قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۰ۭ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَہُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo الاعراف85:7
(حضرت شعیبؑ نے) کہا اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف رہنمائی آگئی ہے، لہٰذا وزن اور پیمانے پورے کرو لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دو۔
وَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لَىِٕنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا اِنَّكُمْ اِذًا لَّـخٰسِرُوْنَo
الاعراف 90:7
اس کی قوم کے سرداروں نے ، جو اس کی بات ماننے سے انکار کر چکے تھے، آپس میں کہا ’’اگر تم نے شعیبؑ کی پیروی قبول کرلی تو برباد ہو جائو گے۔
پہلی آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت شعیبؑ کی قوم میں دو بڑی خرابیاں پائی جاتی تھیں۔ ایک شرک۔ دوسرے تجارتی معاملات میں بددیانتی۔ انہی دونوں چیزوں کی اصلاح کے لیے حضرت شعیبؑ مبعوث ہوئے تھے۔ سردارانِ قومِ شعیبؑ نے ان کی بات کا جو جواب دیا اس پر سے سرسری طور پر نہ گزر جایئے۔ یہ ٹھیر کر بہت سوچنے کا مقام ہے۔ مَدْیَن کے سردار اور لیڈر دراصل یہ کہہ رہے تھے اور اسی بات کا اپنی قوم کو بھی یقین دلا رہے تھے ، کہ شعیب ؑ جس ایمان داری اور راست بازی کی دعوت دے رہا ہے، اور اخلاق و دیانت کے جن مستقل اصولوں کی پابندی کرانا چاہتا ہے، اگر ان کو مان لیا جائے تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ ہماری تجارت کیسے چل سکتی ہے اگر ہم بالکل ہی سچائی کے پابند ہو جائیں اور کھرے کھرے سودے کرنے لگیں؟اور ہم جو دنیا کی دو سب سے بڑی تجارتی شاہ راہوں کے چوراہے پر بستے ہیں اور مصر و عراق کی عظیم الشان متمدن سلطنتوں کی سرحد پر آباد ہیں ، اگر ہم قافلوں کو چھیڑنا بند کر دیں اور بے ضرر اور پرامن لوگ ہی بن کر رہ جائیں تو جو معاشی اور سیاسی فوائد ہمیں اپنی موجودہ جغرافی پوزیشن سے حاصل ہو رہے ہیں وہ سب ختم ہو جائیں گے اور آس پاس کی قوموں پر جو ہماری دھونس قائم ہے وہ باقی نہ رہے گی۔ یہ بات صرف قوم شعیبؑ کے سرداروں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہر زمانے میں بگڑے ہوئے لوگوں نے حق اور راستی و دیانت کی روش میں ایسے ہی خطرات محسوس کئے ہیں۔ ہر دور کے مفسدین کا یہی خیال رہا ہے کہ تجارت اور سیاست اور دوسرے دینی معاملات جھوٹ اور بے ایمانی اور بداخلاقی کے بغیر نہیں چل سکتے۔ ہر جگہ دعوتِ حق کے مقابلے میں جو زبردست عذرات پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی رہا ہے کہ اگر دنیا کی چلتی ہوئی راہوں سے ہٹ کر اس دعوت کی پیروی کی جائے گی تو قوم تباہ ہو جائے گی۔(تفہیم القرآن، جلد دوم، صفحات ۵۵-۵۷۔)