیر کے لیے بھی جانے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ جان بوجھ کر خود اپنی خواہش سے اپنے آپ کو ایسے ماحول میں اور ایسے حالات میں پہنچا دیتی ہے اورپہنچاتی رہتی ہے جو صنفی جذبات کو مشتعل کرنے والے ہیں اور پھر اس کے جو قدرتی نتائج ہیں ان سے وہ گھبراتی نہیں ہے بلکہ ان کا خیر مقدم کرتی ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں